بدھ , 24 اپریل 2024

ہماری سکیورٹی فورسز کی بے بہا قربانیوں سے یہ ارض وطن امن و آشتی کا گہوارہ بنے گی

لورالائی میں گزشتہ روز ڈی آئی جی آفس پر تین خودکش حملہ آوروں کی دہشت گردی میں تین پولیس اہلکاروں سمیت 9‘ افراد شہید اور 21 زخمی ہوگئے۔ زخمیوں کو ہیلی کاپٹر کے ذریعہ سی ایم ایچ کوئٹہ منتقل کر دیا گیا۔ آئی ایس پی آر کی جاری کردہ پریس ریلیز کے مطابق ڈی آئی جی آفس کے کمپائونڈ میں نائب قاصد پولیس کی بھرتی کیلئے آٹھ سو امیدوار جمع تھے کہ اسی دوران خودکش جیکٹوں اور دوسرے اسلحہ سے لیس تین خودکش بمباروں نے کمپلیکس میں گھسنے کی کوشش کی۔ پولیس نے کمپلیکس کے گیٹ پر ایک حملہ آور کو گولی ماری تو اس نے خود کو دھماکے سے اڑالیا جبکہ باقی دو دہشت گردوں نے اندھا دھند فائرنگ شروع کردی جس کے نتیجہ میں تین پولیس اہلکاروں اور پولیس کے پانچ سول ملازمین سمیت 9‘ افراد شہید ہوگئے جبکہ 9 سویلینز اور 12 پولیس اہلکاروں سمیت 21 زخمی ہوئے۔ کلیئرنس اپریشن کے دوران فورسز نے دونوں دہشت گردوں کو ہلاک کر دیا۔ پاک فوج اور ایف سی نے علاقے کو مکمل سرچ کرنے کے بعد کلیئر کرکے بھرتی کیلئے آئے نوجوانوں کو محفوظ پر منتقل کردیا۔ ذرائع کے مطابق فائرنگ اور دھماکے سے پولیس کی متعدد گاڑیوں اور بلڈنگ کو بھی نقصان پہنچا۔ لورالائی میں دہشت گردوں کی بزدلانہ کارروائی کی جتنی مذمت کی جائے کم ہے، آرمی و ایف سی کی جانب سے بروقت کارروائی نے ملک کو بڑے نقصان سے بچالیا ہے۔

امریکی نائن الیون کے بعد دو دہائی قبل دہشت گردی کے خاتمے کے نام پر شروع کی گئی افغان جنگ کا سب سے زیادہ پاکستان ہی کو خمیازہ بھگتنا پڑا ہے جسے اس جنگ میں امریکی فرنٹ لائن اتحادی کے کردار کے ردعمل میں خودکش حملوں اور دہشت گردی کی دوسری بدترین وارداتوں کو بھگتنا پڑا اور ہمارے دس ہزار کے قریب سکیورٹی اہلکاروں اور افسران سمیت مجموعی 70 ہزار سے زائد بے گناہ شہری اس دہشت گردی کی بھینٹ چڑھے جبکہ ہماری معیشت کو کھرب ہا روپے کا الگ نقصان ہوا۔ اسکے علاوہ دہشت گردی کی ان وارداتوں کے باعث ملک میں پیدا ہونیوالی خوف و ہراس اور غیریقینی کی فضا کے باعث ملک میں اندرونی و بیرونی سرمایہ کاری کا عمل بھی رک گیا اور ہمارے دشمن بھارت نے بھی ملک کے اندر پیدا ہونیوالی سکیورٹی کی اس خراب صورتحال سے فائدہ اٹھا کر پاکستان کی سلامتی کمزور کرنے کی سازشیں پروان چڑھانا شروع کر دیں۔ ان سازشوں کے ماتحت بھارت نے پاکستان کے مختلف علاقوں بالخصوص بلوچستان میں اپنی ایجنسی ’’را‘‘ کا دہشت گردی کا نیٹ ورک پھیلایا جس کے ذریعے دہشت گردوں کو تربیت فراہم کرکے اور انکے سہولت کاروں کی فنڈنگ کرکے ملک میں دہشت و وحشت کا بازار گرم کردیا گیا۔

اگر پاکستان امریکی مفادات کی جنگ میں اسکے فرنٹ لائن اتحادی کا کردار قبول نہ کرتا تو یقیناً ہماری سرزمین پر دہشت گردوں کو کھل کھیلنے کا کبھی موقع نہ ملتا اور نہ ہی یہاں دہشت گردوں اور خودکش حملہ آوروں کی نرسریاں نشوونما پاتیں۔ اسی طرح عساکر پاکستان کو کٹھن اپریشنز کے جاگسل مراحل سے بھی نہ گزرنا پڑتا جبکہ ان اپریشنز میں بھی ہماری جری و بہادر سپاہ نے قربانیوں کی عظیم داستانیں رقم کی ہیں اور اسکے عوض شہریوں کی جان و مال کے تحفظ کو یقینی بنایا ہے۔ ہمارے مکار دشمن بھارت کو تو ہماری سالمیت کمزور کرنے کے ایسے موقع کی تلاش تھی چنانچہ دہشت گردی کی جنگ نے جو بالآخر ہمارے اپنے تحفظ کی جنگ بن گئی‘ بھارتی سازشوں کو خوب پروان چڑھایا جسے ان سازشوں میں امریکی سرپرستی حاصل ہوئی تو اسکے حوصلے مزید بلند ہوگئے اور اس نے ’’را‘‘ کے حاضر سروس جاسوس دہشت گرد کلبھوشن کی سرپرستی میں بلوچستان کو اپنی گھنائونی سازشوں کی آماجگاہ بنالیا۔ ’’را‘‘ کے اس نیٹ ورک کے ذریعے جہاں بھارت نے بلوچستان اور کراچی میں فرقہ واریت اور لسانی بنیادوں پر دہشت گردی کی آگ بھڑکائی وہیں اس نے گوادر میں پاکستان چین اقتصادی راہداری کو سبوتاژ کرنے کی سازشیں بھی پروان چڑھائیں جبکہ اس نے کٹھ پتلی کابل انتظامیہ کے ساتھ ملی بھگت کرکے افغان سرزمین کو بھی پاکستان میں دہشت گردی کیلئے استعمال کیا۔

دہشت گردی کی اس جنگ میں گزشتہ دس سال سے افواج پاکستان اپنی دھرتی پر مختلف اپریشنز کے ذریعے انہی بھارتی سازشوں کا توڑ کررہی ہیں جبکہ بھارتی تربیت یافتہ دہشت گردوں کی جانب سے بطور خاص ہماری سکیورٹی فورسز کے ارکان اور انکے دفاتر کے حساس مقامات کو ہدف بنایا جاتا رہا ہے۔ جی ایچ کیو سے کامرہ تک‘ کراچی نیول ہیڈکوارٹرسے پشاور اور کراچی ایئرپورٹ تک اور واہگہ بارڈر لاہور سے اے پی ایس پشاور تک دہشت گردی کی ان سفاکانہ وارداتوں میں ہماری سکیورٹی فورسز کو ہی نشانہ بنایا گیا۔ اسی طرح کراچی کیڈٹ سکول کی بس اور لاہور میں ایف آئی اے اور آئی ایس آئی کے دفاتر کو بھی ٹارگٹ کرکے دہشت گردی کی بھیانک وارداتیں کی گئیں۔

اس ارض وطن پر دہشت گردوں کیخلاف اپریشنز کا آغاز پیپلزپارٹی کے دور حکومت میں ہوا تھا جب جنوبی وزیرستان کے علاقوں دیر‘ مالاکنڈ‘ سوات‘ خیبر اور مہمند ایجنسی اور بعض شمالی علاقہ جات میں اپریشن راہ راست اور پھر اپریشن راہ نجات کے ذریعہ دہشت گردوں کی کمر توڑی گئی۔ پھر مسلم لیگ (ن) کے دور میں کراچی میں ٹارگٹڈ اپریشن اور شمالی وزیرستان میں اپریشن ضرب عضب کا آغاز ہوا جس میں سانحۂ اے پی ایس پشاور کے بعد شدت آئی اور اسے اپریشن ردالفساد اور کومبنگ اپریشن میں تبدیل کرکے اس کا دائرہ پورے ملک میں پھیلایا گیا جبکہ پشاور اور اس سے ملحقہ علاقوں میں اپریشن خیبرفور کے ذریعہ دہشت گردوں کا بھرکس نکالنے کا کام تیز کیا گیا۔ یہ حقیقت اپنی جگہ پر مسلمہ ہے کہ ہمارے سکیورٹی اداروں میں موجود لیپس کے باعث بھی دہشتگردوں کو اپنے متعینہ اہداف تک پہنچنے اور دہشت گردی کی گھنائونی وارداتیں ڈالنے کا موقع ملتا رہا ہے۔ چنانچہ ان لیپس پر قابو پانے کی کوششیں بھی جاری رکھی گئیں جس سے دہشت گردوں کی کمر توڑنے اور انکے ٹھکانے تباہ کرنے میں مدد ملی اور دہشت گردوں نے اپنی ٹوٹی کمر کے ساتھ افغانستان میں راہ فرار اختیار کرنے میں ہی عافیت سمجھی۔ بدقسمتی سے کابل کے حکمرانوں نے بھارتی ایماء پر اپنی سرزمین پر موجود دہشت گردی کی نرسریوں کو خود ہی پھلنے پھولنے کا موقع فراہم کیا اور دہشت گردوں کے ان ٹھکانوں کے بارے میں ہماری سکیورٹی ایجنسیوں کی فراہم کردہ اطلاعات کے باوجود وہاں اپریشن سے گریز کیا گیا اور اسکے برعکس پاکستان کے ساتھ سرحدی کشیدگی بڑھانے میں کوئی کسر نہ چھوڑی گئی۔ اگر افغان حکومت اس خطہ کو دہشت گردی کے ناسور سے پاک کرنے میں مخلص ہوتی تو پاکستان کی معاونت سے افغانستان اپنی سرزمین پر دہشت گردی کا مکمل قلع قمع کردیتا مگر کابل انتظامیہ نے اپنے مفادات مکمل طور پر بھارت کے ساتھ وابستہ کرلئے تھے جس نے افغان سرزمین کو پاکستان کی سالمیت کیخلاف کارروائیوں کیلئے اپنی آماجگاہ بنایا ہوا تھا۔ اسکے باوجود ہماری سکیورٹی فورسز آخری دہشت گرد کے مارے جانے تک دہشت گردی کی جنگ جاری رکھنے کے عزم پر کاربند رہیں اور شہریوں کو تحفظ فراہم کرتے ہوئے اپنی قربانیوں کی داستانیں رقم کرتی رہیں۔

اس وقت جبکہ پاکستان کی معاونت سے امریکہ اور افغان طالبان کے نمائندوں کے مابین امن مذاکرات کامیابی سے ہمکنار ہوتے نظر آرہے ہیں اور پاکستان کی جانب سے پاک افغان سرحد کے 12 سو کلومیٹر سے زائد حساس علاقے میں زمینی باڑ لگانے کے منصوبہ کی تکمیل سے افغانستان سے دہشت گردوں کی نقل و حمل عملاً ختم ہونے کے امکانات قوی ہو رہے ہیں جس کی بنیاد پر پاک فوج کے ترجمان میجر جنرل آصف غفور نے دو روز قبل میڈیا ٹیم کی معیت میں شمالی وزیرستان کے دورافتادہ علاقوں میں جا کر دہشت گردی کی جنگ کے مقاصد پورے ہونے اور یہ جنگ ختم کرنے کا اعلان کیا تو اسکے اگلے ہی روز لورالائی (بلوچستان) میں ڈی آئی جی آفس کو دہشت گردی کی واردات کیلئے ٹارگٹ کرکے ہماری سکیورٹی فورسز کو دہشت گردی کی جنگ کا نیا چیلنج دیا گیا ہے جو بادی النظر میں ہمارے دشمن بھارت کی سازشوں کا ہی شاخسانہ ہے۔ تاہم ہمارے سکیورٹی اداروں نے جس جرأت و جانفشانی کے ساتھ اس واردات کے حوالے سے دہشت گردوں کے مذموم عزائم اپنی جانوں کا نذرانہ پیش کرکے ناکام بنائے‘ وہ درحقیقت ہمارے دشمن کیلئے ٹھوس پیغام ہے کہ ہماری سلامتی کیخلاف اسکی کوئی سازش کامیاب نہیں ہوسکتی۔ بے شک آج پوری قوم اپنی جری و بہادر عساکر پاکستان کے شانہ بشانہ ہے اور دفاع وطن کے تقاضے نبھانے کیلئے ملک کی تمام سول اور عسکری قیادتیں بھی ایک صفحے پر ہیں اس لئے یہ ارض وطن دہشت گردوں‘ انکے تمام سرپرستوں اور سہولت کاروں کا قبرستان بنے گی اور یہاں امن و آشتی کا راج ہوگا۔(بشکریہ نوائے وقت)

یہ بھی دیکھیں

مریم نواز ہی وزیراعلیٰ پنجاب کیوں بنیں گی؟

(نسیم حیدر) مسلم لیگ ن کی حکومت بنی تو پنجاب کی وزارت اعلیٰ کا تاج …