جمعہ , 19 اپریل 2024

اسرائیل سے عربوں کی قربتیں

(صابر ابو مریم)

عرب دنیا کے حکمرانوں اور اسرائیل کی قرابت میں آئے روز ہونے والا اضافہ جہاں ایک طرف فلسطینیوں کی بے مثال جدوجہد کو سبوتاژ کر رہا ہے وہاں ساتھ ساتھ اسرائیل کے لئے خطے میں کھلم کھلا بدمعاشی اور دہشت گردی کے راستے بھی کھول رہا ہے اور یہ دہشت گردی بالآخر خطے میں موجود اسرائیل کے قرابت دار عرب حکمرانوں کو بھی اپنی آگ میں لپیٹ لے گی۔لیکن افسوس کی بات یہ ہے کہ عرب دنیا کے حکمران اور بادشاہ اپنے انجام اور عاقبت سے بے خبر امریکہ و صہیونی کاسہ لیسی میں غرق ہو چکے ہیں۔

سابق اسرائیلی سفارتکار دورے گولڈ کاکہنا ہے کہ اسرائیل عرب تعلقات کے بڑھتے ہوئے رحجان سے اسرائیل کی مشکلات میں کمی ہونے کا امکان پیدا ہو چکا ہے۔انہوں نے عرب دنیا اور اسرائیل کے مابین ملاقاتوں اور تعلقات کے راز کو افشا کرتے ہوئے بتایا ہے کہ یہ ملاقاتیں کوئی نئی بات نہیں ہے بلکہ کئی برسوں کا تسلسل ہے اور اس طرح کی ملاقاتیں اسرائیل کے لئے کامیابی کی کنجی ہے۔اس تجزیہ نگار کے مطابق صورتحال یہ ہے کہ عرب دنیا کے حکمران اور اسرائیل کے حکمران اب ایک دوسرے کو بہت اچھی طرح جانتے ہیں لیکن ماضی میں کوئی بھی قدم اٹھانے میں ہچکچاہٹ محسوس ہو رہی تھی تاہم اب صورتحال تبدیل ہو رہی ہے۔

سابق اسرائیلی سفارتکار کے تجزیہ کے مطابق عرب خلیجی حکمرانوں کی اسرائیل کے قریب آنے کی ایک وجہ اسرائیل اور ان عرب ممالک کا ایران مخالف ہونا ہے۔یہ بات بھی روز روشن کی طرح عیاں ہے کہ ایران پر قابو رکھنے کے لیے ٹرمپ انتظامیہ بھی خلیج میں امریکی اتحادیوں اور اسرائیل کے درمیان قریبی تعلقات کی زبردست حامی ہے۔

خلاصہ یہ ہے کہ اس تمام تر صورتحال میں فلسطین اور اس کے عوام شدید خطرات سے لاحق ہو رہے ہیں، القدس خطرے میں ہے۔خلیجی ریاستوں اور اسرائیل کے درمیان بڑھتے ہوئے رابطوں، نئے اتحادوں اور صدر ٹرمپ کے اس وعدے کے بعد کہ وہ اسرائیل عرب تنازعے کو ختم کرنے کے لیے اس ’صدی کا سب سے بڑا معاہدہ‘ کرانے کا منصوبہ رکھتے ہیں، فلسطینیوں کی فکرمندی میں بہت اضافہ ہو گیا ہے۔فلسطینیوں کو خطرہ ہے کہ ٹرمپ انتظامیہ ان پر دباؤ بڑھانے کے لیے سعوی عرب، متحدہ عرب امارات اور دیگر علاقائی ریاستوں کی جانب دیکھ رہی اور یہ امریکی انتظامیہ فلسطینیوں کو ایک ایسے امن معاہدے پر مجبوراً رضامند کرانے کی کوشش کر رہی ہے جس سے ان کے دیرینہ مطالبات پورے نہیں ہوتے۔

فی الحال صرف مصر اور اردن ہی وہ عرب ممالک ہیں جو اسرائیل کو تسلیم کرتے ہیں۔اسرائیل اور فلسطین کے درمیان امن قائم کرنے کا عمل بہت پہلے رک چکا ہے لیکن گزشتہ سال اسے ایک اور دھچکا لگا۔وہ فلسطینی عوام جو مقبوضہ بیت المقدس کو اپنی ریاست کا دارالحکومت بنانے چاہتے ہیں انھوں نے صدر ٹرمپ کی طرف سے اسے اسرائیل کے دارالحکومت کے طور پر تسلیم کرنے کے اقدام کو مسترد کر دیاہے۔انہوں نے یہ کہہ کر واشنگٹن سے اپنے تعلقات ختم کر لیے کہ یہ قدم تصفیہ کرانے والے کسی منصف کا نہیں ہو سکتا۔لیکن اس کے باوجود مشرق وسطی کے لیے امریکہ کے ایلچی جیسن گرین بلاٹ اپنی سفارتی کوششیں جاری رکھے ہوئے ہیں اور اسرائیلی وزیر اعظم کے عمان کے دورے کے حوالے سے پرجوش بھی ہیں۔اپنی ایک ٹوئٹ میں ان کا کہنا تھا کہ ’یہ قدم ہماری امن کی کوششوں کے لیے نہ صرف مدد گار ہے بلکہ اسرائیل، فلسطین اور ان کے پڑوسیوں کے درمیان استحکام اور خوشحالی کی فضا قائم کرنے کے لیے ضروری بھی ہے۔دوسری طرف عرب دنیا کے تجزیہ کاروں کا خیال ہے کہ امن مذاکرات کی بحالی میں سعودی عرب کو جو کردار دیا گیا تھا وہ سعودی صحافی جمال خاشقجی کے قتل کے بعد شکوک کا شکار ہو گیا ہے۔اس بیان میں بنیامن نتن یاہو کا کہنا تھا کہ اگرچہ خاشقجی کی ہلاکت ایک ’ہولناک” خبر تھی لیکن اس سے سعودی عرب کے اندر عدم استحکام پیدا نہیں ہونا چاہیے کیونکہ اصل اور بڑا مسئلہ ایران ہے۔بحرین نے اسرائیل کی جانب سے اس ’واضح موقف‘ کو اسی طرح سراہا ہے جیسا اس نے گذشتہ دنوں عمان کو اسرائیلی وزیر اعظم کی آمد پر سراہا تھا۔

اس بات کا امکان کم ہی ہے کہ عرب ممالک جلد ہی اسرائیل کو پوری طرح گلے لگا لیں گے، اس لیے فی الحال ہمیں دونوں فریقوں کے درمیان ایسے دعوت ناموں اور پرجوش انداز میں ہاتھ ملانے کے مناظر کو ہی کافی سمجھنا پڑے گا جن کے بارے میں ہم کل تک سوچ بھی نہیں سکتے تھے۔

اس تمام تر صورتحال پر اثر اب پاکستان پر بھی پڑنا شروع ہو چکا ہے کہ جو ماضی میں پاکستانی حکمرانوں کی اسرائیلی عہدیداروں کے ساتھ دنیا کے مختلف ممالک میں خفیہ ملاقاتوں کی صورت میں سامنے آیا تھا تاہم دور حاضر میں تل ابیب سے پرواز کر کے آنے والا طیارہ کی اسلام آباد میں لینڈنگ ہو اور دس گھنٹے قیام ہو یا پھر سابق جنرل کا اسرائیل حمایت میں لیکچر یا پھر حکومتی جماعت کی رکن قومی اسمبلی کی طرف صہیونیوں کی حمایت اورا سرائیل کے لئے راہ ہموار کرنے جیسے بیانات اور تقریریں ہوں سب کے سب ریکارڈ پر موجود ہیں اور ایک نئے خطرے کی گھنٹی بجا رہے ہیں۔

ایسے حالات میں خبریں یہ بھی آ رہی ہیں کہ اب پاکستان نے جن ممالک کیلئے ویزا پالیسی کا اعلان کیا ہے اس میں اسرائیلی پاسپورٹ رکھنے والوں کو بھی پاکستانی ویزا دیا جائے گا ۔یہ انتہائی خطرے کی بات ہے اور پاکستان کے آئین اور نظریاتی بنیادوں سمیت بانیان پاکستان کی اساس سے انحراف کے مترادف ہے۔چونکہ پاکستان کی سیاست اور آنے والی حکومتوں کے حکمران عام طور پر امریکہ کے بعد سعودی عرب اور امارات کو اپنا سب سے بڑا پیشوا اور مسیحا مانتے ہیں تاہم اس مریدی میں یقیناًپاکستان پر انہی عرب ممالک کی طرف سے یہ دباؤ بھی ضرور ہو گا کہ اسرائیل کے بارے میں پاکستان کی پالیسی کو نرم کیا جائے۔

یہ بھی دیکھیں

مریم نواز ہی وزیراعلیٰ پنجاب کیوں بنیں گی؟

(نسیم حیدر) مسلم لیگ ن کی حکومت بنی تو پنجاب کی وزارت اعلیٰ کا تاج …