جمعہ , 19 اپریل 2024

جماعت الدعوۃ سمیت کئی کالعدم تنظیموں کے بینک اکاؤنٹس اور اثاثے منجمد

اسلام آباد(مانیٹرنگ ڈیسک)پاکستانی حکومت نے کالعدم تنظیموں اور اس سے تعلق رکھنے والے افراد کے بینک اکاؤنٹس اور اثاثے منجمد کردیئے۔آسٹریلوی شہر سڈنی میں ہونے والے پاکستان اور فنانشیل ایکشن ٹاسک فورس (ایف اے ٹی ایف) ایشیا پیسفک گروپ کے مابین اجلاس میں پاکستانی وفد نے منی لانڈرنگ اور دہشت گردوں کو ملنے والی مالی امداد سے متعلق بریفنگ دی۔

پاکستان وفد کا کہنا تھا کہ پاکستان، اقوام متحدہ کی شق 1267اور1373 پر سختی سے عمل پیرا ہے، دہشت گردی کیخلاف فنڈنگ کی روک تھام سے متعلق ٹھوس اقدامت اٹھائے ہیں، کالعدم تنظمیوں کیخلاف ایکشن پر بریفنگ دیتے ہوئے پاکستانی حکام کا کہنا تھا کہ کالعدم تنظمیوں کے بینک اکاؤنٹس اور اثاثے منجمند کیے گئے ہیں۔

حکام کے مطابق جماعت الدعوۃ اور اس کی ذیلی سماجی جماعت فلاح انسانیت فاونڈیشن کے بینک اکاؤنٹس منجمد کیے گئے ہیں، جب کہ دیگر کالعدم تنظیموں داعش، طالبان، القاعدہ، لشکر طیبہ، جیش محمد اور حقانی نیٹ ورک سے تعلق رکھنے والے افراد اور جماعتوں کے بینک اکاؤنٹس بھی بند کردیئے گئے ہیں۔

ایشیا پیسفک گروپ کی جانب سے پاکستانی اقدامات کی رپورٹ ایف اے ٹی ایف سربراہی اجلاس میں پیش کی جائے گی۔ گروپ کی جانب سے پاکستان کو فنانشل مانیٹرنگ یونٹ اور نیکٹا کے حوالے سے مزید کام کرنے کی ضرورت پر زور دیا گیا، جب کہ قوانین پر عملدرآمد کیلئے ٹاسک فورس بنانے کا فیصلہ کیا گیا ہے۔

ذرائع کا مزید کہنا ہے کہ ریئل اسٹیٹ بزنس سب سے زیادہ منی لانڈرنگ کا سبب بن رہا ہے تاہم وفاقی اور صوبائی سطح پر اینٹی منی لانڈرنگ ٹاسک فورس بنانے کا فیصلہ کرلیا گیا ہے۔ اس کے علاوہ ایف آئی اے ایکٹ 1974ءاور اسٹیٹ بینک ایکٹ 1947ءمیں بھی ترامیم کا فیصلہ کیا گیا ہے۔

پاکستان کا نام گرے لسٹ سے نکالنے کے لیے حکام کی جانب سے منی لانڈرنگ کے خلاف کیے گئے اقدامات کی رپورٹ بھی پیش کی گئی۔ اس سے قبل سال 2017میں منی لانڈرنگ اور دہشت گردوں کی مالی معاونت کے الزام میں فنانشل ایکشن ٹاسک فورس کی جانب سے پاکستان کو گرے لسٹ میں شامل کیا گیا تھا، جس کے بعد ایشیاء پیسیفک ٹیم کو پاکستان کی جانب سے منی لانڈرنگ قوانین مزید سخت کرنے کی یقین دہانی کرائی گئی۔

واضح رہے کہ ایف اے ٹی ایف کے ساتھ مذاکرات کے لیے جانے والے وفد کی قیادت سیکریٹری خزانہ عارف احمد خان کر رہے ہیں، جب کہ دیگر اراکین میں اسٹیٹ بینک آف پاکستان (ایس بی پی)، نیشنل کاؤنٹر ٹیررازم اتھارٹی (نیکٹا)، وفاقی تحقیقاتی ادارے (ایف آئی اے)، وفاقی بورڈ آف ریونیو (ایف بی آر) اور فنانشل مانیٹرنگ یونٹ کے نمائندے شامل ہیں۔ دونوں کے درمیان تین روزہ مذاکرات کا دور 10 جنوری تک جاری رہے گا۔

گزشتہ سال جاری کردہ ایک رپورٹ کے مطابق سال 2015 سے اب تک دہشت گردوں کی مالی معاونت کے سلسلے میں رقم کی 4 ہزار 6 سو 43 مشتبہ منتقلیوں کی نشاندہی ہوئی جو بلاک کردی گئیں، سال 2018 میں مجموعی طور پر ایک ہزار ایک سو 67 ٹرانزیکشنز پکڑی گئیں جس میں 9 سو 75 مشتبہ ٹرانزیکشن رپورٹ جبکہ 2 سو 10 خفیہ مالیاتی رپورٹس پر سامنے آئیں۔

جاری رپورٹ میں دہشت گردی کی مالی معاونت اور منی لانڈرنگ کے 2 انتہائی اہم راستوں کا ذکر کیا گیا ہے، جن میں پاکستان اور افغانستان کی سرحد اور پاکستان اور ایران کی سرحد شامل ہے، جہاں سے اس قسم کی رقوم منتقل ہوتی ہیں، جب کہ طویل ساحلی پٹی بھی اسمگلنگ کا بڑا ذریعہ ہے جس پر قانون نافذ کرنے والے اداروں اور میرین کوسٹ گارڈز کی مدد سے سیکیورٹی بہتر بنائی گئی اور افغانستان جانے والا تجارتی سامان بھی اس غیر اندراج شدہ مالی منتقلیوں کی وجہ ہے۔

قابل ذکر بات یہ ہے کہ دہشت گردوں کی مالی معاونت کے لیے استعمال کیے جانے والے ذرائع میں عطیات، رقم کی اسمگلنگ، قدرتی وسائل، منشیات، این جی اوز اور بین الاقوامی تنظیمیں شامل ہیں۔ ایف بی آر کی جانب سے 2015 سے اب تک ایک ہزار ایک سو 85 ٹرانز یکشنز، ایس بی پی نے ایک ہزار 49 جب کہ ایف آئی اے نے ایک ہزار 2 سو 95 ٹرانزیکشنز کا سراغ لگایا۔غور طلب بات یہ بھی ہے کہ پاکستان ان 83 ممالک میں شامل ہے، جہاں منی لانڈرنگ اور دہشت گردوں کو مالی معاونت کی جڑیں زیادہ شدت سے پیوست ہیں۔

یہ بھی دیکھیں

عمران خان نے تحریک انصاف کے کسی بڑے سیاسی رہنما کے بجائے ایک وکیل کو نگراں چیئرمین کیوں نامزد کیا؟

(ثنا ڈار) ’میں عمران کا نمائندہ، نامزد اور جانشین کے طور پر اس وقت تک …