منگل , 23 اپریل 2024

ہن ہن خبر آئی اے، بشار ساڈا بھائی اے

(تحریر: عرفان علی)
بلا تمہید عرض کہ اس مرتبہ عنوان پنجابی زبان میں ہے، جو اردو میں یوں ہوگا ’’ابھی ابھی خبر آئی ہے، بشار ہمارا بھائی ہے۔‘‘ پاکستان کی سرزمین کا ایک مشہور سیاسی لطیفہ ہے کہ صوبہ پنجاب میں خضر حیات ٹوانہ کے خلاف احتجاج ہو رہا تھا اور ٹوانہ کے خلاف نعرے لگ رہے تھے، جبکہ پس پردہ مذاکرات جاری تھے، جو کامیاب ہوگئے اور وہاں سے پیغام بھیجا گیا کہ مفاہمت ہوگئی ہے، اس لئے اب ٹوانہ کے خلاف بات نہ کی جائے۔ جونہی وہاں یہ اطلاع پہنچی تو ٹوانہ مردہ باد کے نعرے لگوانے والے نے فوری طور یہ نعرہ بلند کیا ’’ہن ہن خبر آئی اے، ٹوانہ ساڈا بھائی اے!‘‘ اس وقت امریکہ و نیٹو ممالک کے عرب اتحادی حکمرانوں کی صفوں سے بھی کچھ ایسا ہی نعرہ بلند ہوا ہے۔ خلیج فارس کے دوسرے کنارے واقع عرب ممالک کی تنظیم خلیجی تعاون کاؤنسل (جی سی سی) کے رکن متحدہ عرب امارات نے شام کے دارالحکومت دمشق میں اپنا سفارتخانہ دوبارہ کھول لیا ہے۔ بحرین بھی ایسا اعلان کرچکا ہے جبکہ سوڈان کے صدر تو دمشق یاترا کرچکے ہیں اور مصر و سعودی عرب کے حوالے سے اطلاعات ہیں کہ وہ بھی دیدہ و دل فرش راہ کئے بیٹھے ہیں۔ اردن پہلے ہی تعلقات کی بحالی کے لئے اقدامات کا آغاز کرچکا۔ 2015ء سے بند دونوں ملکوں کے درمیان کی سرحدی گذرگاہ یعنی ال نصیب بارڈر کراسنگ کھل چکا ہے۔ اقوام متحدہ کے مشن کے افراد اب شام کے علاقے قنیطرہ سے مقبوضہ جولان تک آجا سکتے ہیں کیونکہ دوسری طرف سے اسرائیل نے بھی بندش ختم کر دی ہے، لیکن صہیونی ریاست نے شام کے خلاف کارروائیاں جاری رکھنے کا اعلان بھی کیا ہے۔

سال 2011ء سے عرب لیگ اور جی سی سی کے وہ ممالک جو امریکہ و دیگر نیٹو ممالک کے اتحادی ہیں، نے شام کے عوام کے ووٹوں سے براہ راست منتخب عرب قوم پرست صدر بشار الاسد اور منتخب جمہوری شامی حکومت کے خلاف اقدامات کا سلسلہ شروع کیا۔ انہوں نے بشار الاسد اور شامی حکومت کو عرب لیگ سے خارج کرکے سفارتی تعلقات ختم کرکے بشار مردہ باد کا نعرہ بلند کروایا اور تقریباً ساتویں سال کے اختتام پر امریکہ کے اتحادی عرب حکمرانوں نے بشار الاسد کو بھائی مان لیا ہے۔ بحرین کے وزیر خارجہ یہ نعرہ اقوام متحدہ کے سالانہ جنرل اسمبلی اجلاس کے وقت نیویارک میں ماہ ستمبر میں بلند کرچکے ہیں اور اب بحرینی وزات خارجہ نے بھی دمشق میں سفارتخانے کو دوبارہ کھولنے کا اعلان کیا ہے۔ سوڈان کے صدر عمر البشیر نے دو ہفتے پہلے شام کا دورہ کیا اور بشار الاسد سے ملاقات میں سوڈان کی حمایت کا یقین دلایا جبکہ سوڈان ہی وہ ملک تھا، جس کے سابق ملٹری انٹیلی جنس سربراہ جنرل محمد احمد مصطفیٰ ال دابی کو 2011ء میں شام کے خلاف بنائے گئے عرب لیگ آبزرومشن کا سربراہ مقرر کیا گیا تھا۔

مغربی بلاک جو خود کو انسانی حقوق، جمہوریت و انسانی آزادی کا علمبردار کہتے نہیں تھکتا، اس کے اصلی چہرے کو بھی مملکت شام کے خلاف اسکی پالیسی نے ہی بے نقاب کیا۔ سوڈان کے حکمران پر انکا الزام تھا کہ اس نے اسامہ بن لادن کو پناہ دی، عمر البشیر پر دہشت گردی کو اسپانسر کرنے اور دارفور میں نسل کشی کا الزام بھی لگایا۔ لیکن شام کی منتخب و نمائندہ حکومت و صدر کے خلاف اسی سوڈان اور عمر البشیر سے مدد بھی لی۔ وہ عرب ملک جہاں مطلق العنان موروثی شاہ و شیوخ حکمران تھے، انکی مدد لی گئی، جنہیں مذہبی دہشت گرد قرار دیا گیا، انکی مدد لی گئی۔ لیکن سات سال میں شام کے عوام و ریاست کے خلاف انسانیت سوز مظالم و سازشوں کے باوجود سوائے ذلت و رسوائی کے مغربی بلاک، نیٹو اور اسکے عرب اتحادیوں کے ہاتھ کچھ نہ آیا۔ عالمی رائے عامہ کو گمراہ کرنے کے لئے مہنگی ترین تبلیغاتی مہم کے باوجود شام کے دشمن ناکام ہیں، کیونکہ شام کے عوام بشار کے ساتھ کھڑے رہے، شام کے عوام کو اپنے منتخب صدر کی عرب دوستی پر اعتماد تھا، شام کے عوام کو بشار الاسد کی فلسطین دوستی پر اعتماد تھا۔ شام کے عوام آج بھی اپنی ریاست و افواج کے ساتھ کھڑے ہیں۔

قطع نظر اس کے کہ امریکہ وہاں سے انخلاء کرتا ہے یا نہیں، امریکہ سمیت سارے شام مخالف اتحادی جب یہاں جمع تھے اور پوری قوت و توانائی کے ساتھ خود اور پراکسیز کے ذریعے شام کے بیشتر علاقوں پر تسلط جما چکے تھے، جب وہ یہ سب کچھ کرکے بھی بشار الاسد کو عرب کاز یعنی مقبوضہ فلسطین، مقبوضہ جولان، مقبوضہ شبعا فارمز وغیرہ کو اسرائیل سے آزاد کروانے پر مبنی حقیقی عرب موقف سے دستبردار نہ کروا سکے تو انکا شام میں رہنا یا جانا شام کی ریاست کی پالیسی پر اثر انداز نہیں ہوسکتا۔ البتہ اس ساری صورتحال میں ترک حکومت اور اخوانی دوستوں کے خلیفہ رجب طیب اردگان کو سبق سیکھنے کی ضرورت ہے۔ شام کے صوبہ ادلب، حلب، دیر الذور اور حسکہ کی سرحدی پٹی پر شام کے عوام سڑکوں پر نکل کر ترک مداخلت کے خلاف اپنا احتجاج ریکارڈ کروا رہے ہیں۔ یہ صرف عرب عوام نہیں ہیں، جو ترک مخالفت میں نکلے ہیں بلکہ عشائر و قبائل کے سربراہان (وجھاء و شیوخ) بھی ہیں۔ یہ سب شام کی ریاست، منتخب جمہوری حکومت اور صدر بشار الاسد کی حمایت کر رہے ہیں۔ ان سبھی کا مطالبہ ہے کہ شام کے اندر ترکی کی مداخلت انہیں پسند نہیں، منظور نہیں۔ شام کی افواج اب منبج شہر پہنچ چکی ہیں، جہاں انکا بھرپور استقبال ہوا ہے۔ مغربی ذرائع ابلاغ اس خبر کو چھپا رہے ہیں۔ شام عفرین سمیت اپنے ہر انچ پر ہر اس غیر ملکی کی کی موجودگی کا مخالف ہے جو وہاں شام کی حکومت کی اجازت کے بغیر گھس بیٹھا ہے۔ شام کا موقف انٹرنیشنل لاء کے عین مطابق ہے۔

ترکی اس وقت بیک وقت امریکہ اور روس کے ساتھ ان معاملات پر بات چیت میں مصروف ہے، اسرائیل کے کٹر حامی جون بولٹن کی سربراہی میں امریکی وفد ترکی کا دورہ کرنے آرہا ہے جبکہ ترکی کے انٹیلی جنس سربراہ روس کا دورہ کرنے والے ہیں۔ ان آنیوں جانیوں اور شیوخ و شاہ و مصر و سوڈان و اردگان کی مجموعی پالیسیوں میں ان کے حامیوں کے لئے جو سبق پوشیدہ ہے، وہ یہ ہے کہ ہمارے جماعتی و اخوانی دوست سمیت مدرسے کے مولوی و طلاب کا وہ طبقہ جو یمن و شام کے خلاف صہیونی اسرائیل کے سرپرست امریکہ و نیٹو کے اتحادی اخوانی اردگان و عمر البشیر و اخوان دشمن سعودی و اماراتی شاہ و شیوخ و مصری ڈکٹیٹر کی حمایت کرتے رہے ہیں، وہ غلطی پر تھے بلکہ حقیقت اس سے زیادہ سخت جملہ کہنے پر مجبور کرتی ہے، کہ انکا عمل قران و سنت سے متصادم رہا ہے۔ انہیں اپنی اصلاح کی سخت ضرورت ہے۔ اسامہ بن لادن، ملا عمر، جمال خشوگی جیسوں کے انجام سے ہی سبق سیکھ لیں کہ انکی حیثیت اسلام دشمنوں و عرب دشمنوں کے بڑے کھیل کے چھوٹے مہروں سے زیادہ کی نہیں ہے۔

موجوہ عالمی سیاست میں ملکوں کے تعلقات میں اس طرح کے داؤ پیچ کا آزمایا جانا معمول کی بات ہے، کیونکہ بعض اوقات جنگ کو سیاست یا ڈپلومیسی کا ہی ایک اور ذریعہ یا طریقہ سمجھا جاتا ہے، جیسے کہ پرشیا (موجودہ جرمنی) کے جرنیل اور فوجی نظریہ ساز کارل وون کلازوٹز نے نامکمل تصنیف ’’ایٹ وار‘‘ میں لکھا تھا یا پھر اسی جملے کو ایک اور انداز میں آجکل یوں کہا جاتا ہے اور یہ زیادہ مشہور قول ہے کہ سفارتکاری جنگ ہی کا ایک اور طریقہ یا ذریعہ ہے۔ دونوں صورتوں میں بے اصولی کی سیاست کرنے والے ممالک سطحی مفادات دیکھتے ہیں، جس میں دین، مذہب، مسلک، قوم، رنگ و نسل، سب کچھ قربان کر دیتے ہیں، کیونکہ ایک اور قول بھی انکے پیش نظر رہتا ہے کہ جنگ اور محبت میں سب جائز ہے۔ البتہ شام و یمن کے حالات کے تناظر میں ایک مسلمان کے لئے کسی صورت میں یہ سب کچھ جائز نہیں ہوسکتا۔

شام ہو یا یمن، یہ معرکہ تاحال جاری ہے۔ بس اس میں بعض عرب ممالک کا شام سے تعلقات بحال کرنا ایک ایسی ڈیولپمنٹ ہے، جس نے شام کی ریاست کی حمایت پر مبنی ایران کے موقف کی حقانیت پر مہر تصدیق ثبت کی ہے۔ گو کہ پاکستان کے سفیر شام میں موجود ہیں، لیکن او آئی سی میں سعودی عرب کے دباؤ پر شام کے خلاف ووٹ دینے سے اور بعد ازاں وزارت خارجہ کی جانب سے سعودی شخصیات کے دوروں کے موقع پر شام کے حوالے سے موقف کی وجہ سے پاکستان کی غیر جانبداری مشکوک ہوچکی ہے۔ ریاست پاکستان کے لئے اس نئی ڈیولپمنٹ میں جو سبق پوشیدہ ہے، وہ یہ کہ سعودی و اماراتی شاہ و شیوخ کی خاطر پاکستان کی عرب دنیا میں اچھی ساکھ کو داؤ پر لگانے سے گریز کریں، وہ تو بھائی بھائی بن گئے، آپ کہاں کھڑے ہیں! لیکن اس سے بھی زیادہ دلچسپ اور قابل دید حالت اس طبقے کی ہوگی، جس نے عرب شیوخ و شاہ و اخوانی سوڈانی و قطری محبت میں پاکستان جیسے ممالک میں اندھا دھند تبلیغاتی گولہ باری کی، بشار مردہ باد کے نعرے لگائے کیونکہ۔۔۔۔۔۔ ہن ہن خبر آئی اے، بشار ساڈا بھائی اے!

یہ بھی دیکھیں

مریم نواز ہی وزیراعلیٰ پنجاب کیوں بنیں گی؟

(نسیم حیدر) مسلم لیگ ن کی حکومت بنی تو پنجاب کی وزارت اعلیٰ کا تاج …