منگل , 23 اپریل 2024

قومی دولت چند ہاتھوں میں

(ظہیر اختر بیدری) 
سابق وزیر اعظم میاں نواز شریف کو العزیزیہ ریفرنس میں 7 سال قید، پونے چار ارب جرمانہ 10 سال کے لیے عوامی عہدے کے لیے نااہلی، ہل میٹل کے تمام اثاثہ جات ضبط کرنے کا حکم دے دیا گیا۔ میاں نواز شریف نے کہا کہ ایمانداری سے ملک اور عوام کی خدمت کی جس کا صلہ سزا کی صورت میں ملا۔ کبھی اختیارات کا ناجائز استعمال کیا نہ کرپشن کی، ایسا کام نہیں کیا جس پر سر جھکانا پڑے۔ میرا ضمیر مطمئن ہے۔ اللہ سے امید ہے کہ مجھے انصاف ملے گا۔

سابق وزیر اعظم کے خلاف تقریباً ہر دور میں الزامات عائد ہوتے رہے اور میاں صاحب ان الزامات سے انکاری رہے۔ میاں صاحب کو العزیزیہ ریفرنس میں 7 سال قید کی سزا دی گئی اس کے علاوہ جرمانے کی سزا بھی دی گئی۔ اس حوالے سے میاں صاحب کا موقف ہم نے پیش کردیا ہے۔ اس میں ذرہ برابر شک نہیں کہ سرمایہ دارانہ جمہوریت میں بڑے پیمانے پر کرپشن لازمی بن گیا ہے۔اس نظام کے رہتے ہی کرپشن نہ ہونا، ایک احمقانہ خیال کے سوا کچھ نہیں۔ کرپشن صرف پاکستان ہی میں نہیں ہو رہی بلکہ دنیا کے ہر ملک میں ہو رہی ہے۔ دنیا کے ہر ملک میں اس کی روک تھام کے لیے قوانین موجود ہیں لیکن ان ملکوں میں قانون اور انصاف کا نظام اس قدر غیر موثر ہے کہ قانون جیسے جیسے سخت ہوتا جاتا ہے جرائم میں اسی رفتار سے اضافہ ہوتا رہتا ہے۔

اس حوالے سے اہم بات یہ ہے کہ کرپشن کسی ایک فرد یا جماعت تک محدود نہیں، بلکہ اس کا دائرہ اس قدر وسیع ہے کہ کوئی ملک اس کی زد سے بچا ہوا نہیں ہے۔ اس حوالے سے دلچسپ بات یہ ہے کہ نچلا طبقہ بھی اس کی رینج سے باہر نہیں لیکن اس حقیقت کی نشان دہی ضروری ہے کہ نچلے طبقات کی کرپشن اور بالادست طبقات کی کرپشن میں فرق یہ ہے کہ نچلے طبقات اپنی بنیادی ضروریات کو پورا کرنے کے لیے کرپشن کا ارتکاب کرتے ہیں ،کرپشن کے ذریعے نچلے طبقات نہ دولت کے انبار لگاتے ہیں نہ ترقی یافتہ ملکوں میں بھاری مالیت کی جائیدادیں خریدتے ہیں۔

اس کے برعکس بالادست طبقات کی کرپشن کی کوئی حد مقرر نہیں۔ ملک کے اندر اور بیرونی ملکوں میں بالادست طبقات کی کرپشن اربوں ڈالر تک پھیلی ہوئی ہے اور بالادست طبقات ترقی یافتہ ملکوں میں بھی کروڑوں ڈالر اور اربوں روپوں کی جائیدادیں خریدتے ہیں، اگر ہم خود اپنے ملک پر نظر ڈالیں توکرپشن کی بے لگامی کا اندازہ ہوسکتا ہے۔ ہمارے ملک میں کرپشن کا کلچرکوئی نیا کلچر نہیں ہے بلکہ ہر دور میں یہ کلچر موجود ہی نہیں رہا بلکہ پھلتا پھولتا رہا اس کی ایک بڑی وجہ قانون میں وہ لچک ہے جس سے جرائم کم نہیں ہوتے بلکہ جرائم میں اضافہ ہوتا ہے۔کرپشن کے حوالے سے اس حقیقت کی طرف اشارہ کرنے کی ضرورت ہے کہ ویسے تو کرپشن کا کھیل ہر موسم میں کھیلا جاتا ہے لیکن حکمرانی کا موسم کرپشن کے لیے اس قدر سازگار ہوتا ہے کہ اس موسم میں گھوڑے گدھے سب کرپشن کا ارتکاب کرتے ہیں۔

کرپشن کے حوالے سے یہ کہنا بہت مشکل ہے کہ کرپشن کسی مخصوص طبقے تک محدود ہے، اس حوالے سے یہ کہا جا سکتا ہے کہ جس کو جتنا موقع ملتا ہے، وہ اس موقعے سے بھرپور طریقے سے فائدہ اٹھاتا ہے۔ سرمایہ دارانہ جمہوریت کی سب سے بڑی خوبی یہ ہے کہ سرمایہ دارانہ جمہوریت کرپشن کے پھیلاؤ میں بنیادی کردار ادا کرتی ہے اورکرپٹ افراد کا تحفظ بھی کرتی ہے۔ پاکستان میں کرپشن کے استحکام کی ایک بڑی وجہ یہ ہے کہ اس ملک میں جاگیردارانہ نظام نہ صرف قیام پاکستان کے ساتھ موجود رہا بلکہ ہر آنے والے دن میں وہ اور مستحکم ہوتا رہا۔ جاگیردارانہ نظام کا استحکام دراصل کرپشن کا استحکام ہے اس میں کوئی شک نہیں کہ پاکستان میں جاگیردارانہ وڈیرہ شاہی نظام 71 سال گزرنے کے باوجود آج بھی ’’ابھی تو میں جوان ہوں‘‘ گنگناتا رہتا ہے۔ بلکہ اس نظام کے سرپرستوں نے سرمایہ دارانہ نظام سے طبقاتی اتحاد کرکے اسے دوبارہ جوان بنادیا ہے۔

اس ملاپ کا نظارہ ہم پاکستان میں بھرپور طریقے سے کرسکتے ہیں۔ سیاسی حلقوں میں اس بات پر اصرارکیا جاتا ہے کہ سرمایہ دارانہ نظام ہی ایک ایسا نظام ہے جس میں اقتصادی اور تہذیبی ترقی تیزی سے ہوتی ہے۔ ہوسکتا ہے اس نظام میں تیزی سے ترقی ہوتی ہو لیکن اس ترقی کا دائرہ سرمایہ دار طبقے تک محدود ہوتا ہے، غریب طبقات مشکل سے زندگی گزارتے ہیں۔ آج پاکستان میں جو اربوں کی کرپشن کے نظارے دیکھے جا رہے ہیں وہ سرمایہ دار طبقے اور اس کے اتحادیوں تک ہی محدود ہیں، اس نظام کے سرپرستوں نے اس کا میکنزم ہی ایسا بنایا ہے کہ دولت مخصوص دائروں ہی میں گھومتی ہے۔

آج کل اربوں روپوں کی ٹرانزیکشن ہو رہی ہے، اربوں روپے کی کرپشن ہو رہی ہے لیکن دولت کی اس ٹرانزیکشن میں غریب طبقات کا کوئی حصہ نہیں۔ وہ وہی بلکہ اس سے بدتر زندگی گزار رہا ہے جو 30-40 سال پہلے گزارا کرتا تھا، اس کی وجہ یہ ہے کہ دولت کی سرکولیشن آج سے 40-30 سال پہلے جن ہاتھوں میں تھی آج بھی انھی ہاتھوں میں ہے ملکی آبادی میں غریب طبقات کی تعداد 85 فیصد سے زیادہ ہے لیکن اس 85 فیصد کے حصے میں قومی دولت کا بمشکل 15 فیصد حصہ آتا ہے اور 15 فیصد ایلیٹ اور اپر مڈل کلاس قومی دولت کے 85 فیصد سے زیادہ حصے پر قابض ہے۔ سرمایہ دارانہ سیٹ اپ میں ملکی دولت خواہ وہ جائز ہو یا ناجائز 15 فیصد ایلیٹ اور اس کے طبقاتی بھائیوں کے ہاتھوں میں ہی گردش کرتی ہے۔

سرمایہ دارانہ معیشت کے حامل ملکوں میں جو معاشی نظام ترتیب دیا گیا ہے اس کا میکنزم ہی ایسا بنایا گیا ہے کہ عام غریب طبقات مزدور اور کسان خواہ کتنی ہی محنت کریں انھیں ایک فکس تنخواہ ہی دی جاتی ہے باقی ساری دولت ایلیٹ ہڑپ کر جاتی ہے اس لوٹ مار کے نظام میں اس وقت تک کوئی تبدیلی آ ہی نہیں سکتی جب تک نجی ملکیت کو محدود نہ کیا جائے اور حکمران طبقات یہ ہونے نہیں دیں گے۔بشکریہ ایکسپریس نیوز

یہ بھی دیکھیں

مریم نواز ہی وزیراعلیٰ پنجاب کیوں بنیں گی؟

(نسیم حیدر) مسلم لیگ ن کی حکومت بنی تو پنجاب کی وزارت اعلیٰ کا تاج …