جمعرات , 18 اپریل 2024

مشرق وسطیٰ، نیا سال، پرانا امریکی کھیل

(تحریر: عرفان علی)

مشرق وسطیٰ کے حوالے سے اپ ڈیٹ یہ ہے کہ یہاں نئے سال یعنی 2019ء کا آغاز بھی امریکی حکومتی عہدیداروں کے دوروں سے ہوا ہے۔ امریکی صدر ڈونالڈ ٹرمپ کے مشیر برائے امور قومی سلامتی جون بولٹن نے اسرائیل اور ترکی کا دورہ کیا۔ اسی دوران امریکی وزیر خارجہ مائیکل پومپیو خطے میں وارد ہوئے ہیں۔ اردن، مصر، سعودی عرب، متحدہ عرب امارات، بحرین، عمان، کویت کے دورے پر آئے پومپیو عراق کا ممکنہ دورہ بھی کرسکتے ہیں۔ سال نیا ہے، دورے نئے ہیں لیکن ایجنڈا، اسکرپٹ پرانا ہی ہے۔ یعنی امریکی اتحادیوں کو اعتماد میں لینا ہے، انکی ڈھارس بندھانا ہے۔ صدر ٹرمپ نے ٹوئٹر پر فرمان جاری کیا کہ امریکی افواج شام سے انخلاء کرے گی۔ وائٹ ہاؤس کی آفیشل ویب سائٹ انکے اس فرمان سے محروم ہے، انکا یہ فرمان وہاں ہے ہی نہیں، نہ خبر کے طور، نہ حکم کے طور! لیکن اس ٹویٹ فرمان نے اتحادیوں کی نیندیں اڑا دیں۔ کرد الگ پریشان تو عرب پراکسیز جدا سرگردان۔ حتیٰ کہ اتحادی حکمران بھی حیران و پریشان! بس یہی کیفیت تھی کہ جس نے امریکی حکومتی عہدیداروں کو ایک اور مرتبہ اس خطے میں آنے پر مجبور کر دیا۔

شام، شام کے نعروں اور ایران، ایران خطرہ کی فریادوں کے درمیان جو چیز چھپ کے رہ گئی، وہ بیت المقدس سمیت مقبوضہ فلسطین کی آزادی کا ایجنڈا ہے کہ جس کے لئے او آئی سی کا عارضی مرکز جدہ میں قائم کیا گیا تھا کہ آزادی فلسطین کے بعد یہ صدر دفتر القدس (یروشلم) میں منتقل کر دیا جانا تھا۔ لیکن اس پر نہ عرب لیگ، او آئی سی یا جی سی سی یا سعودی قیادت میں بننے والے فوجی اتحاد اور نام نہاد انسداد دہشت گردی مرکز کو بالکل بھی جلدی نہیں ہے۔ امریکا و یورپ کا تو معاملہ ہی جدا ہے کہ وہ تو خود دور جدید کے صلیبی صہیونی اتحاد کے مظاہر ہیں۔ جون بولٹن کا تو ریکارڈ ہی ایسا ہے کہ انہیں جعلی ریاست اسرائیل کا غیر رسمی و غیر اعلانیہ وزیر دفاع بھی کہیں تو بے جا نہ ہوگا اور مائیک پومپیو بھی اس حوالے سے کوئی کمی کوتاہی نہیں کر رہے۔ کہا جاسکتا ہے کہ مشرق وسطیٰ نئے سال میں بھی اسی پرانے امریکی کھیل کے ساتھ داخل ہوا ہے کہ امریکی حکومت کو جعلی ریاست اسرائیل کی بقا و سلامتی کو لاحق ممکنہ خطرات کی فکر نے گھلا کر رکھ دیا ہے۔

نیا سال بھی اس خطے کے حوالے سے شروع کی گئی اس عالمی سطح کی میڈیا وار میں کوئی کمی لانے والا نہیں ہے، جو مغربی، صہیونی اور انکے اتحادی ممالک کے ذرایع ابلاغ نے ایک طویل عرصے سے جاری رکھی ہوئی ہے۔ دنیا بھر میں ایک خبر کو نمایاں طور نشر کیا گیا کہ ترکی کے صدر رجب طیب اردگان نے امریکا کے نیشنل سکیورٹی ایڈوائزر جون بولٹن سے ملنے سے انکار کر دیا، حالانکہ بولٹن نے صدارتی ترجمان اور دیگر ترک حکام سے ملاقاتیں بھی کیں تو مذاکرات بھی کئے اور انہیں امریکی صدر ٹرمپ کے فیصلوں کی تفصیلات بھی بتائیں، یعنی ترک حکومت کو امریکی پالیسیوں پر اعتماد میں لیا ہے۔ بولٹن نے اس خطے کے دورے میں واضح کیا کہ امریکا یہاں سے داعش کے بقیہ سترہ ہزار فائٹرز کی مکمل شکست سے پہلے کہیں نہیں جا رہا۔ امریکی اس فوجی اڈے کو استعمال کرتے رہیں گے، جو انہوں نے شام کے صوبہ حمص کے علاقے ال تنف کے مضافات میں غیر قانونی قبضہ کرکے قائم کیا ہے اور جو عراق کی سرحد سے نزدیک ہے۔ بولٹن نے ترک حکام کو تاکید کی ہے کہ وہ شام میں موجود امریکی کرد اتحادی ملیشیاء کے فائٹرز پر ہرگز حملے نہ کرے۔ بنیادی طور ترک صدر اس پر ناراض ہیں کہ امریکا شام ترکی سرحد پر کرد ملیشیاء کی سرپرستی کر رہا ہے، جبکہ یہ کرد ملیشیاء ترک حکومت کی نظر میں دہشت گرد ہیں، باغیوں کے سہولت کار ہیں۔

جون بولٹن کا کہنا ہے کہ شام سے امریکی انخلاء اس طرح ہوگا کہ اس سے پہلے اسرائیل اور دیگر امریکی اتحادیوں کی سکیورٹی کو یقینی بنایا جا چکا ہو۔ یعنی یہ ہے اصلی کھیل کہ ملک شام میں ایسے پراکسی گروپس کو پیچھے چھوڑا جائے گا، جو شام کی فلسطین دوست ریاست و حکومت و مملکت کے لئے مستقل درد سر بنے رہیں اور ایسے پراکسی گروپس کو تحفظ فراہم کرنے کے لئے شام کو ایک نئے آئین کے تحت نیا سیاسی نظام قبول کرنے پر مجبور کیا جائے گا۔ میدان جنگ میں شام کے عوام و افواج و انفراسٹرکچر کو تمام تر نقصانات پہنچانے کے باوجود وہ بشار الاسد کی حکومت و نظام کو گرانے میں کامیاب ہو نہیں پائے تو اب سفارتی و سیاسی محاذوں پر سازشوں پر زیادہ فوکس کریں گے۔ مستقبل پر نظر رکھتے ہوئے شام کی سرحدی پٹی پر امریکا کے تربیت یافتہ مسلح گروہوں کو تعینات کرنا، امریکی حکومت کا اصل منصوبہ ہے اور ان کو نئے آئین و نئے نظام کے تحت آئینی و قانونی تحفظ کی کوشش کی جائے گی۔ عراق میں کردستان اور عرب صوبے جس طرح منقسم ہیں، اسی طرح یا کسی اور انداز میں شام پر بھی یہی نسخہ آزمائے جانے کا امکان ہے۔

گو کہ بشار الاسد کو مائنس کرنے والی کوششیں ناکام رہی ہیں، لیکن امریکی اتحاد اس مطالبے سے دستبردار نہیں ہوا ہے۔ بعض عرب ممالک کی شام سے سفارتی تعلقات کی بحالی کے بعد اب شام کی عرب لیگ رکنیت کی بحالی کی باتیں بھی ہو رہی ہیں، لیکن اس کا یہ مطلب ہرگز نہیں ہے کہ انہوں نے بشار الاسد کی فلسطین دوست عرب قوم پرست حکومت کے خلاف سازشوں سے ہاتھ روک لئے ہیں۔ بشار الاسد حکومت کو تسلیم کرنے کے علاوہ اب کوئی آپشن ہے ہی نہیں تو بحالت مجبوری وہ ایسا کر رہے ہیں، لیکن ایک محاذ پر بظاہر پسپائی دکھانے کا مقصد دوسرے محاذ پر بشار حکومت اور اسکے اتحادیوں کو غافل کرنا ہے۔ شام امریکی صہیونی بڑے کھیل کے میدانوں میں سے ایک میدان ہے، جبکہ عراق و لبنان سمیت ایسے بہت سے دیگر میدانوں میں جو کھیل کھیلا جا رہا ہے، شام کے میدان میں کھیلے جانے والا یہ کھیل اسی امریکی صہیونی ٹورنامنٹ کا ایک حصہ ہے۔ نئے سال کے پہلے عشرے میں ہی امریکی حکومتی عہدیداروں کا سعودی، اماراتی، بحرینی، قطری، کویتی، عمانی، مصری اور اردنی عرب حکمرانوں اور ترک حکومتی عہدیداروں سے ملاقاتیں کرنا اور ساتھ ہی صہیونی حکومت کو بھی آن بورڈ لینا، یہ وہی پرانا امریکی طریقہ کار ہے۔ یعنی اس پورے کھیل میں جعلی ریاست اسرائیل شامل ہے۔

لیکن امریکی اتحاد کی سب سے بڑئی پریشانی یہ ہے کہ وہ اس کھیل کی اڑچنوں کو دور کرنے میں تاحال ناکام ہیں۔ یعنی اسرائیل کو تو سب کچھ مل رہا ہے بلکہ وقت سے پہلے ہی اسکے اہداف کا حصول یقینی بن چکا ہے، جبکہ قطر اور ترکی بیک وقت اپنے اخوانی اتحادیوں اور نیٹو یا امریکی اتحاد کے مفادات میں سو فیصد ہم آہنگی اور توازن قائم کرنے میں ناکام ہیں، کردوں کے حوالے سے ترکی کو وہ سب کچھ نہیں دیا جا رہا، جو وہ چاہتا ہے۔ لیکن ان اڑچنوں کے ہوتے ہوئے بھی ترکی اور قطر امریکی اتحاد کا جزو لاینفک ہیں جبکہ قطر کو تو سعودی و اماراتی و دیگر عرب امریکی اتحادیوں نے شودر بناکر رکھ دیا ہے، اس کے باوجود وہ اس اتحاد میں شامل ہے۔ اب قطر، ترکی، کویت اور عمان کی ایک اور مشکل یہ ہے کہ وہ ایران سے تعلقات کو بالکل ختم نہیں کرنا چاہتے۔ خاص طور ترکی اور عمان ایران سے بہتر تعلقات کو اپنے لئے سود مند پاتے ہیں۔ قطر کو بھی جی سی سی ممالک کے مخاصمانہ اقدامات سے لگ پتہ گیا ہوگا کہ ایران پھر بھی ان سے بہتر ہے۔ لبنان میں تاحال حکومت سازی کے عمل میں تعطل برقرار ہے جبکہ عراق بھی شدید امریکی دباؤ میں ہے۔

سال 2019ء مشرق وسطیٰ میں اس پرانے پیغام کے ساتھ نمودار ہوا ہے کہ اس خطے میں صرف دو بلاک وجود رکھتے ہیں، ایک امریکی بلاک اور دوسرا ایرانی بلاک۔ یورپی یونین امریکی بلاک ہی کا ایک حصہ ہے جبکہ روس شام کی حد تک ایرانی بلاک کا اتحادی ہے۔ حزب اللہ، حرکت انصار اللہ، عراقی و فلسطینی مقاومتی تحریکیں، شام کی حکومت، ایرانی بلاک میں ہیں، عراق حکومت اور لبنانی حکومت جزوی طور ایران دوست ہیں، جبکہ باقی سارے کسی نہ کسی طور نیٹو اتحاد کے رکن کی حیثیت سے یا کسی اور فریم ورک میں امریکی اتحادی ہی ہیں اور امریکی بلاک کے یہ مسلم عرب و ترک اتحادی، جعلی ریاست اسرائیل کے بھی اتحادی ہیں۔ دنیا بھر میں صحافی جمال خشوگی کے بہیمانہ قتل کے حوالے سے سعودی عرب پر تنقید ہوئی تو اسرائیلی حکومت نے سعودی بادشاہت کا دفاع کیا۔

نیا سال اسی حقیقت کے ساتھ طلوع ہوا ہے کہ عالم اسلام و عرب ایک ایسے بھنور میں پھنس چکا ہے کہ جس سے نکلنا معجزہ ہی کہلائے گا۔ پہلے عرب یا مسلمان حکمران اس طرح کھل کر اسرائیل کے ہم نوالہ و ہم پیالہ نہیں تھے اور پہلے ااسرائیلی عہدیدار عرب یا مسلمان حکام شخصیات سے تعلقات کو خفیہ رکھا کرتے تھے، کیونکہ اعلانیہ ایسا کرنے سے ایسے عرب یا مسلمان حکومتی عہدیدار اور ملک کو عالم اسلام و عرب کے غیظ و غضب کا سامنا کرنا پڑتا تھا۔ یقیناً آج اگر وہ کھل کر ایک دوسرے سے تعلقات قائم کر رہے ہیں تو عالم اسلام و عرب کے عوام و خواص کو اپنے رویئے پر نظرثانی کرنے کی ضرورت ہے کہ انکی لاتعلقی اور نرم رویہ کسی طور انکی اپنی اور انکی مملکت کی عزت نفس، حمیت، آزادی و خود مختاری کے شایان شان نہیں ہے۔ شام، شام یا ایران، ایران، یا اس جیسے دیگر نعروں میں فلسطین، کشمیر، یمن و برما کے مظلوم و ستم رسیدہ مسلمانوں کی آہیں، سسکیاں، فریادیں دفن ہوکر رہ گئی ہیں، ان جینوئن ایشوز کو از سر نو فوکس کرنے کی ضرورت ہے، کیونکہ مشرق وسطیٰ سمیت پورا عالم اسلام ہی خطرات میں گھرا دکھائی دیتا ہے۔

یہ بھی دیکھیں

مریم نواز ہی وزیراعلیٰ پنجاب کیوں بنیں گی؟

(نسیم حیدر) مسلم لیگ ن کی حکومت بنی تو پنجاب کی وزارت اعلیٰ کا تاج …