جمعہ , 19 اپریل 2024

سیاسی اختلافات میں حد سے نہ بڑھنے پائے کوئی

(حیدر جاوید سید)
جناب وزیراعظم نے حزب اختلاف کے مشاورتی اتحاد کو ملک لوٹنے والوں کا اجتماع قرار دیتے ہوئے کہا کہ اپوزیشن این آر او کیلئے دباؤ بڑھا رہی ہے، حکومت احتساب کے عمل کو نہیں روکے گی۔ وزیراعظم نے قومی اسمبلی سے اپوزیشن کے بائیکاٹ پر بھی کڑی تنقید کی۔ ادھر وفاقی وزیراطلاعات فواد چودھری نے سندھ کے وزیراعلیٰ مراد علی شاہ کو نہ ہٹائے جانے پر پیپلز پارٹی میں فارورڈ بلاک بنوانے کی دھمکی دیتے ہوئے کہا ہے کہ پیپلز پارٹی کی سندھ حکومت گیس کا غبارہ ہے جب چاہیں سوئی چبھو دیں گے۔ دوسری طرف اسلام آباد میں پارلیمانی حزب اختلاف میں شامل جماعتوں کے مشاورتی اجلاس کے اعلامیہ میں کہا گیا ہے کہ ملکی معیشت کو شدید خطرات لاحق ہے، میڈیا کو بحران کا سامنا ہے، حکومت کی کوئی پالیسی قابل عمل نہیں، حزب اختلاف متحد ہوکر جدوجہدکرے گی۔ اپوزیشن نے منی بجٹ کی بھرپور مخالفت اور فوجی عدالتوں میں توسیع سمیت دیگر امور پر مشترکہ موقف اپنانے کیلئے کمیٹی قائم کر دی ہے۔ جمہوری سیاسی عمل میں حکومتی پالیسیوں پر تنقید، اپوزیشن کی مختلف الخیال جماعتوں کی باہمی مشاورت یا منتخب ایوانوں سے بائیکاٹ سیاسی حکمت عملی کا حصہ ہوتا ہے۔ پارلیمنٹ سے اپوزیشن کے بائیکاٹ پر پبھتی کسنے سے قبل یاد کر لیا جانا چاہئے تھا کہ پچھلے پانچ سال کے دوران پی ٹی آئی کے ارکان پارلیمنٹ نے مجموعی طور پر کتنے دن اجلاسوں میں شرکت کی اور کتنے دن بائیکاٹ کیا۔ تحریک انصاف کے سربراہ ماضی میں اس وقت کے وزیراعظم کی پارلیمنٹ کے اجلاسوں میں عدم شرکت پر انہیں آڑے ہاتھوں لیتے رہے اور اب جبکہ وہ خود وزارت عظمیٰ کے منصب پر فائز ہیں تو پارلیمنٹ میں آنے سے گریز کرتے ہیں۔ پانچ ماہ قبل اقتدار میںآنے والی تحریک انصاف کی حکومت اپنے انتخابی منشور پر اور عملی وعدوں کو پورا کرنے کیلئے اب تک کیا کر پائی اس حوالے سے اگر کہیں کوئی سوال پوچھا جائے تو پارٹی اور حکومت کے رہنما ہتھے سے اکھڑ جاتے ہیں۔ یہ بجا ہے کہ محض پانچ ماہ کے دورانیہ کی بنیاد پر حتمی کامیابی کا دعویٰ ہو سکتا ہے ناکامل ناکامی کا الزام درست ہوگا۔ حکومت قائم ہوتے ہی چھومنتر سے مسائل حل ہوتے ہیں نا بحران ختم۔ بدقسمتی یہ ہے کہ سیاسی ناتجربہ کاری اور امور مملکت چلانے سے عدم آگاہی کی وجہ سے پی ٹی آئی کے قائدین پچھلے سات آٹھ برسوں کے دوران یہ دعویٰ کرتے رہے کہ اگر ان کی جماعت کو اقتدار مل جائے تو وہ محض چند دنوں میں اصلاح احوال کا مشن مکمل کر لیں گے۔ یہی دعوے اور وعدے اب اس کے گلے پڑ رہے ہیں۔ جہاں تک حزب اختلاف کے مشاورتی اجلاس پر وزیراعظم کے تبصرے کا تعلق ہے تو انہیں یاد دلایا جاسکتا ہے کہ ایم کیو ایم جو آج امن قائم کردہ حکومتی اتحاد کا حصہ ہے کل تک وہ اسے ہزاروں انسانوں کا قاتل، بھارت نواز دہشتگرد تنظیم قرار دیتے تھے۔ ماضی میں بننے والے ایک سیاسی اتحاد اے پی ڈی ایم میں ایم کیو ایم کے حوالے سے ایک غیرسیاسی فہم پر مبنی قرارداد کے محرک بھی وہ خود تھے۔ سیاسی عمل میں دوستیاں اور دشمنیاں نہیں ہوتیں نہ مستقل بنیادوں پر نفرت بھری سیاست کی گنجائش ہوتی ہے۔ وقت کیساتھ بدلتی ترجیحات سیاسی جماعتوں کو تعاون کی راہ پر لاتیں اور مخالف اتحاد میں شامل کرواتی ہیں۔ اندریں حالات اگر یہ مان لیا جائے کہ نون لیگ اور پیپلز پارٹی کی قربتیں چوری کا مال ہڑپ کرنے کے ہتھکنڈوں کا حصہ ہیں تو تحریک انصاف اور ایم کیو ایم کے اتحاد کو فطری کیسے قرار دیا جائے گا؟۔

حزب اختلاف کی سیاسی حکمت عملی پر بھڑکنے کی بجائے حکومت کو اپنی ذمہ داریوں کی طرف توجہ دینا ہوگی۔ کیا وزیراعظم اس امر سے لاعلم ہیں کہ ان کے معاشی ہیرو جو اس وقت وزیر خزانہ ہیں کی معاشی پالیسیوں نے معیشت کا بھرکس نکال دیا ہے۔ بیوروکریسی کا وزراء سے عدم تعاون اور معمول کے فرائض کیلئے تحریری احکامات کا تقاضا کیوں ہے۔ غربت اور مہنگائی کی بدترین لہر پر قابو پانے میں ناکامی کی وجہ کیا یہی ہے یا یہ کہ وفاقی حکومت نے کیسے ادویہ ساز کمپنیوں کو 9سے15فیصد تک قیمتوں میں اضافے کی اجازت مرحمت فرما دی؟ سندھ حکومت کو گیس کا غبارہ قرار دیتے ہوئے کسی نے یہ سوچنے کی زحمت کی ہے کہ وفاق میں پی ٹی آئی کی حکومت اتحادیوں کے ووٹوں پر قائم ہے اور حکومت کی ایک اتحادی جماعت بی این پی مینگل اگلے روز اپوزیشن کے مشاورتی اجلاس میں کیوں شریک ہوئی؟۔ امر واقعہ یہ ہے کہمسائل سنیگن تر ہوتے جارہے ہیں۔ محض چور چور کا شور مچانے اور مخالفوں کی حکومت گرانے کے نعروں سے کام نہیں چلنا، ضرورت اس امر کی ہے کہ وفاقی حکومت ٹھنڈے دل سے اس امر پر غور کرے کہ وہ اس مشکل صورتحال سے کیسے نکل سکتی ہے اور وہ کیا اقدامات ہو سکتے ہیں جو حکومت کی ساکھ میں بہتری لائیں۔

تحریک انصاف اب اپوزیشن اتحاد کا حصہ نہیں بلکہ وفاق اور تین صوبوں میں اپنے اتحادیوں کیساتھ حکومت میں ہے حکمران اتحادی بڑی جماعت کے طور پر اس کے فرائض یکسر مختلف ہیں۔ عوام اس کی طرف جن امید بھری نگاہوں سے دیکھ رہے تھے ان آنکھوں میں مایوسی اُترتی دکھائی دے رہی ہے۔ حزب اختلاف کا کام ہی یہی ہے کہ وہ حکومت کی ناکام پالیسیوں سے پیدا ہونے والے مسائل کو اپنی سیاست کا رزق بنائے مگر حکومت کا فرض یہ ہے کہ وہ ناکامیوں کو کامیابی میں بدلنے کی حکمت عملی وضع کرے ناکہ حزب اختلاف کا سا رویہ اپنالے۔

مناسب ترین بات یہ ہوگی کہ حکومت اپنی کارکردگی بہتر بنانے پر توجہ دے ان گمبھیر ہوتے مسائل کا حل تلاش کرے جن کی وجہ سے عام آدمی بدترین حالات سے دوچار ہے۔

یہ بھی دیکھیں

مریم نواز ہی وزیراعلیٰ پنجاب کیوں بنیں گی؟

(نسیم حیدر) مسلم لیگ ن کی حکومت بنی تو پنجاب کی وزارت اعلیٰ کا تاج …