ہفتہ , 20 اپریل 2024

کیا طالبان افغانستان میں نظام کا حصہ بننے کی تیاری کررہے ہیں؟

(طاہر خان)

افغانستان میں سترہ سال سے جاری جنگ کے خاتمے کے لئے قطرمیں امریکا اور افغان طالبان کے درمیان امن مذاکرات ہفتے کو چھٹے روز بھی جاری ہیں اور بات چیت سے باخبر طالبان ذرائع کا دعوی ہے کہ غیر ملکی افوآج کے انخلا اور افغانستان سے مستقبل میں امریکا اور دیگر ممالک کو دہشت گردی کا خطرہ نہ ہونے کی طالبان کی یقین دہانی سے متعلق معاہدے کا کسی بھی وقت اعلان کا امکان ہے۔ اس وقت امریکا میں تقریبا چودہ ہزار فوجی اور نو اڈے موجود ہیں۔

طالبان ذرائع کا مزید کہنا ہے کہ فوجیوں کے انخلا کے اعلان کے بعد جنگ بندی، افغان حکومت سے مذاکرات، قیدیوں کی رہائی، قطر میں طالبان دفترکو تسلیم کرنا اور دیگر معاملات پر اتفاق مسئلہ نہیں رہے گا۔ مذاکراتی عمل سے باخبر ایک طالبان رہنما کا کہنا ہے کہ معاہدے کا اعلان پہلے ہونا تھا لیکن طالبان نے امریکا کے اس تجویز سے اتفاق نہیں کیا تھا کہ مشترکہ بیان میں جنگ بندی اور افغان حکومت سے فوری مذاکرات شروع کرنے کا ذکر کیا جائے۔

لیکن ان معاملات پر آج یعنی ہفتے کو انخلا کے معاملے ہر اتفاق کے بعد پیش رفت ممکن ہو سکے گی۔ طالبان ذرائع کا کہنا ہے کہ امریکی مذاکراتی ٹیم نے طالبان کو تجویز دی تھی کہ فوجیوں کے انخلا کے دوران طالبان جنگ بندی کا اعلان کرے۔ امریکی میڈیا کے مطابق صدر ڈونلڈ ٹرمپ نے حکام کو موجودہ چودہ ہزار فوجیوں سے ادھے نکالنے پر کام شروع کرنے کی ہدایت کی تھی لیکن بعد میں وائٹ ہاوس نے ان اطلاعات کی تردید کی تھی۔ قطر میں ایک طالب رہنما نے کہا ہے کہ مذاکرات کے دوران فوجیوں کے انخلا کے نظام الاوقات پر بھی اختلاف تھا۔

طالبان چھ ماہ میں یہ کام مکمل کرنا چاہتے تھے لیکن امریکا نے ایک سال میں اس کا عندیہ دیا تھا۔ طالبان نے ان رپورٹس کی تصدیق نہیں کی جب ان سے امریکی میڈیا کے اس رپورٹ کے بارے میں پوچھا گیا کہ طالبان نے افغانستان میں ائندہ القاعدہ کی مخالفت سع متعلق امریکا کو یقین دہانی کرائی ہے بلکہ ایک طالب سیاسی نمائندے کا اصرار تھا کہ القاعدہ کا ذکر نہیں ای بلکہ امریکا کو یقین دہانی کرائی جائے گی کہ کوئی بھی گروپ کو آئندہ افغان سرزمین امریکا یا کسی اور ملک کے خلاف استعمال کرنے کی اجازت نہیں ہوگی۔

اگرچہ طالبان دفتر کے نئے سربراہ ملا عبدالغنی برادرابھی قطر نہیں گئے لیکن ان کی تقرری سے طالبان نے پیغام دیا ہے کہ مذاکراتی ٹیم اب ماضی کی نسبت با اختیار ہوگی اور اس فیصلے سے طالبان قیادت نے اپنے فوجی کمانڈروں اور جنگجووں کا مذاکرات پر اعتماد بڑھانے کی کوشش کی ہے۔ ملا برادر، جو کہ طالبان تحریک کی بنیاد رکھنے والوں میں سے ہیں، اس وقت طالبان میں سربراہ ملاہیبت اللہ کے بعد دوسری اہم شخصیت ہیں، جو دفتر کی سربراہی کے علاوہ، طالبان سربراہ کے سیاسی امورمیں نائب بھی بنا دیے گئے ہیں۔

طالبان تحریک کے بانی ملا عمر نے اپنی زندگی میں ملا برادر کو نائب سربراہ بنایا تھا جو کہ طالبان کا فوجی امور کا بھی انچارج رہ چکا ہے۔ ملا برادر کے علاوہ طالبان کی قیادت نے کئی اہم عہدوں پر نئے ذمہ داران نامزد اور کچھ کے عہدے تبدیل کیے ہیں۔ ان تقرریوں اور تبدیلیوں کا مقصد یہ ہوسکتا ہے کہ طالبان شاید افغانستان میں امن معاہدے کے بعد نظام کا حصہ بننے کی تیاری کررہے ہیں۔بشکریہ ہم سب نیوز

یہ بھی دیکھیں

مریم نواز ہی وزیراعلیٰ پنجاب کیوں بنیں گی؟

(نسیم حیدر) مسلم لیگ ن کی حکومت بنی تو پنجاب کی وزارت اعلیٰ کا تاج …