جمعہ , 19 اپریل 2024

نیاپاکستان… پسماندگی‘ بیماریوں سے نجات کب؟

(بلقیس ریاض)

پس ماندگی‘ جہالت‘ غربت اور بیماری ہمارے ملک کا مقدر بن چکی ہے۔ ایک یا دو فیصد آبادی کو زندگی کی تمام سہولیتں میسر ہیں۔ تعلیم کا حال بتدریج زوال پذیر ہو گیا ہے۔ بلکہ ٹوپھوٹ کا شکار ہے۔ امتحان کے نظام کی طرح اصلاح کے آثار نظر نہیں آ رہے ہیں۔ جانے کب اہل اقتدار اور بااثر سرمایہ داروں کی بے حسی ختم ہوگی۔ لاہور میں گنگارام ہستال‘ جانکی دیوی ہسپتال‘ میو ہسپتال اسی قسم کے کئی ہسپتال زوال پذیر ہیں۔ یہ درست ہے کچھ لوگوں نے پرائیوٹ ہسپتال کھول رکھے ہیں۔ لیکن بڑے دکھ سے کہنا پڑتا ہے ان کا مقصد صرف پیسہ کمانا ہے۔ مگر طبی سہولتوں کا فقدان خون کے آنسو رلاتا ہے۔ گلاب دیوی ٹی بی کا ہسپتال ہے۔۔ وہاں پہنچ کر یوں لگا جیسے زندہ لوگوں کا قبرستان ہے۔ جہاں بچے‘ بوڑھے اور جوان مریض اپنی زندگیوں کا بوجھ اٹھائے اس امید سے جی رہے ہیں کہ جلد ٹھیک ہو کر اپنے گھروں کو لوٹ جائیں گے مگر کون جانے صحت کی دیوی کس پر مہربان ہوگی اور کسے تندرستی کے عالم میں اپنے گھروں کو لوٹنا نصیب ہوگا۔

کافی سرکاری ہسپتالوں کو دیکھ چکی ہوں۔ جہاں علاج کروانے کیلئے بڑی بڑی سفارشیں درکار ہوتی ہیں۔ وہی حساب‘ اگر سفارش ہے تو اچھے سکول یا کالج میں داخلہ مل جائے گا اور اگر جان پہچان نہیں تو زندگی کے ہر شعبے میں آپ کو مشکلات کا سامنا کرنا پڑے گا۔ بات ہو رہی تھی ہمارے ملک کے ہسپتالوں کی جہاں پر غریب نادار اور مسکین لوگوں کی ادویات بیچ دی جاتی ہیںاور اگر ان کو مفت دوائیاں ملتی ہیں تو وہ سب کی سب جعلی ۔ جہاں ایک اچھے کھاتے پیتے شخص کا ہسپتال میں علاج کروانا مشکل ہوتا ہے وہاں ایک غریب کی کیا وقعت ہوتی ہے۔ لاہور‘ اسلام آباد اور دیگر بڑے شہروں کے ہسپتالوں میں کھانا اگر بہتر نہیں تو نہ سہی مگر مریض کو کھانا ضرور مل جاتا ہے۔ چاہے اس کھانے میں ریت ہو یا مٹی۔ مگر کوئی مریض بھوکا نہیں رہتا۔

اسی ہسپتال کی حالت زار کو دیکھ کر کسی سپیشلسٹ سے بات ہوئی تو اس نے بتایا کہ غریبوں کا علاج مفت کیا جاتا ہے مگر بڑی مشکل کا سامنا کرنا پڑتا ہے۔ کیونکہ ہمارے پاس فنڈ نہیں ہیں۔ یہ بات تو ڈاکٹر صاحب نے کردی مگر میں کہنے پر مجبور ہوں کہ اس ملک میں صرف غریبوں کیلئے فنڈز نہیں ہیں۔ اس ملک کی بہتری کیلئے ہم سب کو اپنا کردار ادا کرنا چاہئے۔ اب لاہور کو ہی لے لیجئے۔ گزشتہ حکومت نے لاہور میں نہ صرف اچھے پارک بنائے بلکہ لاہور کا نقشہ بدل دیا۔ ٹوٹی پھوٹی سڑکوں کو بحال کیا۔ میٹرو بنائی۔ لیکن غریبوں کیلئے کیا کیا۔ نہ اچھے سکول بنائے اور نہ ہی ابتر حال ہسپتالوں پر توجہ دی۔ ملک کو سنوارنے کی دلچسپی لی جا رہی تھی۔ تو غریب عوام کیلئے بھی کچھ سوچنا ضروری تھا۔ کسی نے سوچا اور جانا ہے کہ غریب لوگ بھی اس جہاں میں بستے ہیں۔ وہ اس ملک کے شہری ہیں۔ ان کا بھی اتنا حق ہے جتنا کہ ایک اعلی عہدے کے آفیسر یا کسی رئیس آدمی کا۔ سو ہر شہری اس ملک کی سہولتوں کا حقدار ہے۔ بہت سی قربانیاں دیکر اس ملک کو حاصل کیا گیا ہے۔ اس کو قائم رکھنے کیلئے خلوص نیت سے کام کرنے کی ضرورت ہے۔ہمارے صاحب اقتدار کو اس بات سے آگاہی ہونی چاہئے۔ انہی لوگوں کی ووٹوں سے وہ صاحب اقتدار بنے۔ چلو پچھلی حکومت نے تعلیم اور ہسپتالوں پر توجہ نہیں دی ہے تو نئی حکومت سے لوگوں کی امیدیں وابستہ ہیں لوگ سوچنے پر مجبور ہو گئے ہیں کہ آج جو نئی حکومت آئی ہے وہ ان کی غربت اور پریشانیوں کا خاتمہ کردے گی۔

باہر کے ملکوں کی حکومت نے بے روزگاروں اور بوڑھے لوگوں کیلئے ایسے ادارے قائم کئے ہیں جو شہر کے ہر ایریا میں نظر آئینگے۔ وہاں نہ صرف رہنے کیلئے جگہ ملتی ہے بلکہ کھانا پینا اور ہفتہ کے الائونسز ملتے ہیں۔ میرے دل میں خیال آتا تھا کہ کاش کوئی ایسا مسیحا آ جائے جو غریب لوگوں کو فٹ پاتھ اور درختوں کے سایوں تلے راتیں گزارنے سے نجات دلا سکے۔ انہیں بھی جینے کا پورا حق دے۔ امریکہ کے شیلٹر ہائوسز میں لوگ وقت پر پہنچ جائیں تو ان کو روٹی ضرور مل جاتی ہے۔ وہ مارے مارے نہیں پھرتے۔ سکون چین کی نیند سوتے ہیں۔ مگر افسوس سے کہنا پڑتا ہے کہ اپنے ملک میں ان لوگوں کیلئے کوئی سہولت میسر نہیں ہے۔ اس کا نتیجہ کیا نکلا۔ دہشت گردی‘ لوٹ کھسوٹ‘ ڈکیتی اور چور بازاری کا راج ہو گیا۔ ہر کوئی چاہتا ہے کہ کوئی ایسا ذریعہ اپنائیں جہاں خوراک کے علاوہ زندگی کی دیگر سہولتیں میسر ہوں۔ لہذا انہوں نے آسان گداگری اور چوری ڈکیتی کا کام شروع کردیا۔ ملک میں خوف و ہراس پھیل گیا ہے۔ بنکوں اور قومی بچت کے باہر لوگوں کو سرعام لوٹا جاتا ہے۔

اب اس بات کی خوشی ہو رہی ہے کہ لاہور کے مختلف علاقوں میں ان کی عارضی چار پناہ گاہیں قائم کی گئی ہیں۔ چلو کچھ تو غریب لوگوں کا ٹھکانا بنا۔ اسی طرح اگر ہسپتالوں کے بارے میں کوئی کام دکھائیں‘ اور مہنگائی کا گراف نیچے لائیں تو سمجھ لوں گی نیا پاکستان بننا شروع ہوا ہے اور ایک غریب بھی سکھ کی زندگی جی سکتا ہے۔

یہ بھی دیکھیں

مریم نواز ہی وزیراعلیٰ پنجاب کیوں بنیں گی؟

(نسیم حیدر) مسلم لیگ ن کی حکومت بنی تو پنجاب کی وزارت اعلیٰ کا تاج …