جمعرات , 25 اپریل 2024

سانحہ ساہیوال اور پاکستانی قوم

(تحریر: ڈاکٹر ندیم عباس)

ساہیوال شہر سے اوکاڑا کا راستہ کوئی آدھ گھنٹے کا ہے، اسی راستے کے درمیان قادر آباد کے نزدیک ایک عام سی جگہ ہے، آج کل کچھ لوگ جنریلی سڑک پر سفر کرتے ہوئے اس مقام پر پہنچ کر گاڑی روکتے ہیں اور چند لمحے اس جگہ کو دیکھ کر آگے روانہ ہو جاتے ہیں۔ یہی وہ جگہ ہے، جہاں چند روز پہلے وہ اندوہناک واقعہ ہوا، جس نے پاکستانی قوم کو تڑپا دیا۔ دہشتگرد کسی رعایت کے مستحق نہیں، جنہوں نے ہمارے بچوں کو یتیم اورماوں کو مستقل کرب میں مبتلا کر دیا، وہ بھلا کیسے قابل معافی ہوسکتے ہیں؟ کچھ واقعات ایسے ہیں، جو انسان کی روح پر اثر ڈالتے ہیں اور ایک ڈراونے خواب کی طرح انسان کا پیچھا کرتے ہیں۔ انسان چاہتا ہے کہ کوئی ان واقعات کا تذکرہ ہی نہ کرے، تاکہ ہر بار اس کے ذکر سے جو تکلیف پہنچنی ہے، اس سے محفوظ رہا جاسکے۔ سانحہ اے پی ایس ایسا ہی سانحہ تھا، جس کے بارے میں پڑھتے، سنتے یا دیکھتے ہوئے آنسو بے ساختہ دل کی حالت کو بیان کر دیتے ہیں اور اب سانحہ ساہیوال پر یہی کیفیت ہو جاتی ہے۔

ہمارے اداروں نے دہشتگردی کے خلاف جنگ میں بے شمار قربانیاں دی ہیں اور پوری قوم وطن کے ان بیٹوں کو سلام پیش کرتی ہے۔ ساہیوال میں جس نااہلی اور بربریت کا مظاہرہ کیا گیا، اس نے اس جنگ میں اپنی راتوں کا چین تباہ کرنے والوں کو بھی آبدیدہ کر دیا ہے اور ایسا کیوں نہ ہو؟ جن بچوں کی حفاظت کے لئے یہ جان سے گذر جاتے ہیں، انہی کو بیچ چورائے اس انداز میں مارا گیا کہ دشمن بھی ہائے کئے بنا نہ رہ سکے۔ ہوسکتا ہے کہ وہ ڈرائیور دہشگرد ہو، یہ بھی ممکن ہے کہ بچوں کا باپ بھی ان کا خیرخواہ ہو اور ان کو سزا دینی ضروری ہو، سب تسلیم، مگر ایک چھوٹی سے گاڑی میں سوار ان لوگوں کو بڑی آسانی سے گرفتار کیا جا سکتا تھا۔ اگر یہ سب غلطی سے ہوگیا تو بچوں کو اٹھا کر زخمی حالت میں ایک سٹاپ پر چھوڑ دیا گیا، سچ پوچھیے تو ان تینوں معصوم بہن بھائیوں کو اس طرح لاوارث چھوڑنے کو پاکستانی قوم بھلا نہیں پائے گی۔

معروف اہل حدیث عالم مدنی صاحب کا ایک کلپ سن رہا تھا، ایک ایک لفظ ایسے دل میں پویست ہو رہا تھا جیسے ظلم و بربریت کا شکار ہونے والے بچے ہمارے اپنے بچے ہوں، جیسے یہ واقعہ خود ہمارے ساتھ ہوا ہو۔ جس طرح مدنی صاحب روئے اور سننے والوں کو رلایا، ایسے لگ رہا تھا جیسے کوئی ذاکر شام غریباں پڑھ رہا ہو۔ جس سے یہ بھی پتہ چلتا ہے کہ مظلوم پر ہوئے ظلم کو یاد کرکے رونا انسان کی فطرت میں شامل ہے اور جب بھی کسی بھی جگہ ہوئے ظلم کو سنتا ہے تو بے ساختہ آبدیدہ ہو جاتا ہے۔ وہ لوگ جو خاندان نبی ﷺ پر ہوئے ظلم و بربریت کے خلاف مسلمانوں کے رونے پر فتوے لگاتے ہیں، وہ فطرت کے خلاف بات کرتے ہیں، کیونکہ مظلوم سے محبت کے لئے رشتہ دار ہونے، ہم مذہب ہونے یا ہم علاقہ ہونے کی قطعاً ضرورت نہیں ہے، اس کے لئے فقط اور فقط انسان ہونے کی ضرورت ہے۔

بچوں کو یاد کرنے کا اپنا اپنا انداز ہوتا ہے، یہ پڑھتے ہوئے آنکھیں آبدیدہ ہوگئیں کہ ایک رپورٹر اس واقعہ میں شہید ہونے والی اریبہ خلیل کے کلاس روم میں گیا، ہر ڈیسک پر تین بچیاں بیٹھی تھیں، مگر ایک بنچ ایسا بھی تھا، جس پر دو بچیاں بیٹھی تھیں۔ جب رپورٹر نے پوچھا تو بچیوں نے بتایا کہ یہ اریبہ کی جگہ ہے۔ مجھے یاد ہے کہ کوہاٹ میں شہید ہونے والے اعتزاز احسن کے بنچ پر بھی اس کی شہادت کے بعد دو لوگ ہی بیٹھا کرتے تھے، بچوں کا بھی یاد منانے کا اپنا انداز ہے۔ اریبہ اپنی کلاس کی پوزیشن ہولڈر اور اچھی نعت خواں تھی، اس کی جنون کی حد تک یہ خواہش تھی کہ وہ ڈاکٹر بنے اور ملک و قوم کی خدمت کرے، مگر ایسا نہ ہوسکا اور وہ اپنی یہ خواہش لئے چلی گئی۔

ایسا کیوں ہوتا ہے؟ اس کی بنیادی وجہ یہ ہے کہ ہم نے نظام تربیت سے سیرت النبیﷺ کو نکال دیا ہے۔ نبی اکرم ﷺ سے حضرت مقداد بن اسود رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے پوچھا یارسول اللہ! یہ فرمایئے کہ اگر (میدان جنگ میں) کسی کافر سے میرا مقابلہ ہو اور وہ میرا ہاتھ کاٹ ڈالے اور پھر جب وہ میرے حملہ کی زد میں آئے تو ایک درخت کی پناہ میں آکر کہہ دے: أَسْلَمْتُ لِلّٰهِ (میں اللہ کے لئے مسلمان ہوگیا)، تو کیا میں اس شخص کو اس کے کلمہ پڑھنے کے بعد قتل کرسکتا ہوں۔؟ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا: تم اس کو قتل نہیں کرسکتے۔ میں نے عرض کیا: یارسول اللہ! اس نے میرا ہاتھ کاٹنے کے بعد کلمہ پڑھا ہے تو کیا میں اس کو قتل نہیں کرسکتا۔؟ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا: تم اس کو قتل نہیں کرسکتے، اگر تم نے اس کو قتل کر دیا تو وہ اس درجہ پر ہوگا، جس پر تم اس کو قتل کرنے سے پہلے تھے (یعنی حرام الدم) اور تم اس درجہ پر ہوگے، جس درجہ پر وہ کلمہ پڑھنے سے پہلے تھا۔

میں نے اس واقعہ کو بار بار پڑھا اور مسلم دنیا میں جاری قتل عام کو دیکھا تو جانا کہ ہم کہنے کی حد رسولﷺ کی فرمانبرداری کا دم بھرتے ہیں اور عمل سے بالکل تہی دامن ہیں، وہ کافر جو جنگ کرنے آیا ہے اور ایک مسلمان سپاہی کا ہاتھ کاٹ دیا ہے، اگر وہ بھی کلمہ پڑھ لے تو اس کا اسلام قبول ہے، اس کا خون محترم ہو جائے گا اور اسے قتل نہیں کرسکتے۔ اگر کوئی مسلمان ایسا کرے تو اس کا خون جنگ میں کلمہ پڑھنے سے پہلے والے کافر کی طرح بے ارزش ہو جائے گا۔ ہمیں سیرت کا یہ پہلوں خود بھی پڑھنا چاہیئے اور حفاظت پر مامور جوانوں کو بھی نصاب میں بتانا چاہیئے، تاکہ اس جیسے واقعات سے بچا جا سکے۔

یہ بھی دیکھیں

مریم نواز ہی وزیراعلیٰ پنجاب کیوں بنیں گی؟

(نسیم حیدر) مسلم لیگ ن کی حکومت بنی تو پنجاب کی وزارت اعلیٰ کا تاج …