ہفتہ , 20 اپریل 2024

مقبوضہ کشمیر، صحافت زیر عتاب

(رپورٹ: جے اے رضوی)

مقبوضہ کشمیر کے ضلع شوپیان میں گذشتہ دنوں ایک مسلح تصادم کے دوران قابض فورسز اور مظاہرین کے درمیان ہونے والی جھڑپوں کی صورتحال کو عکس بند کرنے والے فوٹو جرنلسٹوں پر پیلٹ گنوں کی بوچھاڑ ایک انتہائی سنگین اقدام ہے، جو بنیادی انسانی حقوق کی خلاف ورزی کے ساتھ ساتھ میڈیا سے وابستہ طبقوں کے پیشہ وارانہ فرائض کی ادائیگی کے حقوق کی کھلم کھلا پامالی ہے۔ یہ اپنی نوعیت کا پہلا واقعہ نہیں ہے بلکہ اس سے قبل بھی ایسے واقعات پیش آتے رہے ہیں، لیکن افسوسناک امر یہ ہے کہ قابض انتظامیہ کی جانب ایسے قابض فورسز اہلکاروں، جو میڈیا سے وابستہ افراد کے حقوق کی پامالیوں کے مرتکب ہوئے ہیں، کے خلاف اب تک کسی قسم کی کوئی کارروائی سامنے نہیں آئی ہے۔ یہ الگ بات ہے کہ ہر ایسے واقعہ کے بعد انتظامی عہدیداروں اور حکام کی جانب سے افسوس کا اظہار ہوتا رہتا ہے اور آئندہ ایسی حرکات کو نہ دہرائے جانے کی یقین دہانیاں بھی کرائی جاتی ہیں، لیکن زمینی سطح پر اس کے اثرات بہت کم دکھائی دیتے ہیں۔

ایسا بھی نہیں ہے کہ قابض فورسز اداروں میں ایسے افراد موجود نہ ہوں، جو میڈیا کے وابستگان کی پیشہ وارانہ ذمہ داریوں کا احساس نہ رکھتے ہوں، لیکن یہ بھی ایک حقیقت ہے کہ میڈیا کے تئیں فورسز کی صفوں میں منفی جذبات کو دن بدن بڑھاوا مل رہا ہے، حالانکہ تصادم آرائی کے خطوں میں واقعات کی رپورٹنگ بنیادی اعتبار سے جان جوکھوں والا کام ہوتا ہے اور کشمیر میں صحافی برادری نے گذشتہ 28 برسوں کے دوران کافی اُتار چڑھاؤ بھی دیکھے ہیں۔ بین الاقوامی اور ملکی قوانین اور انسانی اقدار کی بنیاد پر حکومتوں کی یہ ذمہ داری بنتی ہے کہ وہ صحافیوں کی پیشہ وارانہ فرائض کی انجام دہی میں انہیں اپنے حقوق سے محروم نہ کریں، اگر ایسا کیا جاتا ہے تو یقینی طور پر ایک غیر متوازن سسٹم کے فروغ کی راہیں ہموار ہو جاتی ہیں، جو کسی بھی فریق کے لئے فائدہ مند نہیں ہوسکتا ہے۔

گذشتہ برس سرینگر میں بھی ایک جھڑپ کے دوران صحافیوں کو عتاب کا نشانہ بنایا گیا، اُس سے یہ بات تقریباً پایہ اثبات کو پہنچی ہے کہ کشمیر میں بھارت کے دیگر حصوں کی طرح ایک مخصوص سازش کے تحت صحافیوں کو زیر عتاب لایا جا رہا ہے، تاکہ وہ وقت کے حکمرانوں کے سامنے گھٹنے ٹیک کر اُن کی ہاں میں ہاں ملانے میں ہی عافیت محسوس کریں۔ ایسا محض کسی وسوسے کی بنیاد پر نہیں کہا جا رہا ہے بلکہ گذشتہ دو ایک سال کے دوران کشمیر میں جس طرح عامل صحافیوں کو پیشہ وارانہ ذمہ داریوں کی انجام دہی کے دوران بھارت کے نام نہاد قانون نافذ کرنے والے اداروں کی جانب سے ہراسانی اور پریشانی کا سامنا رہا ہے، وہ اس بات کا منہ بولتا ثبوت ہے کہ جان بوجھ کر کشمیری صحافیوں کے لئے زمین تنگ کی جا رہی ہے۔

اس میں کوئی دو رائے نہیں کہ کشمیر ایک شورش زدہ علاقہ ہے، جہاں صحافیوں کو بھی اپنی پیشہ وارانہ ذمہ داریوں کی انجام دہی کے دوران احتیاط برتنا لازمی ہے، تاہم یہ بھی ایک کھلی حقیقت ہے کہ دھیرے دھیرے ہی سہی، لیکن اب حکومتی ادارے خاص طور پر سلامتی سے جڑے ادارے عدم برداشت کا شکار ہوتے جا رہے ہیں اور ایک طرح سے اُن میں تحمل مزاجی کا عنصر دم توڑتا جا رہا ہے۔ اگر بھارت کے آئین کا مطالعہ کیا جائے تو آئینی طور پر اگرچہ یہاں بھی ہر شہری کو اظہار بیان کی آزادی حاصل ہے اور صحافت کو جمہوریت کا چوتھا ستون تسلیم کیا گیا ہے۔ اقوام متحدہ کے مطابق آزادیِ صحافت ایک بنیادی انسانی حق ہونے کے ساتھ ساتھ تمام آزادیوں کی کسوٹی ہے۔ اقوام متحدہ کے چارٹر میں صحافت کی آزادی کسی معاشرے میں آزادی بیان اور اظہار رائے کے احترام کی عکاسی، حکام اور حکومت پر نکتہ چینی کرنے اور ذرائع ابلاغ میں اس نکتہ چینی کی آزادانہ اشاعت سے معلوم ہوتی ہے۔ معلومات کی آزادانہ فراہمی عوام کو یہ موقع دیتی ہے کہ وہ اس کی روشنی میں حکومتوں کا احتساب کرسکیں۔

صحافت سماج کا آئینہ ہوتا ہے اور اگر یہ آزاد ہو تو سماج اور حکومت کی صحیح عکاسی کرسکتی ہے، جس کے ذریعے ایک کامل سماج کی تعمیر ممکن بن سکتی ہے۔ اطلاعاتی ٹیکنالوجی کے انقلاب نے صحافت اور ذرائع ابلاغ کو انتہائی اہمیت کا حامل بنا دیا ہے، کیونکہ اب قارئین، ناظرین و سامعین مختلف ذرائع ابلاغ کے ذریعے پل پل کی خبر سے آگاہ رہ پاتے ہیں۔ ایسے ماحول میں جب دنیا کے کسی بھی کونے کی خبر محض کمپیوٹر کے ایک کلک کی دوری پر ہے، آزادانہ صحافت کا تصور اور زیادہ اہم بن جاتا ہے۔ بھارت میں بھی گذشتہ چند برسوں سے صحافتی شعبہ میں گھٹن کا ماحول قائم ہوا ہے اور جہاں تک مقبوضہ کشمیر کا تعلق ہے تو یہاں بھلے ہی اعلانیہ طور پر صحافیوں کو رام کرنے کی پالیسی پر عمل نہیں ہو رہا ہے، لیکن غیر اعلانیہ طور پر جو کچھ ہو رہا ہے، اس کا منتہائے مقصد یہی ہے کہ جمہوریت کے چوتھے ستون کو یہاں ایک مخصوص راہ و روش پر چلنے کے لئے مجبور کیا جائے۔

صحافیوں کو ہراساں کرنے کی خبریں تواتر کے ساتھ موصول ہو رہی ہیں اور گذشتہ برس فتح کدل اور اب شوپیان کے واقعات اس کی تازہ اور زندہ مثالیں ہیں، جہاں صحافیوں کو صرف اس وجہ سے پیلٹ گنوں اور لاٹھیوں سے نوازا گیا کہ وہ اپنی پیشہ وارانہ ذمہ داریاں انجام دے رہے تھے۔ تاحال کئی دفعہ حکام بالا نے زبانی جمع خرچ کے طور پر ایسے واقعات پر پھر ندامت کا اظہار کیا، لیکن سلسلہ ختم نہ ہوسکا اور آج بھی جس طرح صحافیوں کو زیر کرنے کے نت نئے بہانے تلاش کئے جا رہے ہیں، وہ اس بات کی جانب اشارہ کرتا ہے کہ ارباب بست و کشاد یہاں ایک مخصوص بیانیہ کو ہی پروان چڑھانے پر مصر ہیں اور انہیں سکے کے دونوں رخ عوام کے سامنے پیش کرنے سے تکلیف ہو رہی ہے۔ اگر ارباب اقتدار واقعی جمہوری ماحول کو فروغ دینے میں سنجیدہ ہیں تو انہیں آج نہیں تو کل آزادی صحافت کو یقینی بنانا ہی ہوگا، انہیں صحافیوں کو آزادانہ رپورٹنگ کرنے کی اجازت دینی ہوگی، ورنہ اس وقت تک نہ ہی وہ اپنی خامیوں کا سراغ لگا پائیں گے اور نہ ہی ایک کامل و خوشحال سماج کی تکمیل ہوسکتی ہے۔

حالیہ دنوں ضلع شوپیاں میں صحافت سے وابستہ افراد کی قابض فورسز کے ہاتھوں مار پیٹ اور انہیں پیلٹ گنوں کا نشانہ بنانے کے خلاف آج سرینگر میں صحافیوں کا احتجاج مظاہرہ ہوا۔ کشمیری صحافیوں نے بھارتی یوم جمہوریہ کی تقریب کا بائیکاٹ کرکے سرینگر کی پریس کالونی میں احتجاج کیا۔ اس دوران کشمیر ایڈیٹرز گلڈ نے قابض فورسز کی کارروائی کی مذمت کرتے ہوئے کہا کہ گورنر انتظامیہ کو ان پولیس افسروں کے خلاف سخت کارروائی کرنی چاہیئے، جنہوں نے میڈیا والوں کے کرفیو پاس چھین لئے اور میڈیا کا دائرہ کار محدود کر دیا۔ انہوں نے کہا کہ قابض فورسز کشمیر میں صحافیوں کو عتاب کا نشانہ بناکر یہاں کی تشویشناک صورتحال پر پردہ ڈالنے کی ناکام کوشش میں مصروف ہیں۔ اس دوران سرینگر میونسپل کارپوریشن کے ڈپوٹی میئر شیخ محمد عمران نے کہا کہ صحافت کو جمہورہت کا چوتھا ستون تصور کیا جاتا ہے، اس لئے صحافیوں کو عتاب کا نشانہ بنانے کی کوشش کو کسی بھی صورت میں برداشت نہیں کیا جائے گا۔

یہ بھی دیکھیں

مریم نواز ہی وزیراعلیٰ پنجاب کیوں بنیں گی؟

(نسیم حیدر) مسلم لیگ ن کی حکومت بنی تو پنجاب کی وزارت اعلیٰ کا تاج …