ہفتہ , 20 اپریل 2024

کردوں کے مسئلے پر امریکہ اور ترکی میں کشیدگی

(تحریر: احمد کاظم زادہ)

شاید امریکہ کی تاریخ میں کوئی ایسی حکومت نہیں ملے گی جو موجودہ صدر ٹرمپ کی حکومت جتنی غاصب صہیونی رژیم خاص طور پر بنجمن نیتن یاہو کی سربراہی میں حکمران دائیں بازو کی جماعت کی خدمت گذاری کرنے میں مصروف رہی ہو۔ اسی طرح اسرائیل کی غاصب صہیونی رژیم وہ واحد حکومت ہے جو بدستور امریکہ اور صدر ٹرمپ کی حکومت کو نچوڑنے میں مصروف ہے۔ اگرچہ صدر ڈونلڈ ٹرمپ کئی بار گذشتہ امریکی حکومتوں کو مشرق وسطی میں 7 کھرب ڈالر پر مشتمل قومی سرمایہ ضائع کرنے کا الزام عائد کر چکے ہیں لیکن انہوں نے ابھی تک اس بارے میں اسرائیل کے بارے میں کوئی بات نہیں کہی جبکہ حقیقت یہ ہے کہ اس امریکی نقصان میں اسرائیل براہ راست یا بالواسطہ طور پر ملوث رہا ہے۔ ٹرمپ حکومت کے اندر بھی شاید کوئی شخص وائٹ ہاوس کے قومی سلامتی میں مشیر جان بولٹن اور وزیر خارجہ مائیک پمپئو جتنا اسرائیلی حکومت کا دلدادہ نہیں ملے گا۔ یہ دو افراد اسرائیل کو امریکی مفادات کے تناظر میں نہیں بلکہ اس کے برعکس امریکہ کو اسرائیلی مفادات کے تناظر میں دیکھتے ہیں۔

جب امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ نے ترکی کے صدر رجب طیب اردگان سے ٹیلی فونک رابطے کے بعد شام سے امریکہ کے فوجی انخلا کا اعلان کیا تو بہت کم ایسے افراد تھے جو یہ تصور کر رہے تھے کہ ان کا یہ موقف محض دعوے کی حد تک ہے۔ جیسا کہ امریکہ کے اندر بھی ملک کے وزیر دفاع جیمز مٹیس نے صدر کے اس فیصلے پر اعتراض کرتے ہوئے اپنے عہدے سے استعفی دے دیا۔ لیکن بعد میں جب معلوم ہوا کہ اسرائیلی حکام اس فیصلے پر خوش نہیں اور اس کے نتائج سے پریشان ہیں تو فوراً انہیں اعتماد میں لینے کیلئے جان بولٹن اور مائیک پمپئو نے تل ابیب سے رابطہ شروع کر دیا۔ اس بارے میں امریکی وزیر خارجہ مائیک پمپئو نے نہ صرف برازیل کے صدر کی حلف برداری کی تقریب کے دوران اسرائیلی وزیراعظم بنجمن نیتن یاہو سے ملاقات کی بلکہ مشرق وسطی دورے کا بھی آغاز کر دیا۔ وہ اس دورے میں خلیج تعاون کونسل کے 6 رکن عرب ممالک کے علاوہ مصر اور اردن بھی جائیں گے۔ اس دورے میں ان کا بنیادی مقصد خطے میں ایران کے خلاف فضا قائم کرنا اور اسرائیل کی سلامتی کیلئے عربی نیٹو تشکیل دینا ہے تاکہ اس طرح اسرائیلی حکام کی پریشانی دور کر کے ان کا اعتماد حاصل کر سکیں۔

امریکہ کی قومی سلامتی کے مشیر جان بولٹن نے بھی اپنے دوروں کا آغاز تل ابیب سے کیا تاکہ شام کے شمال مشرقی حصے سے امریکی فوجیوں کی وطن واپسی کے بارے میں ان کی پریشانی کا قریب سے جائزہ لے سکے اور اسرائیل کے ان تحفظات کو ترکی جا کر ترک حکام کو منتقل کر سکے۔ بظاہر ایسا دکھائی دیتا ہے کہ شام میں امریکہ کے فوجی انخلا کے بعد ان کی خالی جگہ ترکی پر کرے گا۔ اگرچہ امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ نے شام سے فوجی انخلا کو کسی چیز سے مشروط نہیں کیا تھا لیکن جان بولٹن نے اسرائیلی حکام سے ملاقات کے بعد شام سے امریکہ کے فوجی انخلا کی تین شرطیں پیش کر دیں۔ پہلی شرط یہ تھی کہ امریکی فوجیوں کی کچھ تعداد جنوبی محاذ پر تعینات کر دی جائے گی۔ دوسری یہ کہ امریکہ اردن اور عراق کے ساتھ شام کی سرحد پر واقع تنف فوجی اڈہ خالی نہیں کرے گا جبکہ تیسری شرط یہ تھی کہ ترکی کرد سیاسی اور فوجی گروہوں YPD اور YPG کے تحفظ کی ضمانت فراہم کرے گا۔

ترک حکام نے امریکہ کی پہلی اور دوسری شرط پر تو خاموشی کا اظہار کیا ہے لیکن تیسری شرط کو شدید تنقید کا نشانہ بنایا ہے۔ یہ مسئلہ جان بولٹن کے ترکی دورے پر بھی بہت زیادہ اثرانداز ہوا ہے۔ وہ حتی ترکی کے صدر رجب طیب اردگان سے ملاقات بھی نہیں کر پائے۔ ترکی نے اعلان کیا ہے کہ ان کی نظر میں کرد مسلح گروہوں اور داعش کے درمیان کوئی فرق نہیں پایا جاتا۔ ترکی نے امریکہ سے مطالبہ کیا ہے کہ وہ کرد گروہوں کو اسلحہ پھینکنے پر مجبور کرے۔ دوسری طرف امریکہ نے نہ صرف ترکی کے اس مطالبے کو ماننے سے انکار کر دیا ہے بلکہ دہشت گردی سے مقابلے کے بہانے کردوں کو پوری طرح مسلح کر رہا ہے۔ اسی طرح تکفیری دہشت گرد گروہ ھیئت تحریر الشام کے پاس بھی ڈرونز سمیت جدیدترین اسلحہ موجود ہے۔ اس بات کا قوی امکان موجود ہے کہ تکفیری دہشت گرد گروہ ترکی کے خلاف استعمال کئے جائیں۔ جیسا کہ اس سے پہلے ان گروہوں کو روس کے خلاف بھی استعمال کیا جا چکا ہے۔ اب جب جان بولٹن انتہائی تحقیر آمیز انداز میں ترکی سے امریکہ واپس جا چکے ہیں اس خطرے کا امکان کہیں زیادہ بڑھ چکا ہے۔

یہ بھی دیکھیں

مریم نواز ہی وزیراعلیٰ پنجاب کیوں بنیں گی؟

(نسیم حیدر) مسلم لیگ ن کی حکومت بنی تو پنجاب کی وزارت اعلیٰ کا تاج …