جمعہ , 19 اپریل 2024

شام کے خلاف اسرائیل کی حالیہ مہم جوئی کی وجوہات

(تحریر: محمد مرادی)

اسرائیل نے ایک بار پھر شام کو ہوائی حملوں کا نشانہ بنایا ہے۔ اسی ہفتے اتوار کے دن اسرائیل آرمی نے دمشق پر چند میزائل داغے جنہیں شام کے میزائل ڈیفنس سسٹم نے ہوا میں ہی تباہ کر دیا۔ اس سے اگلے دن سوموار 21 جنوری کو دوبارہ اسرائیلی جنگی طیاروں نے دمشق میں کئی مقامات کو میزائل حملوں کا نشانہ بنایا۔ روس کی وزارت دفاع کے مطابق شام کے ایئر ڈیفنس سسٹم نے اس بار بھی اسرائیلی جنگی طیاروں کے فائر کردہ 30 میزائل مطلوبہ اہداف تک پہنچنے سے پہلے ہی ہوا میں تباہ کر دیے۔

موصولہ رپورٹس کے مطابق یہ حملہ تین مختلف اطراف سے انجام دیا گیا تھا۔ اس بار اسرائیلی حکومت نے پہلی بار کھل کر ان حملوں کی ذمہ داری قبول کی ہے اور دعوی کیا ہے کہ جن اہداف کو نشانہ بنایا گیا وہ ایران کے فوجی مراکز تھے۔ سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ موجودہ حالات میں اسرائیل کی جانب سے شام پر ہوائی حملوں کی شدت میں اضافہ کیوں ہوا ہے؟ اس سوال کا جواب پانے اور شام پر اسرائیل کی موجودہ جارحیت کی وجوہات جاننے کیلئے تین سطوح یعنی اسرائیل کی اندرونی، علاقائی اور بین الاقوامی صورتحال کا جائزہ لینا ضروری ہے۔

1۔ اندرونی سطح
ملک کے اندر اسرائیلی وزیراعظم بنجمن نیتن یاہو کو بہت سی مشکلات کا سامنا ہے۔ کابینہ میں انتشار، پارلیمنٹ کا ٹوٹنا اور مقررہ وقت سے پہلے الیکشن کا انعقاد انہیں درپیش چند اہم ترین چیلنجز ہیں۔ غزہ میں حماس کے خلاف اسرائیل کی دو روزہ جنگ میں ذلت آمیز شکست کے بعد وزیر جنگ اویگڈور لیبرمین نے استعفی دے دیا تھا جس کے بعد اسرائیلی کابینہ ٹوٹ پھوٹ کا شکار ہو گئی۔ اس وقت بنجمن نیتن یاہو کو مارچ میں منعقد ہونے والے الیکشن میں جیتنے کیلئے شدید مشکلات کا سامنا ہے۔

اسرائیل کے پولیس ڈیپارٹمنٹ نے 2 دسمبر 2018ء کو ایک اعلامیہ جاری کیا تھا جس میں کہا گیا تھا کہ بنجمن نیتن یاہو اور ان کی زوجہ کے خلاف ایسے ٹھوس شواہد موجود ہیں جن سے ظاہر ہوتا ہے کہ وہ معروف کرپشن کیس “4000” میں ملوث ہیں۔ یہ مسئلہ الیکشن میں ان کی صورتحال پر بہت بری طرح اثرانداز ہو سکتا ہے۔ درحقیقت بنجمن نیتن یاہو آئندہ الیکشن میں جیتنے کیلئے علاقائی سطح پر اپنی کامیابیوں کو بڑھانے کی کوشش میں مصروف ہیں۔ حال میں افریقی اسلامی ملک چاڈ کا دورہ بھی اسی سلسلے کی ایک کڑی ہے۔ اسی طرح نیتن یاہو شام میں ایران کے فوجی ٹھکانوں پر حملوں کے ذریعے اسرائیل کے شدت پسند حلقوں کی حمایت حاصل کرنے کی کوشش میں مصروف ہیں۔

2۔ علاقائی سطح
علاقائی سطح پر بھی امریکہ کی جانب سے شام سے فوجی انخلا کا اعلان درحقیقت اسرائیل کیلئے ایک سکیورٹی خلا تصور کیا جا رہا ہے۔ اسرائیلی ذرائع ابلاغ بارہا اس نکتے پر زور دے چکے ہیں کہ اسرائیل کیلئے سب سے بڑا اسٹریٹجک خوف ایرانی فوج کا مقبوضہ فلسطین کی سرحدوں تک پہنچنا ہے۔ اگرچہ ایران کئی بار اس مسئلے کی تکذیب کر چکا ہے لیکن یہ خوف اسرائیل کیلئے اس قدر شدید ہے کہ وہ ایرانی فوجی ٹھکانوں کو نشانہ بنانے کے بہانے بارہا دمشق پر میزائل حملے انجام دے چکا ہے۔ امریکہ میں اسرائیل کے حامی تھنک ٹینکس بھی اسی سوچ کی ترویج میں مصروف ہیں کہ شام سے امریکہ کا فوجی انخلا ایک قسم کا سیکورٹی خلا ہو گا جو ایران کیلئے دمشق میں اپنی پوزیشن مضبوط کرنے کیلئے بہترین تحفہ ثابت ہو گا۔ درحقیقت اسرائیل ان حملوں کے ذریعے اس سکیورٹی خلا کو پر کرنے کیلئے کوشاں ہے۔ یہی وجہ ہے کہ اسرائیل پہلی بار سرکاری طور پر شام پر ہوائی حملوں کی ذمہ داری قبول کر رہا ہے۔

3۔ بین الاقوامی سطح
اسرائیل کی جانب سے شام پر ہوائی حملوں کی سرکاری سطح پر ذمہ داری قبول کئے جانے کی اہم ترین وجہ عالمی سطح پر موجود صورتحال کی جانب پلٹتی ہے۔ امریکی وزیر خارجہ مائیک پمپئو نے حال ہی میں خطے کا دورہ کیا ہے جس میں انہوں نے خطے سے متعلق امریکی ڈاکٹرائن بیان کی ہے۔ اس ڈاکٹرائن کا مرکزی نکتہ ایران مخالف اقدامات پر مشتمل ہے۔ اسی سلسلے میں پولینڈ کے دارالحکومت وارسا میں 13 اور 14 فروری کو ایک ایران مخالف اجلاس منعقد ہو رہا ہے۔ درحقیقت وائٹ ہاوس کی نئی پالیسی ایران سے شدید ٹکراؤ پر مبنی ہے۔ اس پالیسی کے اجرا ءکیلئے تین شعبوں سیاسی، مالی اور فوجی میں مختلف کھلاڑی امریکہ سے تعاون کر رہے ہیں۔

یورپ خاص طور پر مشرقی یورپ کے ممالک اس ڈاکٹرائن کے سیاسی شعبے میں امریکہ سے تعاون کریں گے۔ اسی وجہ سے ایران مخالف اجلاس کیلئے پولینڈ کا انتخاب کیا گیا ہے۔ مالی سطح پر عرب ممالک امریکہ سے اسلحہ خرید کر اور مختلف مالی معاہدے انجام دے کر اس ڈاکٹرائن میں حصہ لیں گے۔ البتہ امریکہ کی کوشش ہے کہ عربی نیٹو تشکیل دے کر مالی تعاون کے ساتھ ساتھ عرب ممالک کو فوجی کردار ادا کرنے پر بھی مجبور کر سکے۔ اس امریکی ڈاکٹرائن میں فوجی شعبے میں بنیادی کردار اسرائیل کو دیا گیا ہے۔ حالیہ چند دنوں میں اسرائیل کی جانب سے شام پر ہوائی حملوں میں شدت اور سرکاری طور پر ان کی ذمہ داری قبول کئے جانے کی بڑی وجہ بھی یہی ہے۔

یہ بھی دیکھیں

مریم نواز ہی وزیراعلیٰ پنجاب کیوں بنیں گی؟

(نسیم حیدر) مسلم لیگ ن کی حکومت بنی تو پنجاب کی وزارت اعلیٰ کا تاج …