جمعہ , 19 اپریل 2024

ٹرمپ کی نئی مہم جوئی

(ظہیر اختر بیدری) 

امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ نے کہا ہے کہ وہ بہت جلد میکسیکو کی سرحد پر دیوار تعمیر کریں گے اور اس نیک کام کی تکمیل میں اگر ملک میں ایمرجنسی نافذ کرنا پڑی توکریں گے۔ موصوف نے کہا ہے کہ میرے پاس کل اختیارات ہیں۔ میں چاہتا تھا کہ کانگریس اس مسئلے کو حل کرے لیکن کانگریس کی ’’ انا‘‘کی وجہ سے مجھے ہی یہ نیک کام کرنا پڑے گا۔ واضح رہے کہ ٹرمپ نے اس حوالے سے دھمکی دی ہے کہ دیوارکی تعمیر کے لیے ان کے پاس کلی اختیار ہیں جنھیں ماضی کے صدور نے استعمال کیا لیکن میں یہ اختیارات کو استعمال کرنا نہیں چاہتا لیکن دیوار ضرور تعمیر کرنا چاہتا ہوں، لیکن ٹرمپ نے دھمکی دی ہے کہ میکسیکو کی سرحد پر دیوار تعمیر نہ کی گئی تو وہ ایمرجنسی لگاکر یہ دلوں کو جوڑنے اور عوام کو ایک دوسرے سے قریب لانے کا کام کرنا چاہتے ہیں۔ پتہ نہیں کانگریس اس نیک کام میں کیوں رکاوٹ بن رہی ہے۔

کسی بھی ملک کے عوام حکمرانوں کو اس لیے منتخب کرتے ہیں کہ وہ اپنے ملک کے عوام کی ترقی اور بھلائی کے ساتھ ساتھ دنیا کی ترقی اور بھلائی میں بھی کردار ادا کریں لیکن ٹرمپ کی یہ خصوصیت ہے کہ وہ ہمیشہ لڑائی، بحث اور تخریبی کاموں میں زیادہ دلچسپی لیتے ہیں ۔ میکسیکو کی سرحد پر دیوار کھڑی کرنے کی ایک وجہ دیوار کی غیر موجودگی کے باعث جرائم پیشہ افراد کی کھلے عام آمد ہوسکتی ہے۔ دوسری وجہ اسمگلروں کے لیے اسمگلنگ کی سہولت ہوسکتی ہے۔ تیسری وجہ دفاعی تدابیر ہوسکتی ہیں لیکن اتفاق سے تلاش بیسار کے باوجود اس بڑی خبر میں دیوار کی تعمیر کی وجہ نہیں بتائی گئی۔

بہرحال دیوار کی تعمیر دو ملکوں کے درمیان کوئی فال نیک نہیں بلکہ ہر اعتبار سے عدم اعتماد کا ثبوت ہے اور دو ملکوںکے درمیان عدم اعتماد دنیا کی بہت بڑی برائیوں میں سے ایک ہے۔ دوسری عالمی جنگ کے بعد جنگوں کے شیطانوں نے جرمنی اور کوریا کے دو دو ٹکڑے کرکے درمیان میں دیواریں کھینچ دی تھیں۔ ان دیواروں کی تعمیر سے ایک ہی ملک کے عوام ایک دوسرے سے اجنبی ہو گئے۔ ان دیواروں کی وجہ سے دونوں ملکوں کے عوام کو طرح طرح کی مصیبتوں کا سامنا کرنا پڑا لیکن دیواریں اٹھانے والے طبقات کے مفادات پر کوئی اثر نہ پڑا۔

سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ ایک ملک کو دو حصوں میں تقسیم کرنے، ایک ملک کے عوام کو دو حصوں میں تقسیم کرنے کا عوام اور عوامی مفادات اور جنگوں کے روکنے میں کیاکوئی مدد مل سکتی ہے یا یہ تقسیم صرف حکمرانوں کی آپس کی انا اور ضد کی تسکین کا ذریعہ ہے۔ جرمنی کے عوام کو جو نسلوں سے مل جل کر رہتے تھے علیحدہ کردیاگیا۔ انھیں ساتھ رکھ کر ان مسائل کا حل نہیں ڈھونڈا جاسکتا تھا؟ جرمنی کے عوام نے 45-40 سال بعد اپنے ٹوٹے ہوئے ملک کو جوڑ کر ملکوں کو توڑنے والوں کے منہ پر جوتا مار دیا ، اگر ٹرمپ میکسیکو کو دو حصوں میں تقسیم کرتے ہیں تو کیا وہ وقت نہیں آئے گا جب میکسیکو کے عوام ایک ہوجائیں۔

ٹرمپ کی حکمرانی کی تاریخ ضد اور زبردستی کی تاریخ ہے۔ بعض لوگوں کو ضد اور لڑائی ورثے میں ملتی ہے ۔ یہ ایک ایسی خصوصی بیماری ہے جسے اﷲ اپنے خاص بندوں ہی کو دیتا ہے۔ دنیا کی جنگی تاریخ کا بدنام ترین کردار ہٹلر ہے۔ ہٹلر سے آج 70سال بعد بھی دنیا کے عوام کی نفرت میں کمی نہیں آئی نہ جرمن عوام اسے ہیرو مانتے ہیں ۔اس کے برخلاف دنیا کے عوام ہٹلر سے اتنی نفرت کرتے ہیں کہ شاید ہی کسی نے کسی حکمران سے کی ہو۔ وجہ کیا ہے وہ انسانوں سے نسل کی بنیاد پر اتنی شدید نفرت کرتا تھا کہ اس کی مثال نہیں ملتی۔ اس کو اس کا اجر کیا ملادنیا ہی کی نفرت نہیں بلکہ خود جرمن عوام کی بھی نفرت ۔

دنیا میں قوموں اور ملکوں کی سطح پر اختلافات پیدا ہوتے ہیں اور ہوتے رہیں گے اس کا حل صرف جنگ نہیں بلکہ مذاکرات ہیں۔ مذاکرات اس وقت کارگر ہوتے ہیںجس میں مذاکرات کرنے والے اور مذاکرات کرانے والے انسانوں سے محبت کرتے ہوں اگر مذاکرات کرنے والے اور مذاکرات کرانے والے فطرتاً جنگ پسند یا احساس برتری کا شکار ہوں تو مذاکرات کا وہی حشر ہوتا ہے جو کشمیر اور فلسطین کا ہورہا ہے۔ اقوام متحدہ کا ادارہ دوسری جنگ عظیم کے خاتمے کے بعد وجود میں آیا اس کا مقصد دنیا کو جنگوں سے روکنا امن کی حمایت کرنا تھا لیکن یہ ادارہ اس لیے ناکام ہوا کہ اقوام متحدہ میں سیاست کاروں کی اور بڑے ملکوں کے مفادات کا تحفظ کرنے والوں کی بالادستی قائم ہوگئی۔

امن کے لیے قائم کیا جانے والے ادارہ مذاکرات کاروں کا قبرستان بنا ہوا ہے۔ ایک طرف کشمیر ہے دوسری طرف فلسطین ہے اس امن مذاکرات کی نااہلی اور مذاکرات کو اپنی ضد اور انا کا مسئلہ بنانے والوں کی بدمعاشی اور احساس برتری کو نظر انداز کردیاگیا۔ کشمیر میں 70ہزار انسانوں کو قتل کیاگیا۔ فلسطین کا بھی یہی حال ہے اور یہ حال اس وقت تک رہے گا جب تک مذاکرات کرانے والے ٹرمپ کا کردار ادا کرتے رہیں گے۔ حکمران قومی مسائل کو ذاتی مسائل اور مسائل کا حل تلاش کرنے والوں کو اپنا ذاتی ملازم سمجھتے ہیں جس کا نتیجہ کشمیر اور فلسطین جنگوں اور میکسیکو کی ممکنہ تقسیم کی شکل میں نکلتا ہے۔

جرمنی اور کوریا کے مسئلے 50 سال سے زیادہ عرصے تک اس لیے حل طلب رہے اور ہیں کہ بھارت اور اسرائیل میں حکومت کرنے والے ٹرمپ کے حمایتی ہیں، اگر ان مسائل کو حل کرنے کی ذمے داری فیض احمد فیض اور کرشن چند جیسے انسانوں سے محبت کرنے والوں کے ذمے کی جاتی تو یہ مسئلے کبھی کے حل ہوچکے ہوتے لیکن ایسا اس لیے ممکن نہیں کہ دنیا پر ادیبوں، شاعروں اور دانشوروں کی حکومت نہیں ہے جو انسانوں سے پیار کرتے ہیں۔ آج ٹرمپ میکسیکو کی سرحد پر دیوار اٹھانا چاہتا ہے تو اسے دیوار برلن سے سبق حاصل کرنا چاہیے۔ بھارتی اور اسرائیلی حکمران جوکردار ادا کررہے ہیں وہ فرشتوں کا نہیں شیطانوں کا کردار ہے جنھیں ملعون کہا جاتا ہے۔بشکریہ ایکسپریس نیوز

یہ بھی دیکھیں

مریم نواز ہی وزیراعلیٰ پنجاب کیوں بنیں گی؟

(نسیم حیدر) مسلم لیگ ن کی حکومت بنی تو پنجاب کی وزارت اعلیٰ کا تاج …