ہفتہ , 20 اپریل 2024

جنوبی ایشیا کی ترقی کے لیے

(ظہیر اختر بیدری) 
دنیا میں رہنے والے وہ لوگ جو دنیا کی امن، آشتی، محبت، بھائی چارے اور معاشی انصاف کا گہوارا دیکھنا چاہتے ہیں ہر وقت ایسے واقعات کی تلاش میں رہتے ہیں ، جو ان کے مقاصد کو پورا کرے، پاکستان اور ہندوستان دو ایسے ملک ہیں جن کی تخلیق ہی نفرتوں، عداوتوں پر ہوئی ہے اور بدقسمتی کی بات یہ ہے کہ یہ دونوں ملک جو ماضی میں ایک ہزار سال تک ایک ملک کی حیثیت سے زندہ رہے اور محبت اور بھائی چارے کے ساتھ زندہ رہے اس محبت اور بھائی چارے کو امن دشمنوں نے نفرتوں اور عداوتوں میں اس طرح بدل دیا کہ انسان کو شیطان بنادیا۔ کسی بھی مذہب میں اکثریت امن اور آشتی پسندوں کی ہوتی ہے۔ نفرت اور خون خرابے کو پسند کرنے والوں کی تعداد بہت کم ہوتی ہے لیکن ان کے پاس وسائل کی بہتات ہوتی ہے اور متعصب کارکن بھی بڑی تعداد میں پائے جاتے ہیں جو فرقہ وارانہ تعصب کو ہوا دے کر شریف انسانوں کو شیطان بنا دیتے ہیں۔

اس حوالے سے سب سے پہلے اس حقیقت کو سمجھنے کی ضرورت ہے کہ پسماندہ ملکوں میں غربت ایک عذاب بنی ہوئی ہے اور اسی عالمی بیماری میں وہی طبقات مبتلا ہوتے ہیں جو غریب کی حیثیت سے پہچانے جاتے ہیں اور ان کے مقاصد میں سب سے بڑا مقصد مذہب کے نام پر انسانوں میں نفرت کا پرچار کرنا ہوتا ہے۔ پاکستان اور ہندوستان جیسے انتہائی پسماندہ ملکوں میں جہاں کی آبادی کا 50 فیصد سے زیادہ حصہ غربت کی لکیر کے نیچے زندگی گزار رہا ہے مذہب کے حوالے سے زیادہ حساس ہے۔ مذہب کے نام پر انسانوں میں تفریق پیدا کرنا ہر ملک کی اشرافیہ اپنا فرض سمجھتی ہے، کیونکہ ہند وپاک جیسے غریب ملکوں میں اشرافیائی سیاست میں مذہب کا استعمال ایک اہم فیکٹر ہے۔ ہندوستان کو تقسیم ہوئے اب 71 سال ہوچکے ہیں لیکن دونوں ملکوں میں مذہبی سیاست آج بھی ایک مضبوط فیکٹر کی حیثیت رکھتی ہے۔ اس سیاست میں مراعات یافتہ طبقات عوام کو بالواسطہ اس طرح استعمال کرتے ہیں کہ غریب طبقات کو ہوا تک نہیں لگتی کہ اشرافیہ نے انھیں اپنے مقاصد کے لیے استعمال کرلیا ہے۔ اس حوالے سے ایک اہم مثال یا حوالہ یہ ہے کہ دونوں ملکوں کے درمیان چونکہ ابھی تک مذہبی تضادات موجود ہیں اشرافیہ ان تضادات کو کس ہوشیاری سے اپنے مفادات کے لیے استعمال کرتی ہے۔

سب سے پہلے اس چالاکی پر نظر ڈالیے کہ دونوں ملکوں کے درمیان مسئلہ کشمیر کو کیوں ایک ہوا بنا کر 71 سال سے کھڑا کیا گیا ہے۔ آج کی دنیا میں ہتھیاروں کی صنعت انتہائی منافع بخش صنعت مانی جاتی ہے اس صنعت پر اشرافیہ کا قبضہ ہے ہتھیار کے کارخانوں کے مالکان کی اولین ضرورت یہی ہوتی ہے کہ انھیں زیادہ سے زیادہ ہتھیاروں کی سپلائی کے آرڈر ملیں اور یہ آرڈر اسی وقت مل سکتے ہیں جب دونوں ملکوں میں تناؤ پیدا کیا جائے اور تناؤ پیدا کرنے کے لیے کسی مسئلے کی ضرورت ہوتی ہے۔ اس خطے کے عوام کی بدقسمتی یہ ہے کہ مسئلہ کشمیر کی شکل میں ایک تناؤ پیدا کرنے والا مسئلہ اشرافیہ اور ہتھیاروں کے تاجروں کو ملا ہوا ہے۔
یہ ایک منظم کاروبار کا حصہ ہے جس میں غریب لوگوں کو استعمال کیا جاتا ہے۔ پہلے دونوں ملکوں کے شہری علاقوں میں فرقہ وارانہ فساد کرائے جاتے تھے اب عوام فرقہ وارانہ فسادات کے نفع نقصان کو سمجھ رہے ہیں لہٰذا وہ فرقہ وارانہ فسادات کو شہری علاقوں سے دور کرنا چاہتے ہیں، سو لائن آف کنٹرول کو استعمال کیا جا رہا ہے۔ لائن آف کنٹرول پر مخالف گروہوں کا کوئی پنگا ہو جاتا ہے تو اس کی میڈیا میں خوب تشہیر ہوتی ہے اور یہ تاثر دیا جاتا ہے کہ اس حوالے سے کوئی بڑی لڑائی ہوسکتی ہے پھر کیا ہے ہتھیاروں کی صنعت کی لابی حرکت میں آجاتی ہے اور ہتھیاروں کی خریداری کو لازمی ضرورت بنا دیا جاتا ہے۔ یہ ایک منظم اور گہرا سلسلہ ہے لہٰذا دنیا کے سامنے اس تنازع کو سنگین بناکر پیش کیا جاتا ہے۔ اس تنازع میں بھارتی حکومت ہر اعتبار سے دوشی ٹھہرتی ہے۔ پاکستان میں بھی ایسا ایلیمنٹ ہے جو سرحدی جھڑپوں کو سیاسی مقاصد کے لیے استعمال کرتا ہے۔ اس ایلیمنٹ کو حکومت نے دبا کر رکھا ہے وہ ایک حدود کے اندر ہی اکھنڈ بھارت اکھنڈ پاک جیسے اشتعال انگیز نعروں کو استعمال کرتا ہے۔

اس مسئلے پر چونکہ پاکستان کا موقف حقیقت پسندانہ ہے لہٰذا سیاسی اور دانشورانہ حلقوں میں اسے تسلیم کیا جاتا ہے۔ بھارت میں ہتھیاروں کی فروخت کی لابی کے لیے ایک سہولت یہ ہے کہ اس کے پاس چین کا ہوا موجود ہے، بھارت کی لابی کبھی پاکستان کو اس حوالے سے استعمال کرتی ہے کبھی چین کو۔ نام عوام کا اور قومی مفادات کا ہی لیا جاتا ہے اور فائدہ ہتھیاروں کی صنعت کو ہوتا ہے یہ ایک لمبی چین ہے۔

اس کالم کا اصل مقصد دونوں ملکوں کے ان حلقوں کو متحرک کرنا ہے جو اس خطے میں امن کے حامی ہیں اور مذہبی انتہا پسندی کے خلاف ہیں۔ حکومتوں کی سطح پر اس حوالے سے جو اقدامات کیے جا رہے ہیں وہ حکومتی پالیسیوں کا حصہ ہیں۔ دونوں ملکوں میں ایسی تنظیمیں موجود ہیں جو خلوص نیت سے برصغیر کے ان دو بڑے ملکوں کے درمیان تعلقات کی بہتری چاہتے ہیں، کشمیر کے مسئلے کا منصفانہ حل چاہتے ہیں۔ اگر میڈیا ان کی سرگرمیوں کو ہائی لائٹ کرے تو عوامی سطح پر دونوں ملکوں کے درمیان دوستانہ تعلقات کی راہ ہموار ہوسکتی ہے۔

چین کے ساتھ پاکستان کے تعلقات کو ابھی تک علاقائی سیاست میں گھسیٹا نہیں گیا۔ سارک تنظیم اس علاقے کی اجتماعی ترقی و فلاح میں بہت مددگار ثابت ہوسکتی ہے لیکن بھارت کا تنگ نظر طبقہ سارک کو فعال نہیں ہونے دیتا۔ اس خطے کی اجتماعی بھلائی خاص طور پر پاک انڈیا تعلقات کی بہتری کے فوائد کو سمجھنے والوں کی یہ ذمے داری ہے کہ وہ پاک انڈیا تعلقات کی بہتری اور فوائد کو عوام تک پہنچائیں اور کوشش کریں کہ یورپی یونین کی طرح سارک بھی جنوبی ایشیا کے غریب عوام کی بہتری میں کردار ادا کرے۔ سارک اگر فعال ہو تو اس علاقے کے ڈیڑھ ارب سے زیادہ غریب عوام کی معاشی حالت بہتر ہوسکتی ہے۔بشکریہ ایکسپریس نیوز

یہ بھی دیکھیں

مریم نواز ہی وزیراعلیٰ پنجاب کیوں بنیں گی؟

(نسیم حیدر) مسلم لیگ ن کی حکومت بنی تو پنجاب کی وزارت اعلیٰ کا تاج …