ہفتہ , 20 اپریل 2024

شام میں مغربی عربی محاذ کو عبرتناک شکست

(سید رحیم نعمتی)

فرانس کے وزیر خارجہ جان ایف لودریان نے اپنے اردنی ہم منصب ایمن الصفدی کے ہمراہ مشترکہ پریس کانفرنس سے خطاب کرتے ہوئے کہا ہے: "قیام امن کے عمل کی شرائط شفاف طور پر منعقد ہونے والے انتخابات پر بھی لاگو ہوں گی۔ اب اگر بشار اسد اس الیکشن میں امیدوار کے طور پر سامنے آتے ہیں تو کوئی بات نہیں، وہ بھی دیگر امیدواروں کی طرح ہیں اور یہ شام کی عوام ہے جو اپنے مستقبل کا فیصلہ خود کریں گے۔” فرانس کے وزیر خارجہ نے کہا کہ "پلان یہ ہے” لیکن انہوں نے اس بات کی وضاحت پیش نہیں کی کہ ابھی چند ماہ قبل تو وہ اور ان کے مغربی اور عرب اتحادی نہ صرف اس پلان کو قبول کرنے پر تیار نہیں تھے بلکہ دہشت گرد گروہوں کی مدد سے صدر بشار اسد کی حکومت گرانے کے منصوبے پر کاربند تھے۔ یاد رہے یہی جان ایف لودریان تھے جنہوں نے اس سال موسم گرما میں اعلان کیا تھا کہ "بشار اسد شام میں قیام امن منصوبے کا حصہ نہیں بن سکتے۔” اب ان کی جانب سے شام کے صدارتی الیکشن میں بشار اسد کی شمولیت کو قبول کیا جانا گذشتہ موقف سے واضح یو ٹرن کے علاوہ اور کچھ نہیں ہو سکتا۔ یہ یو ٹرن دیگر مغربی اور عرب حکمرانوں میں بھی دیکھا گیا ہے جیسا کہ دو ہفتے پہلے برطانیہ کے وزیر خارجہ جیریمی ہنٹ نے بھی اس حقیقت کا اعتراف کیا کہ وہ اور ان کے اتحادی ممالک صدر بشار اسد کو سیاست سے باہر نکالنے میں کامیاب نہیں ہو سکے۔مغربی حکام کے اس یو ٹرن کے ساتھ ہی امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ کی جانب سے شام سے فوجی انخلا کا اعلان قابل توجہ ہے۔ درحقیقت شام کے دشمن ممالک نے اپنے حمایت یافتہ دہشت گرد گروہوں کی شکست اور صدر بشار اسد کی حکومت ختم ہونے سے مایوسی کے بعد شام کے بعض کرد گروہوں کی مدد سے اس ملک کو توڑنے کی سازش تیار کر رکھی تھی۔ اس مقصد کیلئے فرانس اور برطانیہ کی اسپشل فورس اور انٹیلی افسرز بھی شام کے شمالی حصوں میں بھیج دیے گئے تھے۔ لیکن یہ سازش بھی امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ کی جانب سے شام سے فوجی انخلاء کے نتیجے میں ناکامی کا شکار ہو چکی ہے۔ دوسری طرف شام کے کرد گروہ اور جماعتیں امریکہ کی جانب سے بے وفائی اور غداری کا احساس کر رہی ہیں جس کے نتیجے میں ان کا جھکاو مرکزی حکومت کی جانب بڑھ رہا ہے اور وہ ترکی کے ممکنہ فوجی آپریشن سے بچنے کیلئے شام آرمی کی حمایت حاصل کرنے کی کوشش میں مصروف ہیں جبکہ شام حکومت اور آرمی بھی ان کی مدد کرنے کیلئے تیار نظر آتی ہے۔ زمینی حقائق میں ان تبدیلیوں کا نتیجہ ملک کی سرزمین کے اکثر حصوں پر شام آرمی کے کنٹرول اور شام حکومت کی رٹ قائم کرنے کی صورت میں ظاہر ہو رہا ہے۔ ایسے حالات میں برطانیہ اور فرانس جیسے ممالک بھی یو ٹرن لینے پر مجبور ہو چکے ہیں جبکہ سعودی عرب، متحدہ عرب امارات اور بحرین جیسے ممالک تو دمشق واپس جانے کی تیاریاں بھی کرنے لگے ہیں۔

شام مخالف مغربی اور عرب ممالک کے اس یو ٹرن کی ایک اور وجہ بھی ہے اور وہ شام کی تعمیر نو کا مسئلہ ہے۔ اس مسئلے میں عالمی برداری کا کردار اہم ہے۔ واضح ہے کہ شام مخالف محاذ میں شامل ممالک کی شام کی طرف واپسی اور تعمیر نو میں شرکت گذشتہ آٹھ برس کے دوران ان کے اقدامات سے مبرا نہیں ہو سکتی اور ان کی جانب سے شام کی تعمیر نو میں شرکت کیلئے شرائط پیش کرنا تو دور کی بات ہے۔ ایران کیلئے امریکہ کے خصوصی نمائندے برائن ہاک نے سی این بی سی نیوز چینل کو انٹرویو دیتے ہوئے کہا ہے کہ امریکہ شام کی تعمیر نو میں اس شرط پر شرکت کرے گا کہ اس ملک سے ایران کی فوجی موجودگی ختم کر دی جائے۔ انہوں نے کہا کہ شاید بعض عرب ممالک بھی شام میں واپس آنے کیلئے اس قسم کی شرائط پیش کریں۔ ہو سکتا ہے کہ امریکہ اور ان عرب ممالک نے ان ڈالرز سے امید وابستہ کر رکھی ہے جس کے بارے میں وہ یہ دعوی کرتے ہیں کہ شام میں تعمیر نو کی مد میں خرچ کریں گے لیکن اس میں کوئی شک نہیں کہ شام حکومت کیلئے ملک کی تعمیر نو کے دوران بھی سکیورٹی کا مسئلہ اسی قدر اہمیت کا حامل ہو گا جتنا اب ہے لہذا شام ایسے ممالک کو تعمیر نو کیلئے ترجیح دے گا جنہوں نے اس ملک میں قیام امن اور سکیورٹی صورتحال بہتر بنانے میں اہم کردار ادا کیا ہے۔

شام کی پارلیمنٹ کی قومی سلامتی کی کمیٹی کے سربراہ میجر جنرل فیصل الخوری نے جن خیالات کا اظہار کیا ہے اس سے یہی حکمت عملی ظاہر ہوتی ہے۔ انہوں نے ایران کے ایک پارلیمانی وفد سے بات چیت کرتے ہوئے کہا: "ایسے ممالک جنہوں نے شام کی خانہ جنگی میں منفی کردار ادا کیا ہے انہیں ملک کی تعمیر نو میں شامل نہیں کیا جائے گا۔” دوسری طرف اقتصادی ترقی اور تعلقات عامہ کیلئے شام کے وزیر اقتصاد کے سیکرٹری رانیا خضر نے بھی فیصل الخوری کے موقف کی تصدیق کرتے ہوئے شام کی تعمیر نو میں ایران سے اسٹریٹجک تعاون پر زور دیا ہے۔ انہوں نے ایران اور شام کے درمیان ایک طویل المیعاد اسٹریٹجک معاہدے کی خبر دیتے ہوئے اسے "معاہدوں کی ماں” قرار دیا۔ واضح ہے کہ برائن ہاک نے مذکورہ بالا شرط پیش کر کے یا تو اناڑی پن کا مظاہرہ کیا ہے یا اپنے سربراہان مملکت کی طرح ایران کے خلاف ڈینگ ماری ہے۔ اصل ماجرا یہ ہے کہ وہ ممالک جو کل تک شام سے دشمنی کا مظاہر کرتے رہے ہیں آج تعمیر نو میں شرکت کے بہانے ایران اور شام کے تعلقات پر اثرانداز ہونے کی کوشش کر رہے ہیں۔ جان ایف لودریان اور جیریمی ہنٹ کے بیانات اور دمشق سے مغربی ممالک کے سفارتی تعلقات کی بحالی اسی تناظر میں دیکھنے کی ضرورت ہے۔ البتہ اس میں کوئی شک نہیں کہ گذشتہ آٹھ سال کی طرح اس بار بھی انہیں ناکامی کا منہ دیکھنا پڑے گا۔

یہ بھی دیکھیں

مریم نواز ہی وزیراعلیٰ پنجاب کیوں بنیں گی؟

(نسیم حیدر) مسلم لیگ ن کی حکومت بنی تو پنجاب کی وزارت اعلیٰ کا تاج …