بدھ , 24 اپریل 2024

کیا یہ ہندوستان کو اسرائیل بنانے کی کوشش ہے ؟

(بقلم: وویک سندرکمار)

مجلس اتحاد المسلمین کے رہنما اسد الدین اویسی نے کہا ‘اس بل سے بی جے پی کی مسلمانوں سے نفرت کی بو آتی ہے۔ بی جے پی انڈیا کو اسرائیل بنانے کی کوشش نہ کرے۔’
“بی جے پی ہندوستان کو اسرائیل بنانے کی کوشش نہ کرے” یہ جملے ہیں مجلس اتحاد المسلمین کے رہنما اسد الدین اویسی کے جنہوں نے پارلیمنٹ میں شہریت کے متنازعہ بل پرکھلے طور پر اپنی نظر کا اظہار کرتے ہوئے دبے پاوں ہندوستان میں اسرائیلی طرز فکر کے جگہ بنانے پر تنقید کی صورت بیان کئے انہوں نے واضح طور پر کہا کہ اس ‘اس بل سے بی جے پی کی مسلمانوں سے نفرت کی بو آتی ہے”.

شہریت بل کیا ہے ؟
شہریت بل ایک ایسا بل ہے جسکے تحت پاکستان، بنگلہ دیش اور افغانستان میں مذہبی تفریق اور مظالم سے بچ کر انڈیا میں پناہ لینے والے ہندوؤں، سکھوں، جین، پارسیوں، بودھ اور مسیحیوں کو شہریت حاصل کرنے کے عمل کو آسان بنایا جا سکتا ہے ، اس بل میں مذکورہ ممالک کی تمام اقلتیں شامل ہیں لیکن مسلمانوں کو اس سے خارج قرار دیا گیا ہے ۔

ہندوستان کی سیاست میں یوں تو دین و مذہب کے بل پر ہمیشہ ہی کچھ عناصر نے اپنا مفاد حاصل کیا ہے ، لیکن گزشتہ کچھ سالوں میں ایک ہی مذہب کو مختلف انداز سے ٹارگٹ کیا جانا اپنے آپ میں یہ سوال کھڑا کرتا ہے کہ ایک کثیر المذاہب عظیم تمدن چند بہروپیوں کے ہاتھوں جس طرح مذہب کے نام پر تاراج ہو رہا ہے کیا اس کو محفوظ رکھنے کا کوئی راستہ نہیں ہے ؟ کیا اب جو کچھ حکومت کی سمجھ میں آ جائے وہ کر بیٹھے گی ؟ حج سبسڈی کو ہٹانا ہو ، طلاق بل کو پیش کرنا ہو گاو کشی کا معاملہ ہو آسام میں این آر سی کا معاملہ ہو ہر منزل پر ایک ہی مذہب کے لوگوں کو نشانہ بنایا جا رہا ہے ،ایک ہی مذہب کے لوگوں کو مذہب کی بنیاد پر انکے حقوق سے محروم کرنے کا ہی ایک مرحلہ پارلیمنٹ میں یہ نیا بل ہے جس پر پورے ہندوستان کے سیکولر طبقے میں احتجاج ہو رہا ہے، بل کی تفصیل بی بی سی اردو نے کچھ یوں پیش کی ہے :

” خبروں کے مطابق لوک سبھا یعنی پارلیمنٹ کے ایوان زیریں میں شہریت کا ترمیمی بل پیش کرتے ہوئے وزیر داخلہ راج ناتھ سنگھ نے کہا کہ اس بل کا مقصد پاکستان، بنگلہ دیش اور افغانستان میں مذہبی تفریق اور مظالم سے بچ کر انڈیا میں پناہ لینے والے ہندوؤں، سکھوں، جین، پارسیوں، بودھ اور مسیحیوں کو شہریت حاصل کرنے کے عمل کو آسان بنانا ہے۔

راج ناتھ سنگھ نے کہا کہ بنگلہ دیش اور افغانستان میں اقلیتوں کے لیے حالات پہلے کے مقابلے میں بہت بہتر ہوئے ہیں لیکن پاکستان میں ہندوؤں اور دیگر اقلیتوں کو مذہبی تفریق اور مظالم کا سامنا ہے۔

انہوں نے کہا ‘پاکستان میں ریاست اور معاشرے کے مختلف ادارے مذہبی اقلیتوں کے ساتھ منظم طریقے سے تفریق برتتے ہیں۔ انہیں مذہبی آزادی نہیں دی جاتی اور انہیں حقوق انسانی سے بھی محروم رکھا جاتا ہے’۔

اس بل کو پارلیمنٹ میں پیش کیے جانے سے قبل اسے ایوان کی قائمہ کمیٹی کو بھیجا گیا تھا۔ کمیٹی میں شامل حزب اختلاف کے ارکان نے اس میں مسلمانوں کو بھی شامل کرنے کی ترمیم پیش کی تھی لیکن حکمراں جماعت کے ارکان نے کمیٹی میں اکثریت کے ذریعے ترمیم کو مستترد کر دیا۔ بعض ارکان نے نیپال اور سری لنکا کو بھی شامل کرنے کی تجویز رکھی تھی جسے رد کر دیا گیا۔

ملک میں دوسرے ممالک سے آنے والی اقلیتوں کو تحفظ فراہم کرنے کے لیے قانون سازی کے خلاف ماضی میں بھی احتجاج ہوتے رہے ہیں شہریت کا یہ ترمیمی بل ایک ایسے وقت میں پیش کیا گیا ہے جب شمال مشرقی ریاست آسام میں غیر قانونی بنگلہ دیشی تارکین وطن کی شناخت کے لیے تمام شہریوں کے شہریت کے دستاویزات کی جانچ کی جا رہی ہے۔ اس عمل میں چالیس لاکھ ایسے بنگالی باشندے سامنے آئے ہیں جن کی شہریت کے دعوے کو تسلیم نہیں کیا گیا ہے۔ انہیں اپنے دعوے کے حق میں اضافی ثبوت پیش کرنے کے لیے کچھ مہلت دی گئی ہے۔ لیکن اس عمل سے ریاست میں بے چینی پیدا ہو گئی ہے۔

اس بل کے ذریعے بی جے پی کا مقصد آسام میں غیر قانونی قرار پانے والے لاکھوں ہندوؤں اور ماضی میں پاکستان سے دلی، جموں، راجستھان، ہریانہ اور پنجاب آنے والے لاکھوں ہندوؤں کو شہریت دینا ہے۔ اگرچہ اس کا ایک انسانی پہلو ہے لیکن آسام اور تمام شمال مشرقی ریاستوں میں خود بی جے پی کے اتحادی اس بل کی مخالفت کر رہے ہیں۔ انہیں خدشہ ہے کہ اس بل کے منظور ہونے سے بنگلہ دیش کے ہندوؤں کو ان کی ریاستوں میں آ کر بسنے کی ترغیب ملے گی۔

پارلیمنٹ میں حزب اختلاف کی جماعتیں اس وجہ سے اس کی مخالفت کر رہی ہیں کہ اس میں ’مذہب کے نام پر مسلمانوں کو پناہ دینے سے انکار‘ کیا گیا ہے۔ حکومت کا کہنا ہے کہ تینوں پڑوسی ملکوں میں اگر ہندوؤں اور دوسری اقلیتی افراد کے ساتھ تفریق ہوگی تو ان کے پاس انڈیا میں پناہ لینے کے علاوہ دنیا میں کوئی جگہ نہیں ہے لیکن اگر مسلمانوں کا سوال آتا ہے تو ان کے سامنے بہت سے آپشنز ہیں۔

ترنمول کانگریس کے رہنما سوگت رائے نے اس بل کی مذمت کرتے ہوئے کہا کہ ‘اس بل میں مسلمانوں کو کیوں نہیں شامل کیا گیا۔ حکومت مذہب کی بنیاد پر پھوٹ ڈال کر سیاسی فائدہ اٹھانے کی کوشش کر رہی ہے۔’

مجلس اتحاد المسلمین کے رہنما اسد الدین اویسی نے کہا ‘اس بل سے بی جے پی کی مسلمانوں سے نفرت کی بو آتی ہے۔ بی جے پی انڈیا کو اسرائیل بنانے کی کوشش نہ کرے۔’
حزب اختلاف کی سب سے بڑی جماعت کانگریس نے شہریت کے ترمیمی بل کو غیر آئینی قرار دیتے ہوئے اس کی مخالفت کی ہے۔ آسام میں بی جے پی کی ایک اتحادی جماعت اس بل کی مخالفت میں بی جے کے اتحاد سے الگ ہوگئی ہے۔اس بل کی منظوری کے لیے اسے دونوں ایوانوں میں دو تہائی اکثریت سے پاس کرنا پڑے گا”

سوال یہ اٹھتا ہے کہ الیکشن سے نزدیک مذہبی بنیادوں پر پیش کئے جانے والے اس بل کا مقصد کیا محض ہندووں اور دیگر اقلتیوں کی شہریت کو آسان بنانا ہے یا پھر اس بات کا کھلم کھلا اعلان ہے کہ ہماری سیاست ہندوستان کو ایک ہندو ملک میں بدلنا ہے ، اور تمام لوگوں خاص کر ہندووں کو یہ پیغام دینا ہے کہ اگر ایک مضبوط ہندو ملک چاہتے ہیں تو ایک بار پھر اسی حکومت کو اقتدار حوالے کریں جو انکے حقوق کے لئے لڑ رہی ہے ۔

مسلمانوں کو اس سے قبل بھی حکمراں جماعت نے نظر انداز کیا ہے ؟ اور واضح طور پر بی جے پی کے بعض رہنما یہ بات فخر سے کہتے نظر آتے ہیں کہ انہیں مسلمانوں کے ووٹوں کی ضرورت ہی نہیں ہے ، ظاہر ہے یہ اس لئے نہیں ہے کہ انہیں ضرورت نہیں بلکہ اس لئے ہے کہ یہ کہہ کر وہ اپنی ضرورت کو پورا کر سکتے ہیں جب ہندو متحد ہو کر انہیں ووٹ دیں گے تو پھر انہیں کسی کی کیا ضرورت ہے ، ورنہ انکوتواپنی سیاست چمکانے کے لئے ہر کسی کے مکھوٹے کی ضرورت ہے اور حکمراں بی جے پی جماعت میں ، مختار عباس نقوی ، شہنواز حسین ، محسن رضا ، سے لیکر بقل نواب تک سب ایسی ہی مکھوٹے ہیں جو بوقت ضرورت کام آتے ہیں ، کبھی ان لوگوں کو یہ کہہ کر استعمال کیا جاتا ہے کہ یہ مسلم چہرے ہیں اور ہم سب کو ساتھ لے کر چل رہے ہیں کبھی یوں استعمال کیا جاتا ہے کہ ان میں سے بعض ہندوں سے بھی بڑے ہندو دکھائی دیتے نظر آتے ہیں ۔

بہر کیف موجودہ حالات میں جس طرح مسلمانوں کو ملکی سطح پر پچھاڑنے کی کوشش کی جا رہی ہے وہیں ایسی کوششیں بھی ہو رہی ہیں کہ آبادی کے تناسب کو ایسا بنایا جائے کہ اگر سوتا ہوا مسلمان جاگ بھی جائے تو انکا کچھ نہ بگڑ سکے اور حالیہ شہریت کے بل کو اسی تناظر میں دیکھاجا سکتا ہے ،اور ظاہر ہے ہندوستان جب اسرائیل کے نقش قدم پر آنکھ بند کر کے چلے گا تو یہ سب تو ہوگا ہی ، آگے آگے اور بھی بہت کچھ ہوگا بس پردہ ہٹنے کی دیر ہے ، صہیونی طرز ہنودی ہندوستان ہمارے سامنے ہوگا ، یہ اور بات ہے کہ مسلمان ہوش کے ناخن لیں اور در پیش حالات کی نزاکت کو بھانپتے ہوئے صحیح وقت پر صحیح فیصلہ لیں ، صحیح فیصلہ کا ایک نمونہ یہی ہوگا کہ سیکولر محاذ کے ساتھ اتفاق رائے کے ذریعہ دونوں ایوانوں میں دو تہائی اکثریت سے پاس ہونے والا بل یہ کہہ کر رد کرا دیا جائے کہ ہم اپنے وطن عزیز کو اسرائیل ہر گز نہیں بننے دیں گے ۔

یہ بھی دیکھیں

مریم نواز ہی وزیراعلیٰ پنجاب کیوں بنیں گی؟

(نسیم حیدر) مسلم لیگ ن کی حکومت بنی تو پنجاب کی وزارت اعلیٰ کا تاج …