ہفتہ , 20 اپریل 2024

محمد بن سلمان اور شیخ احمد العمری کا قتل

(عالیہ شمسی)

ترکی کے دارالحکومت میں واقع سعودی سفارت خانے میں معروف سعودی صحافی جمال خاشقجی داخل ہوئے لیکن واپس نہیں آئے۔ انہیں سفارت خانے میں سعودی عرب سے آنے والے ڈیتھ اسکواڈ کے افراد نے موت کے گھاٹ اتار کر لاش ٹھکانے لگا دی۔ جمال خاشقجی کی گمشدگی کی خبر جنگل میں آگ کی طرح پھیلی اور امریکی صدر ٹرمپ سے لیکر ترک سربراہ رجب طیب اردگان تک نے تشویش کا اظہار کیا اور پھر عالمی سطح پر تفتیش اور تشویش ہوتی رہی اور آئے دن سعودی عرب، امریکہ اور ترکی کی جانب سے بیانات اور دھمکیاں آتی رہیں۔ سوشل میڈیا سے لیکر عالمی میڈیا تک سبھی جمال خاشقجی کے قتل کے پیچھے چھپے محرکات جاننے کے لئے بے چین اور اپنے تبصروں اور تجزیوں سے عالمی برادری کے کان پکاتے رہے۔ نوبت یہاں تک جاپہنچی تھی کہ کراؤں پرنس محمد بن سلمان کو ہٹا کر ان کے بھائی کو ولی عہد بنانے کی باتیں شروع ہوگئیں تھیں۔ محمد بن سلمان کے بھائی جو ان دنوں امریکہ میں سفیر ہیں، کے حالات زندگی تک شائع ہونا شروع ہوگئے تھے کہ محمد بن سلمان کی جگہ نئے سعودی حکمران سے قوم کو روشناس کروایا جائے۔

لیکن پھر امریکہ سعودی عرب اور ترکی کی ڈیل ہونا شروع ہوئی اور آہستہ آہستہ بیانات کا انداز بدلنا شروع ہوا۔ وہ امریکی صدر جو جمال خاشقجی کے معاملے پر سعودی حکمرانوں کو سبق سکھانے کی ٹھان چکے تھے، انہوں نے امریکہ سعودی تعلقات کو ایک صحافی کے قتل سے زیادہ مضبوط قرار دیدیا۔ رجب طیب اردگان بھی جب تک اپنے ملک کے لئے سعودی عرب سے بھاری بھر کم پیکج اور اندرخانے معاملات طے نہیں کر لئے، تب تک بولتے رہے اور اس کے بعد انہوں نے راوی کو چین لکھنے کا حکم دیدیا۔ اب الحمد اللہ راوی چین ہی چین لکھ رہا ہے اور سعودی عرب، امریکہ اور ترکی اچھے دوستوں اور بھائیوں کی طرح زندگی گزار رہے ہیں۔ اب آتے ہیں سعودی عرب میں ہونے والے دوسرے قتل کی طرف؛ جس قتل کا ذکر ہم کر رہے ہیں، وہ کسی بھی صورت جمال خاشقجی کے قتل سے کم بڑا حادثہ نہیں ہے؛ جی ہاں معروف سعودی دانشور، شیخ الحدیث، مدینہ یونیورسٹی کے قرآن کالج کے سربراہ شیخ احمد العمری کو سرکاری تحویل میں موت کے گھاٹ اتار دیا گیا۔ یہ ہمارا دعویٰ نہیں بلکہ سعودی عرب میں انسانی حقوق کی تنظیم کے ڈائریکٹر یحییٰ العیسری کا دعویٰ ہے۔ ڈاکٹر یحیی کہتے ہیں کہ معالجہ میں غفلت ایک بہانہ ہے، لیکن حقیقت میں یہ ایک ریاستی قتل ہے۔

شیخ الحدیث احمد العمری کا قتل اہل علم حضرات جانتے ہیں کہ کسی صورت سعودی صحافی جمال خاشقجی کے قتل سے کم سانحہ نہیں ہے، لیکن اس معاملے پر عالمی برادری کی خاموشی بہت سے سوال اٹھاتی ہے۔ شیخ احمد العمری کے قتل پر نہ امریکہ کے حکام کی آواز بلند ہوئی، نہ کسی دوسرے اسلامی ملک کے سربراہ کے کان پر جون رینگی۔ حیرت تو اس امر پر ہے کہ انسانی حقوق کی تنظیمیں جو جانوروں کے ساتھ نازیبا سلوک پر آسمان سر پر اٹھا لیتی ہیں اور سوشل میڈیا پر موجود بچے، بوڑھے اور جوان سب ان کی آواز بن جاتے ہیں، لیکن جیل میں قید ایک ضعیف شیخ الحدیث کو کسی جرم کے بغیر موت کے گھاٹ اتار دیا جاتا ہے، لیکن سب پر خاموشی چھائی رہتی ہے۔ جمال خاشقجی اور شیخ احمد العمری یہ دو قتل ہیں، جو ایک ہی حکمران کی پالیسیوں کے خلاف آواز اٹھانے اور ان پر تنقید کرنے کی وجہ سے ہوئے ہیں، لیکن دونوں کے بارے میں عالمی برادری اور انصاف پسند افراد کا رویہ دوگانہ کیوں ہے۔؟

یہ بھی دیکھیں

مریم نواز ہی وزیراعلیٰ پنجاب کیوں بنیں گی؟

(نسیم حیدر) مسلم لیگ ن کی حکومت بنی تو پنجاب کی وزارت اعلیٰ کا تاج …