جمعرات , 25 اپریل 2024

داعش سے انکار بھی اور اقرار بھی۔۔۔؟؟

(طیبہ ضیاء)

سانحہ ساہیوال میں جاں بحق ہونے والوں کی پوسٹ مارٹم رپورٹ آ گئی ہے جس میں کہا گیا ہے کہ چاروں افراد کے سر میں گولیاں ماری گئیں۔ 13 سالہ اریبہ کو 6 گولیاں لگیں جس سے اس کی پسلیاں بھی ٹوٹ گئیں، اریبہ کو سینے میں دائیں اور بائیں بھی گولیاں لگیں۔نبیلہ کو چار گولیاں لگیں جن میں سے ایک گولی سر میں لگی۔

پوسٹمارٹم رپورٹ کے مطابق سانحہ ساہیوال میں جاں بحق خلیل کو کل 11 گولیاں ماری گئیں جن میں سے ایک سر میں لگی۔ ڈرائیور ذیشان کو 13 گولیاں لگیں، سر میں لگنے والی گولی سے ہڈیاں باہر آ گئیں۔چاروں افراد کو بہت قریب سے گولیاں ماری گئیں۔ قریب سے گولیاں مارنے کی وجہ سے چاروں لوگوں کی جلد مختلف جگہ سے جل گئی۔حیرت ہے اتنے تربیت یافتہ ادارہ کے اہلکاروں نے قریب سے گولیاں ماریں لیکن انہیں خاتون اور بچے دکھائی نہ دئے ؟ پہلے جھوٹ بولتے رہے کہ گاڑی کے شیشے سیاہ تھے پھر جھوٹ کہ گاڑی میں فیملی کی موجودگی سے لا علم تھے پھر جھوٹ کہ دہشت گردوں نے فیملی کو ڈھال بنا رکھا تھا۔ ظالموں نے سب بالغ افراد کو خاموش کرا دیا بچوں کو بھی بطور گواہ زندہ نہ چھوڑتے بس ان بد نصیبوں کی زندگی لکھی ہوئی تھی۔ بچ جانے والے معصوموں کے دل و دماغ پر سانحہ کا گہرا اثر ہوا ہے۔ان کا چچا جلیل بتا رہا تھا کہ گاڑی میں بیٹھنے سے خوفزدہ ہوگئے ہیں بلکہ گاڑی کا نام سنتے ہی ڈر جاتے ہیں اور گھر میں کسی فرد کو گاڑی میں جانے نہیں دیتے ادھر ہمیں میڈیا اور تفتیشی اداروں نے پریشان کر رکھا ہے۔ خلیل مرحوم کی ماں صدمے سے علیل ہے بچے ذہنی و جسمانی بیمار ہیں دوسری جانب اداروں کا دبائو اور تھانہ کچہری نے زندگی جہنم بنا رکھی ہے۔ انصاف کی حکومت میںانصاف کی کوئی امید نہیں۔ کوئی پوچھنے نہیں آیا۔ بچے چچا اور دادی کے سوا کسی پر بھروسہ نہیں کرتے۔ مرحوم خلیل کے بھائی جلیل نے اپنے وکیل بخاری کو بھی کسی دبائو کے تحت کیس سے الگ کر دیا ہے۔ان کے وکیل نے میڈیا پر آکر مختلف اداروں کی جانب سے دھمکی آمیز فون کالز سنا دی ہیں۔ مرحوم خلیل کے بھائی جلیل نے بتایا کہ تحریک انصاف کے علاوہ ساری سیاسی و مذہبی جماعتوں کے اہم افراد تعزیت کے لئے آئے۔ وزیر اعظم جب اپوزیشن میں ہوا کرتے تھے تو معمولی واقعات پر بھی سیاست چمکانے لواحقین کے گھروں میں پہنچ جاتے تھے ، حاکم وقت کی نام نہاد ریاست مدینہ میں اس قدر کربناک سانحہ رونما ہوگیا لیکن وزیر اعظم مظلوم خاندان اور بچوں کے گھر تعزیت کو نہیں پہنچ سکے۔ حکومت اور سکیورٹی اداروں کا اس وقت پورا فوکس سانحہ ساہیوال کو جائز قرار دینے پر ہے۔ ہمیں اس میں کوئی شبہ نہیں کہ سانحہ ساہیوال کے بد نصیب خاندانوں کا انجام بھی امریکی جاسوس ریمنڈ ڈیوس کے ہاتھوں قتل ہونے والوں کے لواحقین جیسا ہوگا۔

حکومت کی بے بسی پر پورا ملک سکتہ کے عالم میں ہے۔ دوسری جانب سانحہ ساہیوال میں تین گھنٹے کے دورانیے میں صرف دو عینی شاہدین نے بیان قلمبند کروائے۔عینی شاہدین کا کہنا ہے کہ جے آئی ٹی کوبیان قلمبند کرانے ہمیں تھانے آ کر بیان دینے سے ڈر لگتا ہے۔سانحہ ساہیوال پر ویڈیوز بنانے والے گواہ اور عینی شاہدین ’’نیشنل نوبل انعام‘‘ کے حقدار ہیں لیکن اداروں کے خوف سے سب روپوش ہو گئے ہیں۔ حکومتی ترجمان ڈاکٹر محمد فیصل نے پاکستان میں داعش کی موجودگی کو خارج از امکان قرار دیتے ہوئے کہا کہ میری معلومات کے مطابق پاکستان میں داعش کا کوئی وجود نہیں، ساہیوال واقعہ کے متعلق صوبے کی وزارت داخلہ ہی جواب دے سکتی ہے۔بندہ پوچھے پھرسانحہ ساہیوال کے ڈرائیور ذیشان پر داعش کا الزام کیوں کر دھرا گیا ہے؟حکومت ایک طرف داعش کی موجودگی سے انکاری ہے اور دوسری جانب پاک فوج کے ترجمان نے 2016 میں پاکستان میں داعش کی موجودگی کا اعتراف کیا تھا۔ 2016 میں پاکستان آرمی کے شعبہ تعلقات عامہ ISPR کے سربراہ جنرل عاصم سلیم باجوہ نے انکشاف کیا تھا کہ گزشتہ دو برسوں یعنی 2014 میں ملک میں داعش کے کئی کارندے گرفتار کیے گئے۔آپریشن ضرب عضب پر ذرائع ابلاغ کو راولپنڈی میں بریفنگ دیتے ہوئے انہوں نے کہا تھا کہ داعش پاکستان میں گھسنے کی کوشش کر رہی تھی لیکن سکیورٹی فورسز کی کارروائیوں کے باعث یہ دہشت گرد تنظیم کوئی کامیابی نہیں حاصل کر سکی۔جبکہ جنوری 2019 میں سانحہ ساہیوال کے ڈرائیور ذیشان کا تعلق داعش سے جوڑنے کی سر توڑ کوشش کی جا رہی ہے۔ ماضی کے سانحات کی طرح سانحہ ساہیوال پر بھی ’’مٹی پائو‘‘ کا کام جاری ہے۔ اس المناک واقعہ کو دبانے کی بھرپور کوشش جاری ہے۔

سانحہ ساہیوال کے مظلوم شہید خلیل احمد کے وکیل کا کہنا ہے کہ ہمیں لائف تھریٹس دیے جا رہے ہیں نہ سی ٹی ڈی والوں نے سانحہ میں استعمال شدہ اسلحہ برآمد کیا ہے اور نہ اسمیں کوئی پروگریس دکھا رہے ہیں۔عمران خان نے کہا تھا قطر سے واپس آ کے ایکشن لوں گا مگر اب دھمکیاں آنا شروع ہوگئی ہیں۔حکومت اور سیکیورٹی اداروں کی پوری کوشش ہے کہ اس ہولناک واقعہ کو درست آپریشن ثابت کرنے کے لئے ڈرائیور ذیشان کو داعش کا دہشت گرد ثابت کیا جائے۔ لیکن جو بہیمانہ ظلم مرنے والے خاندان کے ساتھ کیا گیا ہے وہ دہشت گردی کس کے کھاتے ڈالی جائے ؟ معصوم و مظلوم لوگ بیگناہ مارے گئے ؟ پاکستانی وزارت خارجہ بھی امریکی وزارت خارجہ کے نقش قدم پر ہے کہ جس کو جب چاہو برا اور اچھا کا خطاب دے دو۔سانحہ ساہیوال کی ذلت سے دامن بچانے کے لئے سارا ملبہ زیشان ڈرائیور پر ڈالنے کے لئے مہلت مانگ لی گئی ہے داعش نہیں تو کسی بھی کالعدم تنظیم سے تعلق جوڑ دیا جائے گا۔ ماضی کی طرح موجودہ حکومت بھی یہ ظلم اپنے سر لینے کو قطعی تیار نہیں۔ وہ عمر فاروق رضی اللہ تھے جو کہتے تھے کہ ریاست مدینہ میں کتا بھی پیاسامر گیا تو حاکم وقت عمر کی پکڑ ہو گی۔ریاست کے جس صوبے میں اتنا ہولناک واقعہ ہوجائے اور وہاں کے وزیر اعلیٰ کو بدستور عہدے کے اعزاز سے نوازا جائے ؟ زمینی حقیقت سانحہ ساہیوال کی صورت میں منہ چڑا رہی ہے۔بے رحم واقعہ نے تمام نعروں اور دعوؤں کی قلعی کھول کر رکھ دی۔

یہ بھی دیکھیں

مریم نواز ہی وزیراعلیٰ پنجاب کیوں بنیں گی؟

(نسیم حیدر) مسلم لیگ ن کی حکومت بنی تو پنجاب کی وزارت اعلیٰ کا تاج …