ہفتہ , 20 اپریل 2024

شام سے امریکی افواج کے انخلا کا فیصلہ اور خطے کی بدلتی صورتحال

(ڈاکٹر راشد عباس)

(حصہ اول)

آج کل یہ سوال زبان زد خاص و عام ہے کہ صدر ٹرمپ نے کسی پالیسی، فریب یا حربے کے طور پر شام سے امریکی فوجوں کے انخلا کا فیصلہ کیا ہے یا وہ اس میں واقعاً سنجیدہ ہیں اور انہوں نے اپنے انتخابی وعدے پر عمل درآمد کیا ہے۔؟ 2011ء میں امریکہ نے عرب ممالک بالخصوص سعودی عرب کی بھرپور حمایت سے شام میں بشار الاسد کی حکومت کو گرانے کے لیے ایک خطرناک کھیل کھیلا اور دنیا بھر سے مذہبی دہشت گردوں کو شام میں اکٹھا کرکے بشار الاسد کی حکومت کے خلاف خونی کھیل شروع کیا۔ جن ممالک نے 2011ء میں بشار الاسد کے اقتدار کو ختم کرنے کے لیے شام میں خطرناک کھیل کھیلا تھا، آج وہ شام میں اپنا اثر و رسوخ کھو چکے ہیں اور ان کا شام کی صورت حال پر کسی قسم کا کنٹرول یا اثر باقی نہیں رہا ہے۔

آج امریکہ کو یقین ہوگیا ہے کہ وہ اپنی مرضی کی حکومت شام پر مسلط نہیں کرسکتا۔ امریکہ نے شام میں دہشت گردوں کی آمد بالخصوص داعش کے خلاف ایک نام نہاد اتحاد بھی تشکیل دیا تھا اور عالمی برداری کو یہ باور کرانے کی بھی بھرپور کوشش کی تھی کہ وہ شام میں داعش کے خلاف جنگ کے لیے داخل ہوا ہے اور یہ کہ وہ داعش کے خاتمے میں بھی سنجیدہ ہے، تاہم داعش کے خلاف امریکہ کے نمائشی اقدامات بہت جلد واضح ہوگئے اور شام سے یہ خبریں موصول ہونا شروع ہوئیں کہ امریکی اتحاد داعش کے خلاف جنگ کے بجائے اسکو مشکل حالات میں مدد کر رہا ہے۔ امریکہ نے شام میں بشار الاسد کی حکومت سے ہم آہنگی کیے بغیر اپنے دو ہزار فوجی غیر قانونی طور پر شام کے شمال اور شمال مشرقی علاقوں میں تعینات کئے۔ امریکہ کے یہ فوجی کرد گروہوں بالخصوص کرد ڈیموکریٹک گروہ کے ساتھ مکمل تعاون کرتے رہے۔

ڈونالڈ ٹرمپ جو غیر متوقع فیصلے کرنے اور یوٹرن لینے میں مشہور ہیں، انہوں نے انیس دسمبر 2018ء بروز بدھ کو ایک ہنگامی اعلان میں شام سے امریکی فوج کے انخلا کا اعلان کر دیا۔ ٹرامپ کا کہنا تھا ہم نے شام میں داعش کو شکست دے دی ہے، لہذا اب شام میں فوجوں کے باقی رہنے کا کوئی جواز نہیں۔ ٹرمپ کے ٹوئیٹ میسج میں آیا ہے کہ ہم نے شام میں داعش کو شکست دے دی ہے اور میرے دور حکومت میں شام میں افواج رکھنے کی واحد دلیل یہی تھی۔ انہوں نے ایک اور پیغام میں دعویٰ کیا ہے کہ داعش کے خلاف حاصل ہونے والی تاریخی کامیابی کے بعد وہ وقت آن پہنچا ہے کہ شام سے امریکی فوجی اپنے وطن واپس لوٹ جائیں۔ اس خبر کے ساتھ ہی ٹرامپ کے ایک اور فیصلے کی خبر بھی میڈیا میں سامنے آئی کہ افغانستان سے بھی سات ہزار امریکی فوجیوں کو واپس امریکہ بلا لیا جائے، تاہم ابھی تک کسی سرکاری سطح پر اس بیان کی تائید سامنے نہیں آ‏یی ہے۔

ٹرامپ اور اسکے موقف کے حامی شام سے فوجی انخلا کی درج ذیل دلیلیں دے رہے ہیں۔ سب سے پہلی دلیل یہ کہ داعش شام میں شکست کھا چکی ہے اور امریکہ کے اتحادی اس کے بغیر بھی داعش کو ختم کرسکتے ہیں۔ شام میں فوجوں کی تعینانی پہلے سے ہی عارضی تھی اور اب داعش کی شکست کے بعد امریکی افواج کی واپسی یقینی ہے۔ امریکہ کو عالمی پولیس کا کردار ادا نہیں کرنا چاہیئے، جہاں اسکی کوئی قدر بھی نہ ہو۔ اب داعش سے ایران، روس اور شام ڈریں گے اور یہ ممالک امریکی فوجی انخلا سے خوش نہیں ہونگے۔ ٹرامپ کا یہ کہنا ہے کہ ہمارے لیے ہمارے اتحادی اہم ہیں، لیکن صرف اس وقت تک جب تک وہ ہمیں غلط استعمال نہ کریں۔

شام سے امریکی افواج کے انخلا کے ٹرامپ کے فیصلے کا کئی زاویوں سے جائزہ لیا جا سکتا ہے، سب سے پہلے تو یہ کہ ڈونالڈ ٹرامپ کے فیصلوں اور پالیسیوں کے بارے میں کسی طرح کی پیشگوئی نہیں کی جا سکتی، وہ ایک دم اور ہنگامی فیصلہ کرکے سب کو حیران کر دیتے ہیں، اسکی ایک مثال کوریا کے سربراہ سے براہ راست ملاقات اور اس سے کیے گئے ہنگامی سمجھوتے کی ہے۔ البتہ یہاں پر یہ بات بھی ذہن نشین رہے کہ ٹرامپ اپنے ہر ہنگامی فیصلے پر ہر صورت میں عمل بھی نہیں کرتا بلکہ بعض اوقات جب اسے احساس ہوتا ہے کہ اسکے نقصانات زیادہ اور فوائد کم ہیں تو وہ یوٹرن بھی لے لیتا ہے۔ اب دیکھنا یہ ہے کہ اس فیصلے کے حوالے سے پینٹا گون اور کانگرس کے فیصلوں پر وہ کیا ردعمل دکھاتے ہیں۔ اس فیصلے پر امریکی اتحادی بالخصوص سعودی عرب، اسرائیل اور برطانیہ بھی ناخوش ہیں اور آیا اتحادیوں کی عدم رضایت کے باوجود وہ اپنے اس فیصلے پر قائم بھی رہتے ہیں یا نہیں۔؟

امریکی افواج کے انخلا کی ایک اور وجہ یہ بھی ہے کہ امریکی تھینک ٹینک کی نگاہ میں امریکہ شام میں نمایاں کردار ادا کرنے کی پوزیشن میں نہیں ہے، لہذا اسے ایسے ملک میں زیادہ فوجی سرمایہ گزاری کی ضرورت نہیں ہے، جس میں اسٹریٹجک مفادات کم ہوں۔ یوں بھی فوجی میدان میں امریکی افواج کی حیثیت فیصلہ کن نہیں رہی تھی، بشار الاسد اور اسکے اتحادی میدان عمل میں بھی داعش اور دوسرے دہشت گردوں پر کامیابیاں حاصل کر رہے ہیں۔ ایک اور وجہ یہ بھی ہوسکتی ہے کہ امریکی صدر نہیں چاہتے کہ شام کے مشرقی علاقے بالخصوص مشرقی فرات کے علاقوں میں امریکی افواج اور ترک افواج آپس میں آمنے سامنے آجائیں۔ ٹرامپ واشنگٹن انقرہ تعلقات کو مزید کشیدہ نہیں کرنا چاہتے۔

شام سے امریکی افواج کے انخلا کے دو تجزیہ نگاروں Jon۔ B۔ Alter man اور ویل ٹوڈ مین نے اپنے تجزیوں میں کہا ہے کہ امریکہ کا حالیہ اقدام ترکی کو راضی کرنے کے لیے ہے۔ ترکی کے صدر طیب اردوغان کئی بار دھمکی دے چکے تھے کہ وہ کردوں کے زیر کنٹرول علاقوں میں بہت جلد حملہ کریں گے۔ اس حملے کی صورت میں مشرقی فرات کے علاقوں میں تعینات امریکی افواج کے لیے مشکلات پیدا ہوسکتی تھیں۔ امریکہ ترکی سے تعلقات بہتر کرکے انقرہ ماسکو تعلقات میں کمی لانے کا بھی خواہشمند ہے۔ امریکی نہیں چاہتے کہ ترکی روس سے ایس 400 میزائل سسٹم خریدے۔ صدر ٹرامپ نے 21 دسمبر کو رجب طیب اردوغان سے ٹیلی فونک گفتگو میں انہیں پیٹریاٹ میزائل سسٹم خریدنے پر راضی کرنے کی کوشش کی ہے۔

امریکی تجزیہ نگاروں کی نگاہ میں ٹرامپ کے اس فیصلے سے امریکی صدر نے ترک صدر رجب طیب اردوغان کو پیٹریاٹ میزائل سسٹم خریدنے پر راضی کر لیا ہے اور اسی طرح ترکی کو یہ یقین دہانی بھی کرائی گئی ہے کہ اسے مستقبل میں شام میں نمایاں رول دیا جائیگا۔ امریکی صدر کردوں کے حوالے سے بھی ترک صدر کو اعتماد میں لینے میں کامیاب رہے ہیں۔ امریکی تجزیہ نگاروں نے شام سے امریکی افواج کی واپسی کو روس، ایران اور شام کی بہت بڑی کامیابی سے تعبیر کیا ہے، شام سے امریکی فوجی انخلا سے یہ بات ثابت ہوگئی ہے کہ شام کے مستقبل کے حوالے سے بالخصوص فوجی نقطہ نگاہ سے شام میں امریکہ کا کوئی فوجی کردار نہیں ہوگا، اس سے ایران کو بھی یہ فائدہ ہوا ہے کہ اسکے لبنان سے تعلقات مزید مستحکم ہوں گے اور انکی فوجی موجودگی بھی شام میں اثر و رسوخ میں اضافے کا باعث بنے گی۔

صدر ٹرامپ کے برسراقتدار آنے پر امریکہ نے جو پالیسی ترتیب دی ہے، اس میں ہر اس جگہ سے فوجی موجودگی کو کم یا ختم کرنا ہے، جہاں سے امریکہ کو کوئی تجارتی یا اقتصادی فائدہ نہیں۔ امریکہ اس طرح کے علاقوں میں مالی اور جانی قربانیوں کے لیے ہرگز تیار نہیں۔ ٹرامپ سابق امریکی صدر ریگن کی جنگی سیاست پر کاربند ہے، وہ علاقے کے مکینوں کے وسائل و اخراجات پر افواج بھیجنے کے لیے تیار ہیں، لیکن امریکی اخراجات پر کسی دوسرے کی حفاظت کرنے پر تیار نہیں۔ امریکی صدر کی نئی پالیسیوں کے تحت علاقائی اتحادیوں کو سلامتی و سکیورٹی کی ذمہ داریاں سنبھالتے ہوئے اسکے اخراجات کو بھی خود ہی برداشت کرنا ہوگا۔

صدر ٹرامپ کا "پہلے امریکہ” کا انتخابی نعرہ بھی اسی طرح کے اقدامات کا متقاضی ہے۔ وہ اپنے اخراجات کو کم کرکے زیادہ سے زیادہ مراعات و مفادات سمیٹنے کی پالیسی پر گامزن ہے۔ صدر ٹرمپ کا اس حوالے سے کہنا ہے، کیا امریکہ یہ چاہتا ہے کہ مشرق وسطیٰ میں پولیس کا کردار بھی ادا کرے اور اسے کچھ حاصل بھی نہ ہو۔ کیا ہم اپنی انتہائی قیمتی زندگیاں اور کھربوں ڈالر دوسروں کی حفاظت پر خرچ کریں اور کسی بھی مسئلے میں ہماری قدردانی بھی نہ ہو۔؟ کیا ہم ہمیشہ وہاں رہنا چاہتے ہیں، اب وقت آگیا کہ دوسرے داعش سے جنگ کے لیے اٹھ کھڑے ہوں۔

صدر ٹرامپ کا دعویٰ ہے کہ داعش سے جنگ جاری رکھنا امریکہ کے دشمنوں یعنی روس اور ایران کے مفاد میں ہے۔ ڈونالڈ ٹرامپ یہاں پر اس بات کو بھول رہے ہیں کہ باراک اوباما کے دور میں اس نے خود الزام لگایا تھا کہ داعش کو اوباما اور اسکی ٹیم وجود میں لائے ہیں۔ یاد رہے داعش سے مقابلے کے لیے شام میں امریکہ کی غیر قانونی موجودگی نہ شامی حکومت کے کہنے پر اور نہ ہی اقوام متحدہ کے کہنے پر انجام پائی تھی۔ شام کی قانونی حکومت تو امریکہ سے کئی بار کہہ چکی ہے کہ امریکہ شام میں اپنی غیر قانونی موجودگی کو جلد ختم کرے۔ ان تمام حقائق کے باوجود امریکی اسٹیبلشمنٹ شام سے امریکی افواج کے انخلا کی مخالف ہے اور اسے امریکہ کے مفادات کے خلاف ایک قدم قرار دیتی ہے۔(جاری ہے)

یہ بھی دیکھیں

مریم نواز ہی وزیراعلیٰ پنجاب کیوں بنیں گی؟

(نسیم حیدر) مسلم لیگ ن کی حکومت بنی تو پنجاب کی وزارت اعلیٰ کا تاج …