جمعرات , 18 اپریل 2024

سانحہ ساہیوال: تجزیہ

(سکندر خان بلوچ)

حادثات و سانحات انسانی اور قومی زندگی کا حصہ ہوتے ہیں۔جتنی بھی کوشش کی جائے مناسب پیش بندی سے ان سانحات کو شاید کم تو کیا جا سکتا ہے لیکن مکمل طور پرروکا نہیں جا سکتا۔ دنیا کے ترقی یافتہ ممالک میں بھی ایسے حادثات و سانحات رونما ہوتے رہتے ہیں۔ اسلام میں تو حادثات و سانحات اللہ تعالیٰ کی طرف سے انسانوں کے لئے اور قوموں کے لئے آزمائش ہوتے ہیں۔ہر حادثے یا سانحے میں اللہ تعالیٰ کی کوئی نہ کوئی حکمت پوشیدہ ہوتی ہے۔ حادثات و سانحات کی بھٹی سے نکل کر ہی قومیں کندن بنتی ہیں۔ اسی طرح سانحہ ساہیوال بھی ہمارے لئے اللہ تعالیٰ کی طرف سے وارننگ ہے۔ یہ اسلامی ملک میں ظلم و بر بریت کی انتہا ہے۔ اس پر جتنا بھی افسوس کیا جائے کم ہے ۔پوری قوم افسوس و غم میں ڈوبی ہے۔دعا گو ہیں کہ اللہ تعالیٰ اس سانحہ کے شہداء کی بخشش فرمائے اور پسماندگان کو صبر جمیل عطا فرمائے آمین!آئیں دیکھتے ہیں کہ اس اندوہناک سانحہ سے ہم کیا کچھ سیکھ سکتے ہیں اور کونسی بہتری کی امیدکی جا سکتی ہے۔

سب سے پہلی چیز جو اس سانحے سے سامنے آتی ہے وہ ’’ قومی شعور ‘‘ ہے ۔دن دیہاڑے کار کو روک کر اس پر گولیاں برسانا اور بے گناہ لوگوں کو شہید کرنا پولیس گردی کی انتہا تھی مگر اطمینان کی بات یہ ہے کہ ایک گھنٹے کے اندر اندر پورا قومی میڈیا چیخ اٹھا اور لوگ سڑکوں پر آگئے۔ پورے ملک میں مظاہرے شروع ہو گئے ۔یہ قومی یکجہتی اور قومی شعور کی اعلیٰ مثال تھی۔ اس اندوہناک سانحے کے خلاف پورے ملک میں غم و غصہ اور جلوس ایک زندہ قوم ہونے کا ثبوت تھا۔ یہ واقعی ایک نئے پاکستان کی نشانی ہے کہ قوم جاگ چکی ہے۔کسی قسم کی نا انصافی برداشت کرنے کے لئے تیار نہیں اور یہ مظاہرے کراچی سے پشاور تک دیکھنے کو ملے۔اس سے بڑی بھلا قومی یکجہتی کی مثال کیا ہو سکتی ہے ۔عوام کے ردعمل نے حکومت کو فوری کاروائی کرنے پر مجبور کردیا ۔وزیر اعلیٰ پنجاب کو میانوالی میں اپنی تما م مصروفیات ختم کر کے فوری طور پر ساہیوال پہنچنا پڑا۔ سی ٹی ڈی کے ملزمان کو اسی وقت حراست میں لے لیا گیا۔ ایف آئی آر کاٹی گئی۔جے آئی ٹی بھی بنائی گئی اور فوری طور پر تفتیشی کاروائی شروع ہو گئی۔ پریس نے بھی معاملہ بہت مئوثر انداز میں اٹھایا۔

یہاں دوسری چیز جو دیکھنے میں آئی وہ حکومتی رویہ تھا۔ پبلک پریشر اتنا پرزور تھا کہ حکومت گھبراہٹ کا شکار ہو گئی۔ گو عمران خان نے دوحہ میں اپنے بیان میں کہا تھا کہ ’’ مجھے پریشر میں کھیلنا آتا ہے ‘‘ شاید صحیح ہو لیکن اسکی ٹیم اس خصوصیت سے عاری نظر آئی۔اس سانحہ میں حکومت کو ’’ فرنٹ فٹ ‘‘ پر کھیلنا چاہئے تھا ۔مقتولین کو انصاف دلانے کے لئے حکومت کو عوام کے ساتھ مل کر لیڈ کرنا چاہئیے تھا مگر حکومت مکمل طور پر بوکھلاہٹ کا شکار ہو کر ایک طرح سے مفلوج ہو گئی۔ ہر حکومتی وزیر نے اپنی اپنی سوچ کے مطابق بیان بازی شروع کر دی اور یہ تمام بیانات بے ربط اور غیر مئوثر ثابت ہوئے کیونکہ کسی ایک وزیر کا بیان دوسرے وزیر سے نہیں ملتا تھا ۔جو کسی کے دل میں آتا بول دیتا۔سب سے تکلیف دہ کام جناب راجہ بشارت صاحب وزیر قانون پنجاب نے کیا انہوں نے بڑی عوام کو جھٹلا کر سی ٹی ڈی کا حملہ جائز قرار دیا۔راجہ صاحب کے بیان نے عوامی جذبات کو مزید ہوا دی۔ عوام نے اس بیان کو نفرت سے لیا اور تاثر یہ ملا کہ حکومت پولیس کو بچا رہی ہے ۔ بقیہ رہی سہی کسر اپوزیشن ارکان نے نکال دی۔انہیں بھی اس بات کی کوئی پرواہ نہیں تھی کہ یہ ایک قومی سانحہ ہے ۔انہیں تو حکومت کو بدنام کرنے اور حکومت پر وار کرنے کا ایک اور سنہری موقع ہاتھ آیا اور انہوں نے قوم کے زخموں پر مرحم رکھنے کی بجائے نمک پاشی کی۔کم از کم قومی سانحات میں تو ایسا نہیں ہونا چاہیئے۔

سانحہ ساہیوال میں تیسری تکلیف دہ بات جو سامنے آئی ہے وہ پولیس اور انٹیلیجنس کا رویہ ہے۔ اسی کا نام پولیس گردی ہے۔پولیس ایک بہت ہی ذمہ دار ادارہ ہے جو ملک میں امن و امان قائم رکھنے کا ذمہ دار ہے۔امن و امان کا قیام اتنا حساس معاملہ ہے کہ اس کے لئے پولیس کو بہترین دماغ، بہترین تربیت اور موقع پر بہترین فیصلے کرنے کی ضرورت ہے۔ ایک اسرائیلی پولیس چیف نے کہا تھا :” دوسرے محکموں میں تو اوسط درجے کے لوگ بھی چل جاتے ہیں مگر پولیس میں صرف بہترین دماغ ہی کامیاب ہوتے ہیں۔ ایسے دماغ جو موقع واردات پر صحیح اور غلط کا فیصلہ کر سکیں “۔بد قسمتی سے یہی وہ کوالٹی ہے جو ہمیں اپنی پولیس میں نظر نہیں آتی اور اسکی سب سے بڑی وجہ سیاسی بھرتیاں ہیں۔قوم کو پتہ ہے کہ ہمارے سیاسی راہنما ڈی ایس پی تک اسامیاں اپنے سیاسی ورکرز کو رشوت کے طور پر دیتے رہتے ہیں جہاں وہ اپنی مرضی کے بندے لا کر بھرتی کراتے ہیں۔ شنید ہے کہ سندھ میں تو عادی مجرم اور چور ڈاکو بھی پولیس میں بھرتی کرائے گئے۔پھر ایسے لوگوں سے کس قسم کی کارکردگی کی توقع کی جا سکتی ہے ۔اسی لئے جعلی مقابلوں کادور شروع ہوا اور ہر جعلی مقابلے کی پشت پر کوئی نہ کوئی سیاسی مقصد ہوتا ہے۔ پنجاب میں ایسے مقابلے جناب شہباز شریف کے سابق دور میں شروع ہوئے تھے۔اس سانحہ میں بھی یقیناً دہشتگردوں کی اطلاع ضرور تھی مگر پولیس اور انٹیلی جنس ایجنسیوں کے مکمل تعاون اور کوارڈینیشن کی کمی نظر آتی ہے۔ یا تو انٹیلی جنس ایجنسی مکمل تفصیل دینے میں ناکام رہی یا پھر پولیس پوری طرح اس کیس کو سمجھ نہیں سکی اور نتیجتاً بے گناہ لوگ زندگی سے ہاتھ دھو بیٹھے اور پولیس والے بھی پھانسی کے پھندے میں لٹکتے نظر آتے ہیں۔ جس ایس ایس پی نے سی ٹی ڈی اہلکاروں کو دہشتگردوں کو مارنے کا حکم دیا وہ موقع پر موجود ہی نہیں تھا اور جو اہلکار اس حکم کی تعمیل کررہے تھے ان میں اتنی بصیرت نہ تھی کہ دہشتگردوں اور معصوم لوگوں میں فرق سمجھنے کی کوشش کرتے۔ چار بے گناہ شہریوں کو دس گز کے فاصلے سے مارنے کے لئے کار کو گولیوں سے چھلنی کردیا۔

اس سانحہ کا ایک پر امید پہلو جس کا عندیہ حال ہی میں وزیر اعظم صاحب نے دیا ہے وہ ہے پولیس کی اصلاح خصوصاً اسے سیاست یا سیاسی دخل اندازی سے پاک کرنا۔ خان صاحب نے یہ کام اپنی حکمرانی کے پہلے سو دنوں میں کرنے کا وعدہ کیا تھا۔ اس مقصد کے لئے وہ صوبہ خیبر پختونخواہ کے سابق آئی جی جناب درانی صاحب کو لے بھی آئے مگر جب درانی صاحب نے پنجاب پولیس کی حالت دیکھی ۔ وزراءاور ممبران کی پولیس میں دخل اندازی دیکھی تو انہوں نے بھی ہاتھ کھڑے کر دئیے۔استعفیٰ دے کر گھر جا بیٹھے۔ان کے جانے کے بعد معاملہ ٹھنڈا پڑ گیا۔ مگر اس سانحہ نے ایک دفعہ پھر حکومت اور قوم کو پولیس کے کردار کے متعلق جھنجھوڑ کر رکھ دیا ہے۔ اب اصلاحات کے بغیر چارہ ہی نہیں۔ وزیر اعظم صاحب اپنے مقصد میں پر عزم نظر آتے ہیں لیکن پولیس میں اصلاحات نافذ کرنا ہمالیہ سر کرنے کے مترادف ہے ۔پنجاب کے تمام سیاستدان اپنی سیاست تھانیدار اور پٹواریوں کے سروں پر چمکاتے ہیں ۔ا گر یہ دونوں بیساکھیاں ان سے چھین لی جائیں تو ان کی تمام سیاست زمین بوس ہو جاتی ہے۔ میرا نہیں خیال کہ وہ خانصاحب کو ایسا کرنے دیں گے۔خان صاحب نے پہلے وعدہ کیا تھا کہ وہ ممبران کے ترقیاتی فنڈز بند کر دیں گے مگر ا یسا نہیں ہو سکا۔ فنڈز کے ساتھ ساتھ سفری واؤچرز تک دینے پڑے اور اب وہ اپنی تنخواہ اورمراعات بھی بڑھا رہے ہیں اور انہیں روکنا ممکن نظر نہیں آتا۔قوم مرے یا جئے ممبران اسمبلی اپنی مراعات سے پیچھے نہیں ہٹتے۔خدا کرے کہ اصلاحات ہوں لیکن ان لوگوں کی موجودگی میں پولیس اصلاحات سامنے لانا اور پھر ان پر عمل کرنا کسی معجزے سے کم نہ ہوگا۔ (ختم شد)

یہ بھی دیکھیں

مریم نواز ہی وزیراعلیٰ پنجاب کیوں بنیں گی؟

(نسیم حیدر) مسلم لیگ ن کی حکومت بنی تو پنجاب کی وزارت اعلیٰ کا تاج …