جمعہ , 19 اپریل 2024

اسرائیلی حکومت کے بڑھتے ہوئے نسل پرستانہ رجحانات

(تحریر: رامین حسین آبادیان)

اسرائیلی پارلیمنٹ کینسٹ میں کچھ عرصہ قبل ایک نسل پرستانہ قانونی بل منظور کیا گیا ہے جو "یہودی ریاست” کے نام سے مشہور ہے۔ اگرچہ یہ بل شروع سے ہی تنازعات کا شکار رہا ہے لیکن اب اس کے بارے میں دوبارہ بحث شروع ہو گئی ہے۔ اس قانون پر اعتراضات کا سلسلہ اس قدر بڑھ گیا ہے کہ سننے میں آ رہا ہے اسرائیلی حکومت اس پر نظرثانی کا ارادہ رکھتی ہے۔ دوسری طرف اسرائیل کی غاصب صہیونی رژیم کے ایک وفاقی وزیر نے اس امکان کے بارے میں اپنے موقف کا اظہار کیا ہے۔ اسرائیل کے وزیر انصاف ایلیت شاکید نے "یہودی ریاست” نامی قانون کی بھرپور حمایت کرتے ہوئے کہا ہے کہ یہ قانون کسی صورت میں تبدیل نہیں ہو گا۔ انہوں نے اپنے گھر کے سامنے اس نسل پرستانہ قانون کے خلاف احتجاج کیلئے جمع ہونے والے افراد سے تقریر کرتے ہوئے کہا کہ یہ قانون ہر گز تبدیل نہیں کیا جائے گا۔ اس نسل پرستانہ قانون کی جڑیں بہت پرانی ہیں۔ اگر ہم اسرائیل کی جعلی ریاست کی تشکیل کا تاریخی جائزہ لیں تو مشاہدہ کریں گے کہ اس کی تشکیل کی بنیاد ہی ایک بڑے جھوٹ پر استوار ہے جو "فلسطین کو یہودیانے” کی کوشش ہے۔

تھئوڈور ہرٹسل اسرائیل کا بانی ہے۔ اس شخص نے ابتدا سے ہی ایک خودمختار عرب سرزمین کو یہودیانے کا نظریہ پیش کیا جس کی بنیاد پر فلسطینیوں کی سرزمین کا انتخاب کیا گیا۔ یہ سرزمین صہیونی رجحانات رکھنے والے یہودیوں کیلئے چنی گئی تھی۔ اسی وجہ سے تھئوڈور ہرٹسل کو "صہیونزم کا باپ” کہا جاتا ہے۔ تھئوڈور ہرٹسل نے "یہودی ریاست” نامی کتاب لکھنے کے بعد اپنے ہدف کے حصول کیلئے صہیونیت کی سیاسی تحریک کی بنیاد رکھی۔ البتہ اس نے صہیونزم کی بنیاد تورات یا یہودیوں کی مذہبی تعلیمات پر نہیں بلکہ سیکولرازم پر رکھی۔ یہی وجہ ہے کہ آج دنیا میں بڑی تعداد میں ایسے یہودی پائے جاتے ہیں جو صہیونزم کے شدید مخالف ہیں۔ ہرٹسل نے صہیونزم نامی اپنے منصوبے کو عملی جامہ پہنانے کیلئے دنیا بھر کے ممالک کے سفارتکاروں سے تعلقات استوار کئے اور ایک خودمختار یہودی ریاست کے قیام کیلئے عالمی طاقتوں خاص طور پر برطانیہ کی حمایت حاصل کرنے کی کوشش کی۔ لہذا مقبوضہ فلسطین کی سرزمین کو ایک یہودی ریاست کا مقام دینے پر مبنی نظریہ کوئی نیا نظریہ نہیں بلکہ اس کی جڑیں صہیونزم کی تاریخ کے آغاز سے جا ملتی ہیں۔

"یہودی ریاست” نامی نسل پرستانہ قانون میں پوری فلسطینی سرزمین کو صہیونیوں سے مخصوص کر دیا گیا ہے اور فلسطین کے نام سے علیحدہ ریاست کے قیام کی گنجائش ہی ختم کر دی گئی ہے۔ اس قانون کے تحت صرف صہیونی سوچ کے حامل یہودی شہری حقوق سے برخوردار ہوں گے جبکہ فلسطینی مکمل طور پر شہری حقوق سے محروم ہو جائیں گے۔ اس قانون کی رو سے عبری زبان کو سرکاری زبان کا درجہ دیا جائے گا اور عربی زبان کی کوئی حیثیت نہیں رہے گی۔ اسی طرح اس نسل پرستانہ قانون میں یہودی بستیوں کی تعمیر کو ایک قومی سرمایہ قرار دیتے ہوئے اس کے پھیلاو پر تاکید کی گئی ہے۔ اسرائیل کی غاصب صہیونی رژیم گذشتہ تین عشروں سے اس قانون کی منظوری کی کوشش کر رہی تھی لیکن مختلف وجوہات کی بنا پر اسے ملتوی کر دیا جاتا تھا۔ اس قانون کی منظوری میں ایک بڑی رکاوٹ یہ تھی کہ یہ قانون اقوام متحدہ کے چارٹر سے تضاد کا حامل ہے۔ یہ نسل پرستانہ قانون اسرائیل میں عرب مسلمانوں کی رہائش ناممکن بنا دیتا ہے جبکہ اقوام متحدہ کے چارٹر کی رو سے ہر سرزمین کا باسی مذہب اور عقیدے سے بالاتر ہو کر اپنے وطن زندگی بسر کرنے کا حق رکھتا ہے۔

اسرائیلی رژیم کی جانب سے اس نسل پرستانہ قانون کی منظوری کا اہم ترین مقصد اپنی جعلی ریاست کو قانونی جواز فراہم کرنا ہے۔ اسرائیلی حکام 1948ء میں صہیونی ریاست کی تشکیل سے لے کر آج تک ان ستر برس میں اپنا وجود دنیا والوں کیلئے قابل قبول بنانے میں ناکام رہے ہیں جس کی بڑی وجہ یہ ہے کہ انہیں قانونی جواز فراہم نہیں۔ امریکہ اور اس کے مغربی اور عرب اتحادی بھی تمام تر کوششوں کے باوجود اسرائیل کو عالمی سطح پر ایک قانونی رژیم ثابت کرنے میں ناکام رہے ہیں۔ اب تک غاصب صہیونی رژیم نے قانونی جواز حاصل کرنے کیلئے جو بھی اقدامات انجام دیے ہیں ان کے الٹے نتائج ظاہر ہوئے ہیں۔ آج حتی یورپی اور دیگر اقوام بھی صہیونی حکام سے شدید نفرت کرنے لگی ہیں۔ غاصب صہیونیوں کو درپیش ایک اور اہم مسئلہ آبادی کا ہے۔ مقبوضہ فلسطین میں مسلمان عرب شہریوں کی آبادی میں تیزی سے اضافہ ہو رہا ہے جبکہ یہودیوں کی آبادی میں اضافے کی شرح بہت کم ہے۔ یہ ایک ایسا ایشو ہے جس نے تل ابیب کی نیندیں حرام کر ڈالی ہیں۔ اس وقت مقبوضہ فلسطین میں یہودیوں کی آبادی زیادہ سے زیادہ 40 لاکھ ہے جبکہ غزہ کی پٹی، مغربی کنارے اور بیت المقدس میں رہنے والے عرب مسلمانوں کی آبادی 75 لاکھ کے قریب ہے۔

یہ بھی دیکھیں

مریم نواز ہی وزیراعلیٰ پنجاب کیوں بنیں گی؟

(نسیم حیدر) مسلم لیگ ن کی حکومت بنی تو پنجاب کی وزارت اعلیٰ کا تاج …