جمعہ , 19 اپریل 2024

ڈالر کے تسلط کا ممکنہ خاتمہ اور اس کے محرکات

(ترجمہ و تحقیق : سید نجیب الحسن زیدی)

امریکہ کی جانب سے اقتصادی پابندیوں کی بنا پر وجود میں آنے والی بین الاقوامی چپقلشیں اور واشنگٹن کی جانب سے تجارتی جنگ کے چھیڑے جانے کی بنا پر امریکہ کی اقتصادی پابندیوں کے مسائل سے جوجھتے ممالک اس بات پر مجبور ہو گئے کہ اقتصادی معاملات کی انجام دہی اور لین دین میں ڈالر کے علاوہ کسی اور طریقہ کار کو عمل میں لاتے ہوئے ڈالر کو کنارے لگا دیں ۔

گزشتہ ۲۰۱۸ ء ایسے حوادت کو اپنے دامن میں لئے ہوئے تھا کہ جنکے سبب دنیا جیوپولیٹکل بنیاددوں پر دو حصوں میں تقسیم ہو گئی : ایک حصہ ان ملکوں پر مشتمل تھا کہ جنہوں نے حسب سابق بین الاقوامی معاملات میں ڈالر کو ایک مالی تبادلہ کے ذریعہ کے طور پر تسلیم کرتے ہوئے ،اس کا استعمال جاری رکھا جبکہ دوسرے حصے میں وہ ممالک آتے ہیں جو ڈالر کو پیٹھ دکھا رہے ہیں ۔

امریکہ کی جانب سے اقتصادی پابندیوں کی بنا پر وجود میں آنے والی بین الاقوامی چپقلشیں اور واشنگٹن کی جانب سے تجارتی جنگ کے چھیڑے جانے کی بنا پر امریکہ کی اقتصادی پابندیوں کے مسائل سے جوجھتے ممالک اس بات پر مجبور ہو گئے کہ اقتصادی معاملات کی انجام دہی اور لین دین میں ڈالر کے علاوہ کسی اور طریقہ کار کو عمل میں لاتے ہوئے ڈالر کو کنارے لگا دیں ۔

چنانچہ گزشتہ سال ۲۰۱۸ میں مختلف ممالک نے ڈالر کو تجارتی معاملات سے ہٹانے کا فیصلہ کر لیا اور اس کرنسی سے وابستگی و تعلق خاطر کو ختم کرنے کے لئے انہوں نے مختلف اقدامات کئے ، ڈالر سے پیچھا چھڑانے والے ان ممالک میں ہر ایک کا اپنا الگ ہی زاویہ نظر ہے ۔

چین :
چین اور امریکہ کے درمیان تجارتی جنگ کا سلسلہ ، اور اس کے ساتھ روس کے خلاف امریکہ کی پابندیاں جو چین کا ایک بڑا تجارتی شریک ہے اس با ت کا سبب بنیں کہ پکن کے عہدے دار ایسی سیاست کو اختیار کریں جس کے چلتے ڈالر سے وابستگی کو ختم کیا جا سکے ۔

پکن نے اس میدان میں ایک نرم سیاست اختیار کی اور چینی حکومت نے بغیر شور شرابے کے اس سیاست کو آگے بڑھانا شروع کیا ، چین کے مرکزی بینک نے ۲۰۱۸ میں امریکہ کی خزانہ داری کی وزارت سے خریدے گئے باونڈس[۴] و تمسکات {negotiable instruments}کو جوکہ چین کے اختیار میں تھے بازار میں بیج دیا ۔

اس اقدام کے باوجود ،چین آج بھی امریکہ کے سب سے زیادہ باونڈس رکھنے اور قابل خرید و فروخت تمسکات {negotiable instruments} والا ملک ہے یہ اور بات ہے کہ چین کے اس عمل سے اس کا حصہ گزشتہ دو سالوں میں اپنے کمترین مقام پر پہنچ گیا ہے ۔

چین نے ڈالر سے دوری بنانے کی حکمت عملی اس طرح بنائی کہ اپنے تبادلات میں ڈائرکٹ ڈالر کوختم کرنے کے بجائے یوآن کو بین الاقوامی سطح پر لانے کی کوشش کرنا شروع کر دی ہے ۔چین گزشتہ چند سالوں میں چین یو آ ن [۵]کو ڈالر ، جاپانی ین[۶] ، یورو اور پونڈ کے ساتھ بین الاقوامی کرنسی کی مخصوص فنڈ یا باسکٹsdr-imf [7]میں جگہ دلانے میں کامیاب ہو گیا ۔

گزشتہ چند مہینوں میں چین نے یوآن کی مضبوطی کے لئے وسیع پیمانے پر اقدامات کئے ،ان اقدامات میں سونے کے ذخیرے میں اضافہ ، یوآن کے تحت تیل کے مارکیٹ کی تشکیل ، اسی طرح اپنے تجارتی شرکاء کے ساتھ اپنی ملکی کرنسی یوآن سے استفادہ کی طرف اشارہ کیا جا سکتا ہے ۔

چین اپنے منصوبہ کے ایک اور حصہ کی تکمیل کے لئے یوآن کی دنیا میں مضبوطی کی خاطر اپنے تجارتی شریکوں کے ساتھ سوئپ[۸] کے امکانات کے سلسلہ سے پروگرامنگ میں مشغول ہے تاکہ اس کے ذریعہ یوآن کو رواج بخش سکے ۔ ان تمام ہی موارد میں چینی متحرک انداز میں مشرقی ایشیا کے جنوبی ممالک کے ساتھ علاقے کی جامع اقتصادی شراکت کے نام کے تحت آزاد تجارت کے ایک معاہدے {T.PP}[9]کو وجود میں لانے کی کوشش کر رہے ہیں ۔

اگر یہ ڈیل ہو جاتی ہے اور معاہدہ کامیاب رہتا ہے تو چین بڑی ہی آسانی کے ساتھ آزاد تجارت میں امریکہ کی خالی جگہ لینے میں کامیاب ہو جائے گا جو کہ امریکیوں ہی کے ذریعہ وجود میں آئی تھی ، لیکن ٹرنپ کی حکومت اس سے دست بردار ہو گئی تھی ۔

جامع اقتصادی شراکت علاقے کے ۱۶ ایسے ممالک پر مشتمل ہوگی جنکا زیادہ تر تعلق ایشیاء سے ہے ، جنکی مجموعی آبادی ۴۔۳ /ارب ہے ، اور انکا مجموعی اقتصادی تخمینہ، ۵۔۴۹ ٹریلن ڈالر بیان کیا گیا ہے، جو کہ ۴۰ فی صدد دنیا کی مجموعی ملکی آمدنی[۱۰] دنیا کو اپنے ہاتھ میں رکھتے ہیں ۔

روس :
روس کے صدر جمہوریہ ولادیمیر پوٹین نے کہا ہے کہ امریکہ نے ایک اسٹراٹیجک غلطی کا ارتکاب کیا ہے اس لئے کہ دنیا میں ڈالر پر قائم اعتماد ختم ہو رہا ہے ۔پوٹین نے ابھی تک ڈالر میں ہونے والے تجارتی لین دین، یا پھر تجارتی معاملات میں ڈالر کی ممنوعیت کے سلسلہ سے کوئی بات نہیں کہی ہے ، لیکن انٹون روس کے وزیر اقتصاد آنتھن گرامانوچ سیلوناو[۱۱] نے گزشتہ سال کی ابتداء میں یہ اعلان کیا کہ روس کو چاہیے اپنے اختیار میں موجود امریکی وزرات خزانہ کے بونڈس کو محفوظ اور بہتر پونجی جیسے روبیل و یورو یا دیگر قیمتی دھاتوں میں تبدیل کرا لے ۔ روس نے اب تک کئی بار ڈالر کو تا حد ممکن اپنے اقتصاد سے ختم کرنے کی سیاست کو اپناتے ہوئے ڈالر سے جان چھڑانے کی کوشش کی ہے ، ۲۰۱۴ ء سے لیکر ۲۰۱۸ دائمی طور پر مغرب کی جانب خاص کر امریکہ کی طرف سے روس کو پابندیوں کا سامنا رہا ہے اور دن بہ دن ان پابندیوں میں اضافہ ہی ہوتا گیا ہے ۔

اسی تسلسل کی بنیاد پر اور امریکہ کی جانب سے مزید سخت پابندیوں کے لگائے جانے کی دھمکی اور روس کی سوئفتس SWIFT[12] ، ویزا کارڈ اور مسٹر کارڈ سے دسترسی ختم ہو جانے کی وجہ سے روس نے سوئفت کی جگہ SPFS نامی ایک قومی سسٹم کے متبادل کو پیش کیا ہے ، اور MIR کو بھی ویزاکارٹ اور مسٹر کارڈ کی جگہ ایک متبادل بنایا ہے ۔

روس اپنے ان اقدامات کے بل پر کسی حد تک اپنے ایکسپورٹ میں ڈالر کے استعمال کو کم کرنے میں کامیاب ہوا ہے روس کو ، ہندوستان ، چین اور ایران کے ساتھ ، کرنسی سوآپ { swwap } ، جیسے معاہدوں پر دستخط کرنے کی بنا کافی حد تک یہ کامیابی نصیب ہوئی ہے کہ وہ قومی کرنسی کو ڈالر کی جگہ استعمال کر سکے۔ روس نے ابھی یہ تجویز بھی رکھی ہے کہ یورپی یونین کے ساتھ بھی تجارتی لین دین میں ڈالر کی جگہ یورو کو استعمال کیا جائے، ایک زمانہ وہ بھی تھا جب روس امریکی وزارت خزانہ کی جانب سے جاری کئے جانے والے بونڈس کے ۱۰ بڑے ملکوں میں شمار ہوتا تھا لیکن اب اس نے اپنی تمام پونجی کو نیلام کر دیا ہے اور اس نیلامی کا بڑا حصہ ۲۰۱۸ ء میں انجام پایا ہے ۔

روس نے امریکی بونڈس{us Treasury bonds} کو بیچنے کے بعد حاصل ہونے والے سرمایہ کو بیرونی کرنسی کے ذخیرہ میں اضافہ اور روبل کو مضبوط بنانے کے لئے زیادہ سونے کو حاصل و ذخیرہ کرنے میں خرچ کیا ہے ۔

ترکی :
گزشتہ سال کی ابتداء میں ترکی کے صدر جمہوریہ رجب طیب اردگان نے تجارت کی عالمی منڈی میں ڈالر کے تسلط کو ختم کرنے کے سلسلہ سے اپنے منصوبہ کا اعلان کرتے ہوئے کہا کہ ترکی حکومت یہ چاہتی ہے کہ اپنے ساتھ شریک تجارتی حلیفوں کے ساتھ ڈالر ہوانے والے تجارتی تبادلوں کی ادائگی کو ڈالر میں ادا نہ کرتے ہوئے اس مقصد کو حاصل کرے ، ترکی کے صدر جمہوریہ نے اعلان کیا کہ انقرہ چین، روس اور یوکرین سے تجارتی لین دین میں ان ممالک کی قومی کرنسی میں ادائگی کے منصوبہ بندی کر رہا ہے ۔ اسی طرح ترکی ایران کے ساتھ تجارتی لین دین میں ڈالر کو حذف کرنے کے سلسلہ سے مذاکرات کر رہا ہے ، ترکی کے اس فیصلہ کے مختلف سیاسی و اقتصادی دلائل ہیں ۔

۲۰۱۶ ء میں اردگان کی حکومت کے خلاف ہونے والی ناکام بغاوت کے بعد سے لیکر اب تک ترکی کے واشنگٹن سے تعلقات خراب ہو گئے ہیں اور رپورٹس کے مطابق اردوگان کا ماننا ہے کہ امریکہ کا اس بغاوت میں ہاتھ تھا ۔ دوسری طرف قومی سلامتی و سکورٹی کے اسباب کی بنیاد پر ایک امریکن پادری کو ترکی کی جانب سے جیل کی سلاخوں کے پیچھے ڈال دینے پر امریکہ نے پابندیاں عائد کر دیں ، جنکے چلتے ترکی کی معیشت کو زبردست جھٹکا لگا۔

علاوہ از ایں اردگان نے مکرر ترکی کی پابندی کے خلاف بولنے کے ساتھ ہی ساتھ واشنگٹن کے ذریعہ تہران کے خلاف اقتصادی جنگ چھیڑے جانے اور ایران کو الگ تھلگ کر دئے جانے پر امریکہ کی کڑی تنقید کی ہے ۔ترکی کی جانب سے روس سے S400 کے فضائی سسٹم کوخریدے جانے کی وجہ سے بھی ترکی اور واشنگٹن کے تعلقات خراب ہوئے ہیں۔

ان تمام مذکورہ موارد کے ساتھ ترکی کی کوشش ہے کہ ڈالر کو لین دین سے ختم کر کے اپنی کرنسی کو مضبوط بنائے، ترکی لیرہ کی قیمت گزشتہ سال سے اب تک ڈالر کے مقابل آدھی رہ گئی ہے ۔ ڈالر کے سامنے ترکی لیرہ کی قیمت میں شدید گراوٹ، افراط زر (Inflation) [13]کے زیادہ ہونے اور ترکی میں اشیاء اور سرویسز کی قیمت کے بڑھ جانے کے ساتھ ساتھ پیش آئی ۔

ایران :
ایران کے چھ بڑی طاقتوں کے ساتھ جوہری توانائی کے جامع معاہدے [۱۴] JCPOA کے بعد عالمی منڈی میں واپسی کو ابھی زیادہ وقت بھی نہیں ہوا تھا کہ ڈونلڈ ٹرنپ نے وہائٹ ہاووس پہنچ کر امریکہ کو اس معاہدے سے دست بردار کر دیا ۔

تیل کے ذخائر سے مالا مال ایران ایک بار پھر امریکہ کی شدید تر ین پابندیوں کا سامنا کر رہا ہے ،اور اتنا ہی نہیں امریکہ کی طرف سے دھمکی بھی دی گئی ہے کہ جو ملک ایران کا اس سلسلہ سے کوئی بھی تعاون کرے گا اسے بھاری مالی تنبیہ کا سامنا کرنا پڑے گا ۔امریکی پابندیوں نے ایران کو مجبور کر دیا ہے کہ ایسے مکینزم کو تلاش کرے جس کے بموجب تیل کی فروخت کے بعد ڈالر سے ہٹ کر ادائگی ممکن ہو سکے۔

ایران نے ہندوستان کے ساتھ تیل کی فروخت کے بعد روپیہ میں قیمت کی ادائگی کے معاہدے پر دستخط کر دئیے ہیں ، فی الحال عراق سے اس کے مذاکرات جاری ہیں ۔ایران اور عراق چاہتے ہیں آپسی لین دین میں دینار سے استفادہ کریں تاکہ بینکی سسٹم پر پابندی کی بنا پر ڈالر سے اپنی وابستگی کو کم کیا جا سکے ۔

ہندوستان :
ہندوستان ، دنیا کی چھٹی بڑی اقتصادی طاقت ہے، اور بین الاقوامی برادری کے ایک بڑے امپورٹ کرنے والے ممالک میں شمار ہوتا ہے ، یہ بات ذرا بھی کوئی تعجب کی بات نہیں ہے کہ ہندوستان ڈائرکٹ ہی بہت سارے جیو پولیٹکل جھگڑوں سے متاثر ہوتا ہے ، اور ہندوستان کے تجارتی شریکوں پر لگائی گئی پابندیاں ہندوستانیوں کو شدید طور پر متاثر کر تی ہیں ، گزشتہ سال کی ابتداء میں امریکہ کی جانب سے روس پر لگائی گئی پابندیوں کے چلتے روس سے s400 سسٹم خریدنے پر ہندوستان نے ماسکو کو روپیہ میں ادائگی کی ۔

اسی طرح ہندوستان ناچارہوا کہ ایران سے تیل خریدنے کی قیمت بھی ایران پر لگی امریکی پابندیوں کی بنا پر ایک بار پھر روپیہ میں ہی چکائے ۔

گزشتہ سال دسمبر کے مہینے میں بھی ہندوستان نے عرب امارات کے ساتھ ایک معاہدہ میں سوایپ{ swwap }پر سائین کئے تاکہ تجارتی تبادل میں آسانی کے ساتھ دونوں ملکوں کے درمیان تیسری کرنسی کے سلسلہ سے سرمایہ کاری کو کم کر سکیں ۔

اس لحاظ سے کہ ہندوستانی خریدنے کی توانائی کے لحاظ سے دنیا کے تیسرے ملک میں شمار ہوتے ہیں ، یہ تمام اقدامات عالمی منڈی میں ڈالر کے تسلط کو قابل دید حد تک چیلنز کر سکتے ہیں ۔بشکریہ ابنا نیوز

یہ بھی دیکھیں

مریم نواز ہی وزیراعلیٰ پنجاب کیوں بنیں گی؟

(نسیم حیدر) مسلم لیگ ن کی حکومت بنی تو پنجاب کی وزارت اعلیٰ کا تاج …