جمعہ , 19 اپریل 2024

گاؤ پرستی کا انجام آخر کیا ہوگا؟

(تحریر: ثاقب اکبر)

بھارت میں ہندوؤں کا ایک بڑا طبقہ گائے کو مقدس مانتا ہے اور ملک کی زیادہ تر ریاستوں میں گاؤ کشی پر پابندی لگائی جا چکی ہے۔ گائے کو ہندو مذہب میں ایک خاص مقام حاصل ہے اور بہت سے لوگ گاؤ کی پوجا پاٹ کرتے ہیں۔ گاؤ کے ساتھ ہندو اکثریت کی وابستگی کا یہ عالم ہے کہ بہت سے مسلمان فقط اس الزام میں کہ انھوں نے گائے کی خریداری کی ہے یا گائے کو ذبح کرنے کا ارادہ رکھتے ہیں، قتل کیے جا چکے ہیں۔ بھارت کی بعض ریاستوں میں گائے کشی پر دس سال قید کی سزا کی گنجائش ہے، تاہم جے پور کے ہائی کورٹ نے ریاستی حکومت سے کہہ رکھا ہے کہ گاؤ کشی کی سزا عمر قید کر دی جانا چاہیئے۔ 2017ء میں گجرات میں ایک نیا قانون بنایا گیا، جس کے تحت گاؤ کشی کی سزا عمر قید قرار دی گئی۔ گاؤ پرستی کا سلسلہ اب اس سے بھی آگے بڑھتا چلا جا رہا ہے، گائے کے بارے میں طرح طرح کے نظریات اور عقائد کا اظہار کیا جا رہا ہے اور اس کے ایسے وہمی فوائد بیان کیے جا رہے ہیں کہ جنھیں سن کر ہنسا ہی جا سکتا ہے، لیکن یہ ہنسی بھارت میں منع ہے کیونکہ کسی گاؤ پرست کو معلوم ہو جائے کہ آپ نے گائے کی فضیلت پر تبسم استہزا کیا ہے تو پھر آپ کی خیر نہیں۔

عام لوگ ہی گائے کے بارے میں طرح طرح کے عقائد کا اظہار نہیں کر رہے بلکہ بہت پڑھے لکھے اور معاشرے کے اہم افراد بھی گائے سے متعلق فضائل و مناقب بیان کر رہے ہیں۔ راجھستان کے وزیر تعلیم نے کہہ رکھا ہے کہ گائے کی سائنسی اہمیت کو سمجھنا اس لیے ضروری ہے کہ وہ دنیا کا واحد ایسا جانور ہے کہ جو نہ صرف سانس لیتے وقت آکسیجن اندر لیتا ہے بلکہ سانس چھوڑتے ہوئے بھی آکسیجن ہی باہر نکالتا ہے۔ راجھستان ہائی کورٹ کے ریٹائرڈ جج مہینش چند شرما نے جج ہوتے ہوئے کہا تھا کہ انھوں نے گائے کو قومی جانور قرار دینے کی سفارش کی ہے۔ وزیر تعلیم کی مذکورہ بات بیان کرنے کے علاوہ انھوں نے یہ بھی کہا کہ ایک روسی سائنس دان کا کہنا ہے کہ گھروں کی دیواروں پر اگر گائے کے گوبر کا لیپ کیا جائے تو آپ تابکاری سے محفوظ رہیں گے۔ گائے کا پیشاب پینے کے بھی بہت سے فوائد بیان کیے گئے ہیں۔ مسٹر شرما کے مطابق گائے کا پیشاب پینے سے عمر ڈھلنے کی رفتار سست پڑ جاتی ہے۔ اس سے آپ کا دل، جگر اور دماغ بھی صحت مند رہتا ہے۔ گائے کا پیشاب پینے سے پچھلے جنم میں آپ نے جو گناہ کیے ہیں، وہ بھی دھل جائیں گے، آپ کے چہرے کی جھریاں بھی ختم ہو جائیں گی۔ گائے کا گوبر ہیضے کے جراثیم کو بھی تباہ کر دیتا ہے۔

ایک تجزیہ کار نے اس ساری صورتحال پر تبصرہ کرتے ہوئے لکھا ہے: اگر آپ کو کبھی آکسیجن کی کمی محسوس ہو، سانس اکھڑ رہی ہو یا پھر کینسر کا خطرہ ہو تو آپ کو معلوم ہی ہے کہ کیا کرنا ہے، سیدھے کسی گاؤ شالا کا رخ کیجیے گا۔ گاؤ شالا یا گائیوں کے لیے محفوظ پناہ گاہیں انڈیا میں آج کل ہر طرف ہیں، اس لیے مناسب سمجھیں اور ہسپتال ڈھونڈنے میں زیادہ وقت برباد نہ ہی کریں تو اچھا ہوگا۔ آپ نے سنا ہی ہوگا کہ جان ہے تو جہان ہے۔ موصوف مزید لکھتے ہیں: اگر آپ کے ذہن میں کبھی ”بوٹوکس“ کے انجکشن لگوانے کا خیال آیا ہو، کیونکہ آپ کو اپنے چہرے پر جھریاں پسند نہیں تو پلاسٹک سرجن سے دور ہی رہیے گا، اس کا علاج بھی گائے کے پاس موجود ہے۔ بس ذرا دل پکا کرنا ہوگا۔ گائے کے حوالے سے بھارت کی صوبائی حکومتوں ہی نے عجیب و غریب اقدامات نہیں کیے، وفاقی حکومت ان سے ایک قدم بڑھ کر کردار ادا کر رہی ہے۔ چنانچہ وفاقی حکومت نے ایک منصوبہ بنایا ہے، جس کے تحت گائے کی شناخت کے لیے اس کی عمر جنس، نسل، قد، رنگ، سینگ کی قسم، دم کی تفصیل اور جسم پر کسی نشان کا باقاعدہ ریکارڈ رکھا جائے گا۔

بی بی سی کے تجزیہ کار سہیل حلیم لکھتے ہیں کہ ملک کی سڑکوں پر گائیں اب سر اٹھا کر چل سکیں گی، کیونکہ ان کی گمنامی کے دن ختم ہونے والے ہیں، ہر گائے کی ایک شناخت ہوگی، اس کا نام پتہ سرکاری ریکارڈ میں درج ہوگا اور اگر کسی گائے کی قانونی طور پر خرید و فروخت ہوگی تو اس کی ملکیت کی دستاویزات اس کے ساتھ جائیں گی۔ وفاقی حکومت نے مذکورہ منصوبے کی تفصیلات سپریم کورٹ میں پیش کر رکھی ہیں۔ حکومت کا کہنا ہے کہ وہ گائیوں کی بین الریاستی اور بین الاقوامی سمگلنگ روکنا چاہتی ہے اور اس کے لیے وہ گائیوں کے لیے بھی ”آدھار کارڈ“ کی طرز پر ایک سکیم شروع کرنے کی تیاری میں ہے۔ آدھار کارڈ کے تحت انڈیا میں ہر مرد، عورت اور بچے کی ”بائیومیٹرکس“ یا آنکھوں کا سکین اور انگلیوں کے نشان لیے جاتے ہیں اور ہر شخص کو ایک مستقل نمبر دیا جاتا ہے، جس سے اس کی شناخت کی جاسکتی ہے۔ وفاقی حکومت نے یہ بھی سفارش کی ہے کہ بنگلہ دیش سے ملحق بھارتی ریاستیں بین الاقوامی سرحد سے بیس کلو میٹر کے فاصلے تک مویشیوں کی منڈیوں پر پابندی عائد کریں اور ایسے مویشیوں کی دیکھ بھال کی ذمہ داری ریاستی حکومتوں کی ہونا چاہیئے، جنھیں ان کے مالکوں نے بے سہارا چھوڑ دیا ہے۔ سہیل حلیم مزید لکھتے ہیں کہ انڈیا میں گائے کی سیاست بظاہر اپنے عروج کو پہنچ رہی ہے اور بہت سے لوگوں کا خیال ہے کہ ان بیچارے جانوروں کا ووٹ بھلے ہی نہ ہو، انھیں ایک ووٹ بینک کے طور پر استعمال کیا جا رہا ہے۔

ہماری رائے یہ ہے کہ اگر اسی طرح گاؤ پرستی کا سلسلہ آگے بڑھتا رہا اور گائے کو انسانوں پر فوقیت دی جاتی رہی تو ممکن ہے کسی آنے والے انتخابات میں ایک گائے کے دو ووٹ قرار پا جائیں، چونکہ بہرحال گائے بھارت میں انسان سے افضل ہوتی چلی جا رہی ہے اور پھر یہ گائے کی توہین قرار پائے گی کہ اس کا ووٹ ایک انسان کے برابر ہو۔ گائے کی فضیلت کا تقاضا تو یہی ہے کہ اس کے کم ازکم دو ووٹ ہوں، لہٰذا ایک شخص جو گائے کو اپنے ہمراہ لے کر آئے اور وہ اپنی ملکیت بھی اس کے ساتھ ثابت کرے تو وہ تین ووٹ ڈالنے کا حقدار قرار پا سکتا ہے۔ یہ بات بی جے پی کے تلنگہ ریاست کے رکن اسمبلی ٹی راجا سنگھ کے بیانات سے اور بھی واضح ہو جاتی ہے، جن کا کہنا ہے کہ وہ گائے کو بچانے اور رام مندر بنانے کے لیے جان دے بھی سکتے ہیں اور جان لے بھی سکتے ہیں۔ ان کا کہنا ہے کہ انسانی جان کی قیمت گائے سے زیادہ نہیں ہے۔ جب ان سے پوچھا گیا کہ کیا آپ کو رکن اسمبلی ہوتے ہوئے ایسی بات کہتے ہوئے ہچکچاہٹ نہیں ہوتی تو انھوں نے کہا کہ رکن اسمبلی سے پہلے میں ایک ہندو ہوں اور میں اپنا فرض ادا کر رہا ہوں۔

ٹی راجا سنگھ سے راجھستان کے الور ضلع میں گاؤ پرستوں کے ایک حملے میں ایک شخص کی ہلاکت کے بارے میں سوال کیا گیا تو انھوں نے کہا کہ ہم نے بھی وہ ویڈیو دیکھی ہے، ہمیں بھی بہت تکلیف ہوئی، اس طرح سے ایک بوڑھے کو نہیں مارنا چاہیئے، لیکن گائے کی اہمیت زیادہ ہے، اگر کوئی شخص گائے کی جان لیتا ہے تو گائے کا رکھوالا (جسے ہندی زبان میں گاؤ رکھشا کہتے ہیں) اپنا ذہنی توازن کھو بیٹھتا ہے۔ جب ان سے پوچھا گیا کہ کیا کسی گائے کو بچانے کے لیے کسی انسان کی جان لینا درست ہے تو انھوں نے کہا کہ گائے سے بڑھ کر ہمارے لیے کچھ نہیں ہے، گائے سے بڑھ کر ہمارے لیے انسان بھی نہیں ہے۔ انسان کی ایسی بے وقعتی اپنی مثال آپ ہے۔ ایک جانور کے مقابلے میں اشرف المخلوقات کی یہ کم مائیگی انسانیت کا ایک بڑا المیہ ہے، لیکن دنیا میں اس بارے میں بھارت کے خلاف کوئی فضا نہیں بلکہ اسے سب سے بڑی جمہوریت کے طور پر پیش کیا جاتا ہے اور ہندوؤں کو روشن فکر ظاہر کیا جاتا ہے۔ جب کہ گاؤ پرستی نے انھیں ایسا سیاہ باطن کر دیا ہے کہ انھیں گائے کے مقابلے میں انسان بے قیمت دکھائی دیتا ہے۔

سیاسی اغراض کے لیے اس پست عقیدت مندی کو بڑھاوا دیا جارہا ہے۔ کیا سیاستدان اتنا پست بھی ہوسکتے ہیں کہ وہ حصول اقتدار کے لیے کروڑوں انسانوں کو گائے کا دیوانہ بنا دیں اور وہ قومیں اور خاص طور پر مسلمان جو گائے کا گوشت کھانے کو حلال جانتی ہیں، ان کے خلاف وحشیانہ نفرت کی فضا پیدا کر دیں، اس طرح سے کہ جب کسی ہندو گائے پرست کو کوئی مسلمان دکھائی دے تو اس کے سراپا میں اسے گاؤ ماتا کا قاتل اور دشمن نظر آئے، جسے ختم کرنا وہ اپنا مذہبی فریضہ جان لے۔ مسئلہ صرف گائے پرستی کا نہیں، انسان جب بھی توحید پرستی سے منحرف ہوتا ہے یا خدا کے ساتھ یا اس کے مقابلے میں کسی اور شخص، وجود یا چیز کی پرستش کرنے لگتا ہے اور اسے غیر معمولی طور پر اس طرح سے مقدس جاننے لگتا ہے، جیسے معبود کو جانا جاتا ہے تو اس کا انجام آخر کار ایسا ہی وحشیانہ ہوتا ہے، جیسا بھارت میں دکھائی دے رہا ہے اور بھارتی معاشرہ جس طرف بگ ٹٹ دوڑ رہا ہے۔ اے کاش بھارت کے اندر سے ایسی طاقتور آواز اٹھے جو بھارتیوں کو انسانی عظمت کی طرف متوجہ کرسکے۔

یہ بھی دیکھیں

مریم نواز ہی وزیراعلیٰ پنجاب کیوں بنیں گی؟

(نسیم حیدر) مسلم لیگ ن کی حکومت بنی تو پنجاب کی وزارت اعلیٰ کا تاج …