ہفتہ , 20 اپریل 2024

زلمے خلیل زاد کے دورے کے موقع پر حافظ محب اللہ کی گرفتاری، افغان طالبان کو ’پیغام‘

کابل (مانیٹرنگ ڈیسک)افغان طالبان کے مطابق پاکستانی فوج نے گروپ کے اہم رہنما اور افغانستان میں طالبان کی حکومت کے دوران مذہبی امور کے وزیر رہنے والے حافظ محب اللہ کو پشاور سے حراست میں لے لیا ہے۔واضح رہے کہ یہ قدم ایک ایسے وقت میں اٹھایا گیا ہے جب افغان میں مفاہمتی عمل کے لیے امریکی حکومت کے مشیر خاص زلمے خلیل زاد منگل کو پاکستان کے دورے پر پہنچنے والے ہیں۔افغان طالبان امریکہ سے مذاکرات کی تیاری کر رہے ہیں اور اس حوالے سے چند دن قبل زلمے خلیل زاد نے متحدہ عرب امارت اور قطر میں افغان طالبان کے سیاسی دھڑے سے ملاقات بھی کی تھی۔

امریکہ نے ماضی میں متعدد بار پاکستان سے مطالبہ کیا ہے کہ وہ افغان طالبان کو ملک میں پناہ دینا بند کرے جبکہ پاکستان نے تردید کی ہے کہ وہ ان کی کسی قسم کی مدد کرتا ہے۔امریکی حکومت کا پاکستانی حکام سے یہ بھی کہنا ہے کہ وہ طالبان کو مذاکرات پر آمادہ کرے جس کی مدد سے افغانستان میں 17 سال سے جاری جنگ کا خاتمہ ہو سکے لیکن پاکستان کی جانب سے ابھی تک کوئی جواب نہیں آیا ہے۔

‘حافظ محب اللہ کی گرفتاری’
طالبان ذرائع نے بی بی سی کو بتایا ہے کہ حافظ محب اللہ کافی عرصے سے پشاور میں رہائش پذیر تھے۔طالبان کے دو رہنماؤں نے نام نہ بتانے کی شرط پر کہا حافظ محب اللہ کی گرفتاری اس موقع پر اس لیے عمل میں آئی ہے کیونکہ وہ افغان طالبان پر دباؤ ڈالنے کی کوشش کر رہے ہیں تاکہ وہ زلمے خلیل زاد اور ساتھ ساتھ افغان صدر اشرف غنی کے نمائندوں سے ملاقات کریں۔

طالبان حکام نے ابھی تک افغان حکومت سے براہ راست بات کرنے سے انکار کیا ہے اور ان کا ماننا ہے کہ افغان حکومت کی اپنی کوئی اہمیت نہیں ہے اور اسی وجہ سے وہ اب تک صرف امریکی عہدے داران سے ملے ہیں۔ذرائع کا کہنا ہے کہ پاکستان اور سعودی عرب دونوں اپنی طرف سے پوری کوشش کر رہے ہیں کہ افغان طالبان اپنے موقف میں نرمی پیدا کر لیں۔

ایک سنیئر افغان طالبان رہنما نے بی بی سی کو بتایا: ‘انھوں نے حافظ محب اللہ کو اس لیے گرفتار کیا ہے تاکہ ہمیں پیغام بھیج سکیں۔’افغان طالبان کے رہنماؤں کی کونسل، کوئٹہ شوریٰ کے ایک رکن نے کہا: ‘ان امن مذاکرات کے حوالے سے پاکستانی حکام سے ملاقات ہوئی تھی لیکن اس کا اختتام اچھا نہیں تھا۔ ان مذاکرات کے بعد پاکستانی حکام نے کئی چھاپے مارے اور محب اللہ کو گرفتار کر لیا۔ اس کے بعد ہمارے رہنما شیخ ہیبت اللہ نے سب کو ہوشیار رہنے کا پیغام بھیجا ہے۔’ماضی میں طالبان حکام یہ کہہ چکے ہیں کہ وہ افغان حکومت سے مذاکرات صرف اس وقت کریں گے جب امریکی افواج کے مکمل طور پر انخلا ہونے کی تاریخ طے ہو جائے گی۔

‘پاکستان پر دباؤ امریکہ سے نہیں بلکہ سعودی عرب اور متحدہ عرب امارات سے آیا ہے’
اس بدلتی صورتحال پر بی بی سی نے تجزیہ کار احمد رشید نے بات کی تو انھوں نے کہا کہ ایسا محسوس ہوتا ہے کہ پاکستان کی پالیسی میں تبدیلی آئی ہے۔’ایسا لگ رہا ہے کہ فوج اور خفیہ ایجنسی آئی ایس آئی طالبان کو آمادہ کرنے کی کوشش کر رہی ہے کہ وہ افغان حکومت اور امریکیوں سے مذاکرات کرنے پر رضامند ہو جائیں۔ پاکستان پر اصل دباؤ امریکہ سے نہیں بلکہ سعودی عرب اور متحدہ عرب امارات سے آیا ہے۔’

یاد رہے کہ حالیہ دنوں میں دونوں ممالک نے پاکستان کی مخدوش اقتصادی حالات کے پیش نظر اسے اربوں ڈالر کے قرضے دیے ہیں۔پاکستان کا مسلسل یہ موقف رہا ہے کہ ان کا طالبان پر ویسا اثر نہیں ہے جو ماضی میں تھا لیکن ان کی ‘خواہش ہے کہ ایک پرامن اور مستحکم افغانستان قائم ہو۔’

اس سے پہلے گذشتہ سال اکتوبر میں پاکستان نے افغان طالبان کے بانیان میں سے ایک رہنما ملا برادر کو رہا کر دیا تھا تاکہ وہ امن مذاکرات میں اپنا کردار ادا کر سکیں۔احمد رشید نے اس حوالے سے کہا کہ ‘طالبان کے لیے سازو سامان کی بڑی تعداد ابھی بھی پاکستان سے آتی ہے اور یہ واضح نہیں ہے کہ آیا اس عمل کو روکا گیا ہے کہ نہیں۔’

دوسری جانب طالبان اراکین کا کہنا ہے کہ انھیں پاکستان حکام کی نیت پر بھروسہ نہیں ہے کیونکہ امن مذاکرات کے لیے پاکستان طالبان گروپ کے اُس حصے کا ساتھ دے رہا ہے جو پاکستان کے لیے فائدہ مند ہے بجائے اس دھڑے کا جو طالبان کے قطر میں موجود سیاسی دفتر کا نمائندہ ہے۔’طالبان ذرائع نے کہا کہ ‘اگر ان پر دباؤ زیادہ ڈالا گیا تو مذاکرات ختم ہو جائیں گے۔’

یہ بھی دیکھیں

بائیڈن کے حماس سے اپنی شکست تسلیم کرنے کے چار اہم نتائج

ایک علاقائی اخبار نے الاقصیٰ طوفان آپریشن کو مختلف جہتوں سے حماس کے خلاف امریکہ …