ہفتہ , 20 اپریل 2024

5فروری : صرف یومِ یکجہتی کشمیر نہیں ہے!

(تنویر قیصر شاہد )

ہر سال کی طرح اِس بار بھی، 5فروری2019ء کو، پورے پاکستان میں کشمیر اور کشمیریوں کے ساتھ ہر قسم کے اظہارِ یکجہتی کے لیے پاکستان کے بائیس کروڑ عوام اکٹھے ہو رہے ہیں ۔ اِس بار بھی اِس تاریخ کو قومی تعطیل ہو گی اور ہم سب یکجہت اور یکجان ہو کر مقبوضہ کشمیرمیں جاری کشمیریوں کی اخلاقی ، سیاسی و جہادی جدوجہد کی بھرپور حمایت کریں گے ۔

مقبوضہ کشمیر مذہبی، ثقافتی، سیاسی اور سماجی اعتبار سے پاکستان کا اٹوٹ انگ ہے ۔ کشمیری ہم سے اور ہم کشمیریوں سے جدا ہیں نہ جدا رہ سکتے ۔پچھلے سات عشروں سے پاکستان دُنیا کے ہر فورم اور ہر پلیٹ فارم پر کشمیریوں کی حمایت اور کشمیر پر بھارتی قبضے کی مخالفت کرتا آ رہا ہے ۔ کشمیر اور کشمیریوں سے جو کمٹمنٹ بانیِ پاکستان حضرت قائد اعظمؒ نے فرمائی تھی، پاکستان کا کوئی بھی حکمران اور شہری آج تک اِس سے پسپا ہُوا ہے نہ ہو سکتا ہے ۔مسئلہ کشمیر پر پاک بھارت خوفناک جنگیں بھی ہُوئی ہیں ، اِسی مسئلے کی اساس پر پاکستان نے اپنا مشرقی بازو بھی کٹوا ڈالا لیکن کشمیریوں سے پاکستان کی محبت اور وابستگی میں کوئی کمی نہیں آئی ہے ۔

دُنیا بجا طور پر ہمارے اِس استقلال پر حیران اور ششدر ہے ۔ دُنیا کے کئی دانشور اور سائنسدان اپنے سامعین و قارئین کو یہ کہہ کر بھی ڈراتے اور خوف میں مبتلا کرتے ہیں کہ چونکہ پاکستان اور بھارت دونوں ہی جوہری طاقتیں ہیں ، اسلیے مسئلہ کشمیر پر اب جب بھی جنگ ہو گی، نہائت ہلاکت خیز ہوگی۔ عالمی دانشور ڈراتے ہیں کہ اگر ایسا ہُوا تو پاکستان اور بھارت کی تباہی تو ہوگی ہی، باقی دُنیا بھی اس کے مہلک اثرات سے محفوظ نہیں رہ سکے گی۔

مستقبل کے بارے میں تو صرف خدا ہی بہتر جانتا ہے لیکن یہ تو دُنیا والے جان اور مان چکے ہیں کہ مسئلہ کشمیر فلیش پوائنٹ بن چکا ہے ۔ کونسا ایسا ظلم اور ستم ہے جو قابض بھارتی فوجوں نے کشمیریوں پر نہیں آزمایا لیکن بھارتی مظالم کے باوجود عالمی طاقتیں کشمیریوں کو بھارتی استبدادی پنجے سے نجات دلانے کے لیے قدم آ گے بڑھانے میں متردّد کیوں ہیں؟الحمد للہ، ہم کشمیریوں کے ساتھ کھڑے تھے، کھڑے ہیں اور کھڑے رہیں گے ۔ اللہ کا شکر ہے کہ عمران خان نے جب سے اقتدار سنبھالا ہے ، انھوں نے مسئلہ کشمیر مدھم نہیں ہونے دیا ۔ وہ اِن چھ مہینوں کے دوران دُنیا میں جہاں کہیں بھی گئے ہیں ، مسئلہ کشمیر اور کشمیریوں کی جدوجہد کا ذکر کرنے سے ہچکچائے ہیں نہ بھُولے ہیں ۔ اہلِ کشمیر بھی ہمارے وزیر اعظم کے اِس قوی بیانیے سے مطمئن ہے۔ پاکستان مسئلہ کشمیر کا سب سے بڑا فریق ہے ، اسلیے عمران خا ن کو دھڑلّے اور دلاوری کے ساتھ دُنیا کے سامنے مسئلہ کشمیر اور کشمیریوں کی حقِ خود ارادیت کا پرچم بلند کرتے رہنا چاہیے۔

پاکستان سال کے بارہ مہینے اور 365دن کشمیر اور کشمیریوں کا نام لیتا ہے تو بھارت کو تکلیف ہوتی ہے ۔ پانچ فروری کو سرکاری سطح پر بھی ’’یوم یکجہتی کشمیر‘‘ کا اہتمام کیا جاتا ہے تو بھی بھارت کئی اذیتوں سے گزرتا ہے۔ ہم بھارت اور بھارتیوں کی یہ تکلیف بخوبی سمجھتے ہیں لیکن امرِواقعہ یہ ہے کہ ہمارے ’’پیارے‘‘ ہمسائے نے یہ تکلیف خوا مخواہ پال رکھی ہے۔ کشمیر کے جنت نظیر پلاٹ پر اُس کاقبضہ نہ کشمیریوں کو قبول ہے، نہ پاکستان کو اور نہ ہی دُنیا کو ۔ بھارت کی سات لاکھ فوجوں کو بھی مقبوضہ کشمیر سے اُسی طرح نکلنا ہے جیسے اب امریکی فوجوں کو مقبوضہ افغانستان سے نکلنا پڑ رہا ہے۔ خدا کا شکر ہے کہ مسئلہ کشمیر کے حوالے سے ہمارے وزیر اعظم اور ہمارے وزیر خارجہ میں کامل ہم آہنگی ہے۔

بھارت کی آنکھ میں عمران خان اور شاہ محمود قریشی کی یہ ہم آہنگی بھی کانٹے کی طرح کھٹک رہی ہے ۔چند دن پہلے ہمارے وزیر خارجہ شاہ محمود قریشی نے مقبوضہ کشمیر کے ممتاز حریت پسند لیڈر، میر واعظ عمر فاروق، کو ایک بے ضرر سافون کیا کرلیا، بھارت کے تن بدن میں آگ ہی تو لگ گئی۔ جھٹ نئی دہلی میں پاکستان کے ہائی کمشنر کو طلب کرکے احتجاج کر ڈالا۔ پاکستان نے بھی اس کا ترنت جواب دیا ہے۔ ہماری بہادر سیکریٹری خارجہ ، محترمہ تہمینہ جنجوعہ، نے بھی اسلام آباد میں بروئے کار بھارتی ہائی کمشنر کو اپنے دفتر بلا کر باز پرس کی ہے۔ دوسری طرف میر واعظ نے مسئلہ کشمیر کے حل کے لیے عمران حکومت کے اقدامات کی تحسین کرتے ہُوئے بجا کہا ہے: ’’جب بھارت بھی یہی سمجھتا ہے کہ مسئلہ کشمیر بات چیت سے حل ہوگا تو قریشی صاحب کی فون کال پر بھارت کو چیں بہ جبیں نہیں ہونا چاہیے تھا۔‘‘ اوربھارتی بد اخلاقی کا یہ عالم ہے کہ اُس نے میر واعظ کو ’’دہشتگرد‘‘ کہہ ڈالا ہے، حالانکہ وہ تو پُر امن جدوجہد کررہے ہیں۔

مستحسن بات یہ ہے کہ اِس بار پاکستان ‘‘یومِ یکجہتی کشمیر‘‘ کا اہتمام برطانیہ میں بھی کررہا ہے۔ مسئلہ کشمیر اور کشمیریوں پر ڈھائے جانے والے مظالم کے حوالے سے، لندن میں، چار اور پانچ فروری کو ایک بڑی نمائش بھی کی جارہی ہے۔ اِسی حوالے سے برطانیہ کے دارالعوام میں بھی ایونٹ منعقد ہو رہے ہیں۔ وزیر خارجہ شاہ محمود قریشی بنفسِ نفیس4/5فروری کو لندن میں ہوں گے۔ یہی باتیں تھیں جو ٹیلی فون پر قریشی صاحب نے مقبوضہ کشمیر میں آل پارٹیز حریت پسند کانفرنس کی مرکزی شخصیت جناب میر واعظ عمر فاروق کو بتائی تھیں لیکن بھارت ایسے ہی بے جا بھڑک اُٹھا ہے ۔ بھارتی اسٹیبلشمنٹ کی خام خیالی ہے کہ وہ اس طرح دباؤ ڈال کر پاکستان کو کشمیریوں کی حمایت سے باز رکھ سکے گا۔ ہم سب اِس بار بھی بھرپور جوش و جذبے کے ساتھ پانچ فروری کو ’’یوم یکجہتی کشمیر‘‘ منا کر اسے تاریخ ساز بنانا چاہتے ہیں لیکن ذہن کے کسی کونے کھدرے میں یہ موہوم سا سوال اُٹھتا ہے کہ آیا مستقبل قریب میں مسئلہ کشمیر کا حل نکلنے کی کوئی توقع بھی ہے؟ کوئی اُمید، کوئی روشنی؟ امریکی ادارے اس کی فی الحال نفی کرتے دکھائی دیتے ہیں اور یہ بھی کہتے ہیں کہ مسئلہ کشمیر پر حالات مزید خراب ہونے کے اندیشے موجود ہیں۔

مثال کے طور پر 2فروری2019ء کو امریکی نیشنل انٹیلی جنس کے ڈائریکٹر ڈینیل کوٹس (Daniel Coats) نے امریکی سینیٹ کی سلیکٹ کمیٹی کے رُوبرو کہا ہے کہ ’’رواں سال مئی ، جون تک پاک افغان تعلقات ٹھیک ہوں گے نہ پاک، بھارت۔(مقبوضہ) کشمیر کے حالات بھی زیادہ بگڑ سکتے ہیں۔‘‘ اِنہی مہینوں کے دوران بھارت میں پارلیمانی اور افغانستان میں صدارتی انتخابات کا یُدھ پڑنے والا ہے۔ لیکن اِس دوران کشمیری تو اپنی جدوجہد سے دستکش نہیں ہوں گے ۔ ہر گز نہیں ۔ یہ بات مگر واضح ہوجانی چاہیے کہ بھارت کو کشمیر پر اپنا قبضہ جمائے رکھنے کے لیے ایڑی چوٹی کا زور لگانا پڑ رہا ہے ۔

اُس کی سانسیں بھی پھُول رہی ہیں اور مجاہدینِ کشمیر کے ہاتھوں غاصب و قابض بھارتی فوجیوں کی جو جانیں تلف ہو رہی ہیں، وہ الگ ایک مہیب خسارہ ہے۔ مقبوضہ کشمیر میں متعین بھارتی سیکیورٹی فورسز کے اضطراب اور پریشانیاںروز افزوں ہیں۔ مقبوضہ کشمیر کے ممتاز اخبار نویس جناب افتخار گیلانی ( جنہوں نے اپنی جاندار صحافت اور تصنیفات کی بنیاد پر بھارتی میڈیا میں بھی نمایاں مقام بنایا ہے)نے اپنے ایک حالیہ آرٹیکل (ترجمان القرآن ، شمارہ جنوری 2019ء) میں انکشاف کیا ہے کہ ’’بھارتی حکومت کو کشمیر پر اپنا قبضہ برقرار رکھنے کے لیے روزانہ سات ارب روپے خرچ کرنا پڑ رہے ہیں۔‘‘اس پس منظر میں یہ بات حق الیقین کے ساتھ کہی جا سکتی ہے کہ مقبوضہ کشمیر میں حریت پسندوں کے خون کا ایک قطرہ بھی رائیگاں نہیں جارہا۔ یومِ یکجہتی کشمیر کا ایک حوصلہ افزا پیغام یہ بھی ہے!!

یہ بھی دیکھیں

مریم نواز ہی وزیراعلیٰ پنجاب کیوں بنیں گی؟

(نسیم حیدر) مسلم لیگ ن کی حکومت بنی تو پنجاب کی وزارت اعلیٰ کا تاج …