ہفتہ , 20 اپریل 2024

ایرانی انقلاب نے دنیا کو کونسا ماڈل دیا؟

(عرفان علی)

چالیس برس پہلے آنے والے ایرانی انقلاب نے کون سا ایسا ماڈل تشکیل دینے کی کوشش کی کہ جس سے باقی دنیا یا خود عام ایرانی متاثر ہوسکے، یہ سوال مشہور و مقبول کالم نگار وسعت اللہ خان صاحب نے اپنی ایک تحریر میں اٹھایا ہے، جس میں انہوں نے تعلیم، صحت و مواصلات کے شعبوں میں عام ایرانی کو سہولیات فراہم کرنے پر ایران کی تعریف بھی کی ہے، لیکن تحریر کے پہلے حصے میں فرانس، چین اور روس کے انقلابات سے موازنہ کرتے وقت یہ سوال اٹھایا، جو شروع میں نقل کیا گیا ہے۔ انکی یہ تحریر سوشل میڈیا پر زیر گردش رہی اور ایرانی انقلاب کے حامیوں کی طرف سے بھی خواص کی رائے طلب کی گئی۔ چونکہ یہ سوال راقم الحروف تک بھی پہنچایا گیا ہے، اس لئے اس حوالے سے چند نکات پیش خدمت ہیں۔ اصل میں ایرانی انقلاب سے پہلے کے تین نہیں بلکہ مذکورہ تین کے علاوہ بھی جو انقلابات ہیں، انکی تاریخ کا اگر ایک ایک پیراگراف کا اختصاریہ ہی پڑھ لیا جائے تو ایرانی انقلاب نے دنیا کو کونسا ماڈل دیا، یہ سوال بنتا ہی نہیں ہے۔ اصل سوال یہ ہے کہ کیا دیگر انقلابات نے پہلے چالیس برسوں میں وہ سب کچھ اپنے عوام یا دنیا کو دے دیا، جو ایرانی انقلاب نے دے دیا ہے۔

ایران میں یہ ایام انقلاب اسلامی کی سالگرہ کے ایام ہیں، اس مناسبت سے بی بی سی اردو نے ایک نیا شوشہ چھوڑا ہے کہ امام خمینی کے ساتھ طیارے میں کون آیا اور انکے ساتھ کیا ہوا۔ بی بی سی اردو سے کوئی یہ تو پوچھے کہ تاج و تخت برطانیہ نے ایران اور ایرانیوں، موجودہ بھارت و پاکستان اور یہاں کے عوام کے ساتھ کیا کیا اور جنہوں نے برطانوی سامراج کے خلاف مقاومت کی انکے ساتھ برطانوی و امریکی سامراج نے کیا کیا؟ چلیں معلومات عامہ کا سوال کرتے ہیں، پاکستان، بھارت یا مشرق وسطیٰ میں ریفرنڈم کروالیں، سروے کروالیں، سوال یہ پوچھا جائے کہ فرانس، چین، سوویت یونین اور ریاست ہائے متحدہ امریکا کے بانیان انقلاب، بانیان و بابائے قوم کے نام کیا ہیں اور ہر ملک کے سامنے پانچ خانے خالی چھوڑ دیں۔ جب اس ریفرنڈم یا سروے کا نتیجہ سامنے آجائے، تب مان لیجیے گا کہ یہ انقلابات تاریخ کے کہنہ صفحات کا رزق بن چکے ہیں۔ اب بات کرتے ہیں انقلاب کے مختلف ماڈلز کی۔ مثال کے طور پر ریاستہائے متحدہ امریکا کے قیام کو امریکی انقلاب کہا جاتا ہے کیونکہ وہاں برطانوی سامراج کی نو آبادیات قرار دیئے گئے علاقوں میں بغاوت ہوئی، انہوں نے آزادی حاصل کی، اس لئے وہ اسے جنگ آزادی کے ساتھ ساتھ امریکی انقلاب بھی کہتے ہیں۔ یعنی 1775ء تا 1783ء، انکی انقلابی جدوجہد، جنگ آزادی یا انقلاب کہلائی۔

دلچسپ نکتہ یہ ہے کہ اس وقت کی دیگر دو عالمی سامراجی مملکتیں اسپین اور فرانس اس امریکی انقلاب کی مدد کر رہے تھے، برطانوی سامراج کے خلاف ان دنوں نہ صرف فرانس اور اسپین بلکہ ہالینڈ سامراج بھی جنگوں میں مصروف تھے۔ یعنی امریکی انقلابیوں کو ایک سامراج کے خلاف دیگر سامراج کی سرپرستی حاصل تھی۔ اب اگر اس امریکی انقلاب کا موازنہ ایرانی انقلاب سے کریں تو یہاں تو ساری عالمی طاقتیں ہی خلاف تھیں اور خود ایران کے وہ انقلابی کہ جو عوام کی غالب حمایت سے بالآخر ایران کو اسلامی جمہوریہ بنانے میں کامیاب ہوئے، وہ تو خود بائی پولر دنیا میں عالمی طاقت کے دونوں مراکز یعنی امریکا اور سوویت یونین، ان دونوں ہی کے خلاف تھے اور صدام نے ایران پر جو جنگ مسلط کی تھی، اس وقت تو پوری دنیا ہی یا صدام کے ساتھ تھی یا پھر لاتعلق تھی، ایران کا ساتھ تو کسی نے نہیں دیا تھا۔ ایرانی انقلاب کے مقابلے پر امریکی انقلاب کس طرح ماڈل قرار دیا جاسکتا ہے۔؟ کیا انقلاب کے بعد ریاست ہائے متحدہ امریکا میں غلامی ختم ہوگئی؟ کیا خواتین کو حقوق مل گئے؟ کیا سیاہ فام امریکیوں کو برابر کے حقوق مل گئے تھے؟ ان سبھی سوالات کا جواب ہے ہرگز نہیں! بلکہ اڑھائی صدی گذر جانے کے بعد بھی امریکی وقتاً فوقتاً مسلمانوں، ایشیائی باشندوں، افریقی نژاد امریکیوں یا ریڈ انڈین ہسپانوی نژاد باشندوں کے خلاف اقدامات میں مصروف رہتے ہیں۔ تعلیم، صحت اور روزگار میں انکے ساتھ امتیازی سلوک روا رکھا جاتا ہے۔

چلئے فرانس کے انقلاب کی بات کرتے ہیں۔ اٹھارہویں صدی میں 1787ء تا 1799ء انقلاب فرانس کی بات کریں یا جولائی 1830ء والے یا پھر 1848ء والے انقلاب کی؟ کس انقلاب فرانس کو کونسا ماڈل مانیں؟ پہلے انقلاب فرانس کے بعد 1792ء میں بادشاہ لوئی اور ملکہ کو گرفتار کرکے قید کر لیا گیا اور اگلے مہینے بادشاہت ختم کر دی گئی۔ اسکے بعد جو کچھ فرانس پر گذری اور وولٹیر اور روسو سے متاثر نیپولین بونا پارٹ کے حکمران بننے تک فرانس کو کن سخت ترین مراحل سے گذرنا پڑا اور پھر بونا پارٹ کا آنا اور نپولین کوڈ کا نفاذ، اس چوں چوں کے مربے نظام اور شہنشاہ بونا پارٹ کی حکمرانی کونسا ایسا ماڈل تھا یا ہوسکتا ہے، جس کا موازنہ ایران کے انقلابی ماڈل سے کرسکیں۔ فرانسیسی انقلاب کے بعد کے چالیس سال اور ایرانی انقلاب کے بعد کے چالیس سال، دور دور تک کوئی موازنہ بنتا ہی نہیں۔ فرانس کہنے کو ری پبلک بنا، لیکن کیا کسی کو معلوم بھی ہے کہ اسکی سیاسی ٹرانزیشن کا مرحلہ کتنے عرصے تک جاری رہا۔ 1799ء میں آٹھویں سال کے دستور کے تحت ایک حکومت قائم کی گئی اور اس میں انتظامیہ یعنی حکومت تین قونصل پر مشتمل قونصلیٹ کہلاتی تھی جبکہ بقیہ دو قونصل بے اختیار تھے، کیونکہ طاقت کا سرچشمہ صرف قونصل نپولین بونا پارٹ تھا۔ 1799ء سے 1804ء تک یہ حکومت یا قونصلیٹ قائم رہی تو اس دوران عوامی نمائندگی یا مقننہ کی بالادستی کا اصول ختم کر دیا گیا اور حکومت ہی کو نئے قوانین بنانے کا اختیار دیا گیا جبکہ مقننہ کی حیثیت ربڑ اسٹیمپ کی رہی۔

اس طرح 1804ء میں نپولین بونا پارٹ فرانس کا شہنشاہ بن گیا۔ یعنی پہلے فرانس میں حکمران کنگ یعنی بادشاہ ہوتا تھا اور انقلاب کے بعد حکمران ایمپیرر یعنی شہنشاہ یا امپراطور ہوگیا اور آج کی سیاسی اصطلاح میں بونا پارٹ ایک فوجی ڈکٹیٹر بھی تھا۔ یعنی یک نہ شد دو شد۔ فرانس کے بادشاہ لوئی شانزدھم کے بیٹے لوئی ہفدھم کے بارے میں کہا جاتا ہے کہ وہ دس سال کی عمر میں ٹی بی کے مرض کی وجہ سے مرگیا تھا۔ یعنی وہ لقب کے لحاظ سے تو شاہ فرانس ھفدھم تھا لیکن عملاً کچھ بھی نہیں تھا۔ معزول شاہ فرانس کا بھائی لوئی ھیجدھم نے اپنے بھتیجے کے انتقال کے بعد خود کو شاہ فرانس قرار دیا۔ یاد رہے کہ شہنشاہ نپولین بوناپارٹ کو 1813ء سے شکستوں کا سامنا تھا۔ لوئی ھیجدھم اس دوران فرانسیسی عوام کو یقین دلاتا رہا کہ وہ انقلاب فرانس کے ان وعدوں پر عمل کرے گا، جن پر نپولین اور اسکے ساتھی انقلابیوں نے عمل نہیں کیا تھا۔ یوں مئی 1814ء میں اس نے فرانس میں آئینی بادشاہت قائم کی۔ مئی 1814ء سے مارچ 1815ء تک اسکی بادشاہت رہی، پھر نپولین دوبارہ برسرااقتدار آیا اور واٹر لو میں اسکی شکست کے بعد دوبارہ لوئی ھیجدھم بادشاہ بن گیا، یوں اسکا دور حکومت 1824ء تک جاری رہا۔

انقلاب فرانس کے بعد فرانس برائے نام فرسٹ ری پبلک بنا یعنی پہلا جمہوریہ، لیکن اس دوران بھی نپولین کی ڈکٹیٹر شپ میں ہی رہا اور 1804ء میں فرانس دوبارہ ایمپائر یعنی سلطنت بن گیا۔ اٹھارہویں لوئی کے انتقال کے بعد اسکے بھائی چارلس دہم نے فرانس پر بادشاہت کی۔ اسکو بھی بادشاہت سے معزول کیا گیا اور جولائی 1830ء میں لوئی فلپ بادشاہ بن گیا، جس نے خود کو فرانس کی بجائے فرانسیسیوں کا بادشاہ کا لقب دیا۔ 1848ء میں پورے یورپ میں انقلاب کی لہر آئی ہوئی تھی، اسکے نتیجے میں لوئی فلپ کی بادشاہت ختم ہوئی تو فرانس سیکنڈ ری پبلک یعنی دوسرا جمہوریہ بن گیا۔ 1852ء میں فرانس دوسری سلطنت بن گیا، پہلی سلطنت نپولین کے دور میں بنا تھا۔ نپولین بونا پارٹ یعنی نپولین اول کے بھائی لوئی بونا پارٹ کا بیٹا چارلس لوئی نپولین سوم کہلایا، جو پہلے سیکنڈ ری پبلک کا صدر تھا، اسکی اقتدار میں رہنے کی کوششیں ناکام رہیں تو اس نے بغاوت کرکے اقتدار پر قبضہ کرکے فرانس کو دوسری سلطنت قرار دے دیا۔ 1870-71ء کی فرانس جرمنی جنگ میں اسے شکست ہوئی۔ یوں فرانس کے انقلاب کی ناکامی کی ایک طویل لیکن حقیقی داستان ہے۔ انقلاب فرانس کے پہلے چالیس برسوں کا ایرانی انقلاب سے موازنہ کرلیں۔ ایران کے انقلاب نے عوام سے رائے طلب کی، عوام نے جمہوری اسلامی نظام کے حق میں ووٹ ڈالے اور حکومت قائم ہوگئی۔ اسلامی انقلاب اور اسکی انقلابی قیادت نے ملت ایران سے جو وعدے کئے تھے، اگر اس سے انحراف کیا ہے تو بتایا جائے؟ ملت ایران نے استقلال، آزادی، جمہوری اسلامی کے نعرے کے تحت امریکی و برطانوی سامراج کی آلہ کار بادشاہت و حکومت سے نجات حاصل کی تھی، اگر چالیس برسوں میں ایران نے استقلال، آزادی اور جمہوری اسلامی کو اپنے عمل سے ثابت نہیں کیا ہے تو دلیل پیش کریں۔

باقی روسی انقلاب بھی جتنی قسطوں میں ٹرانزیشن کے مراحل سے گذرا، فروری 1917ء کا انقلاب، مارچ میں روس کے بادشاہ یعنی نکولس دوم المعروف زار کی تخت و تاج سے دستبرداری، اسکے بھائی کا بادشاہ بننے سے انکار یعنی رومانوف موروثی اقتدار کا خاتمہ، اسکے بعد عبوری حکومت کا قیام، پھر لبرل اور سوویٹ نظریاتیوں کے اختلافات، چار مرتبہ عبوری حکومت کی تشکیل نو، کیرینسکی اور کورنیلوف کی گروہ بندیاں، بعد ازاں سوشلسٹ انقلابی پارٹی میں بائیں بازو رجحان رکھنے والوں کی علیحدگی، پھر بولشویک اور انکے اتحادی بائیں بازو کے سوشلسٹ انقلابیوں کا سوشلسٹ اور مینشویک پر حاوی ہوکر پیٹروگراڈ اور ماسکو کے سوویٹس میں اکثریت حاصل کر لینا۔ یعنی لینن کے بولشویک دھڑے کا اکتوبر میں اقتدار پر قبضہ کر لینا انقلاب روس کا دوسرا مرحلہ تھا۔ ولادیمیر لینن کا قریبی ساتھی ایل مارٹوف اس کا مخالف بن گیا تھا۔ اسی کے دھڑے کو مینشویک دھڑا قرار دیا گیا، اس نے لینن کی ڈکٹیٹر شپ پر اعتراضات کئے اور 1920ء میں سوویٹ روس کو خیرباد کہہ کر جرمنی کے دارالحکومت برلن میں تا دم مرگ قیام پذیر رہا۔ کیا لینن نے زار روس کے خلاف انقلاب برپا کیا تھا، جی نہیں بلکہ اکتوبر کا انقلاب تو خود سوشلسٹ انقلابی پارٹی کے رہنما الیگزینڈر کیرینسکی کی وزارت عظمیٰ کے تحت چلنے والی عبوری حکومت کے خلاف آیا تھا۔

کیرینسکی روپوش ہوا اور پھر مغربی یورپ کی طرف نقل مکانی پر مجبور ہوا۔ 1970ء میں امریکا میں وفات پا گیا۔ یہ تو ہوئے بولشویک کے مخالف، خود بانی انقلاب ولادیمیر لینن کے وفادار ساتھی لیون ٹراٹسکی کے ساتھ لینن کے جانشین حکمران جوزف اسٹالن نے کیا کیا، کبھی اس پر بھی کوئی تحریر آئی ہے۔ اسے عہدوں سے معزول کر دیا، 1929ء میں اسے جلا وطن کیا گیا اور بعد ازاں میسیکو سٹی میں اسٹالن کے کارندوں نے اسے قتل کر دیا۔ انقلاب 1917ء میں آیا اور روس یونین آف سوویٹ سوشلسٹ ریپلکس 1922ء میں بنا۔ ایران کے انقلابی ماڈل میں سیاسی ٹرانزیشن کا عمل اتنی قسطوں اور مراحل میں نہیں طے پایا تھا۔ ڈکٹیٹر شپ نہیں تھی بلکہ اسلامی جمہوریت تھی، ابوالحسن بنی صدر ایران کا پہلا صدر بنا تھا تو اسکو کسی آٹھویں ترمیم کے تحت حاصل اختیار کے ذریعے کسی جنرل ضیاء نے جونیجو بنا کر گھر نہیں بھیجا تھا اور نہ ہی جونیجو نے پاکستان کے ساتھ وہ خیانت کی تھی، جو بنی صدر نے ایران کے ساتھ کی تھی۔ اس کے باوجود بنی صدر کو امام خمینی نے کسی فرمان کے ذریعے نہیں بلکہ ایران کی منتخب پارلیمنٹ نے مواخذہ کرکے برطرف کیا تھا، حالانکہ امام خمینی بھی عوام ہی کے منتخب کردہ ریاستی حکمران تھے۔

امام خمینی کو آئینی اختیارات حاصل تھے اور شفاف طریقے سے وہ اختیارات عوامی مینڈیٹ کے ذریعے حاصل ہوئے تھے۔ وہ کسی جنرل ایوب، ضیاء یا یحیٰی کی طرح یا کسی لینن یا بوناپارٹ یا ری پبلک چین کے بابائے قوم اول سن یاٹ سین یا کمیونسٹ انقلاب کے بعد کے پیپلز ری پبلک آف چائنا کے بابائے قوم یا جدید چین کے بابائے قوم دوم چیئرمین ماؤزے تنگ کی طرح نہ تو بغاوت کرکے اور نہ ہی محدود خواص کا مینڈیٹ لے کر اپنی ملت کے قائد بنے تھے۔ چین کی بادشاہت 1912ء میں ختم ہوئی تھی، چیئرمین ماؤ 1949ء کے انقلاب کے نتیجے میں بابائے قوم بنے، چینی بادشاہ نے دباؤ پر دستبرداری کا اعلان کیا تھا، زار روس نے بھی یہی کیا تھا۔ تو چین کی بادشاہت ختم ہونے کے چالیس برسوں میں چین کے ساتھ کیا ہوا؟ ماؤزے تنگ کے آنے تک چین میں کیا ہوا؟ پھر انکے نظام حکومت میں گینگ آف فور یعنی چار کا ٹولہ جس میں چیئرمین ماؤ کی تیسری بیوی جیانگ چنگ بھی شامل تھی، اس نے کیا کیا۔ خود چینی ثقافتی انقلاب کے دوران جو کیا گیا، یا سوویٹائزیشن کے عمل میں سوویٹ انقلابیوں نے جو گل کھلائے، حتیٰ کہ فرانس کے انقلابیوں کی جو حکومت تھی، اس نے تو سرکاری سطح پر دہشت کے راج کو قائم کیا اور مستند اعداد و شمار کے مطابق تین لاکھ کو گرفتار کیا، سترہ ہزار کو سزائے موت دے کر مار دیا جبکہ دس ہزار افراد بغیر مقدمے کے جیلوں میں قید کے دوران مرگئے۔ ان ماڈلز نے تو لفظ انقلاب ہی کو شرما دیا۔

ایرانی انقلاب نے چالیس برسوں میں وہ سب کچھ نہیں کیا ہے، جو امریکا، فرانس، روس اور چین کے انقلابیوں نے کیا یا انکے بابایان قوم کے دور میں یا اسکے بعد ہوا۔ پاکستانی سفارتکار مختار مسعود نے انقلاب ایران کو وقوع پذیر ہوتے اپنی آنکھوں سے دیکھا تھا۔ الطاف گوہر نے امام خمینی سے خود انٹرویو کیا تھا۔ ان سے پوچھتے کہ انقلاب کیا ہے اور امام خمینی کس ہستی کا نام ہے! چین بادشاہت کے سقوط کے چالیس برسوں میں اپنے استقلال و آزادی کو ان معنوں میں قائم ہی نہیں رکھ پایا تھا، جیسے امام خمینی اور امام خامنہ ای کے ایران نے قائم رکھ کر دکھایا ہے اور یہی وجہ تھی کہ کمیونسٹوں کو قیام کرنا پڑا۔ فرانس کی مثال تو کافی حد تک تفصیل سے بیان کی ہے۔ ایران نے دنیا کو جو ماڈل دیا ہے اس کے لئے صفوی دور کے خاتمے کے بعد بتدریج ان کی کمزور بادشاہوں، سامراجی ممالک کی سازشوں اور اسکے نتیجے میں ایران کے رقبے کا سکڑ جانا، اسکے علاقوں کا اس سے کاٹ دیا جانا، اس کے وسائل پر دیگر ممالک کا تسلط ہو جانا، اسکے فیصلے دیگر ممالک میں ہونا، اس کی تاریخ کے اہم نکات پر مشتمل اگر ایک مختصر ٹائم لائن ہی دیکھ لی جائے تو لگ پتہ جائے گا کہ استقلال و آزادی کس شیر ببر کا نام ہے۔

ایرانی انقلاب نے بادشاہت کو ختم کرکے جو سیاسی نظام قائم کیا ہے، وہی چالیس برسوں سے قائم ہے۔ یہاں نہ رین آف ٹیرر ہے، نہ فرسٹ، سیکنڈ، تھرڈ ری پبلک اور نہ ہی فرسٹ سیکنڈ ایمپائر ہے، نہ ہی پہلے ری پبلک اور پھر پیپلز ری پبلک، نہ ہی پہلے سوشلسٹ پھر مینشویک اور پھر بولشویک اور سوویٹائزیشن۔ کم ترین وقت میں ٹرانزیشن۔ کم ترین وقت میں ایران کو آزاد و خود مختار بنا دینا، بیک وقت دنیا میں طاقت کے دونوں مراکز کی اخلاقی حیثیت کو چیلنج کرکے ان سے لاتعلقی کا اعلان، دنیا کی سیاست میں اسلام کو ایک قابل عمل آئیڈیا کے طور پر پیش کرکے دنیا کو ایک نئی نظریاتی جنگ کے مرحلے میں داخل کرنا، یہ ہے ایران کا انقلابی ماڈل اور ایران کے انقلابی ماڈل کی وار آف آئیڈیالوجی کی جو آؤٹ ریچ ہے، اس کے جو اثرات ہیں، اس کے بارے میں دنیا کی سیاست میں طاقت کے بڑے مراکز کہتے ہیں کہ لبنان، شام، عراق تا یمن ایرانی اثرات موجود ہیں۔ طاقت کے عالمی مراکز کہتے ہیں کہ فلسطین کی مسلح مقاومت کے پیچھے ایران ہے۔ اسرائیل کو تو لاطینی امریکا میں بھی ایران نظر آتا ہے۔ آج بھارت میں امام خامنہ ای کی چالیس کتب کی نمائش ہوتی ہے۔

پاکستان میں عوامی سطح پر ایران کی اتنی پذیرائی ہے کہ ایک عام آدمی جو معاشرے میں مثبت تبدیلی چاہتا ہے، جو بدعنوانی و امریکی و دیگر غیر ملکی مداخلتوں سے بیزار ہے، وہ عام پاکستانی کہتا ہے کہ اے کاش پاکستان کو بھی خدا ایک خمینی دے دے۔ یہ بات کوئی جارج واشنگٹن، لینن، ماؤ یا نپولین کے بارے میں نہیں کہتا۔ ایک عام آدمی کو تو انکا نام بھی نہیں آتا، اثرات تو دور کی بات ہے۔ جنہیں ایران کے انقلاب میں مسلک، فرقہ نظر آتا ہے، کبھی انہوں نے فرانس، چین، سوویٹ یا امریکی انقلابیوں کا دین، مذہب ڈسکس بھی کیا ہے؟! بات نکلے گی تو بہت دور تلک جائے گی۔ (نوٹ: گو کہ یہ موضوع تاحال نامکمل ہے، لیکن تحریر کی طوالت کی وجہ سے اس پر اکتفا کرنے پر مجبور ہیں۔ البتہ اگر قارئین کی خواہش رہی تو اسی نامکمل موضوع کو آئندہ مکمل کیا جاسکتا ہے)۔

یہ بھی دیکھیں

مریم نواز ہی وزیراعلیٰ پنجاب کیوں بنیں گی؟

(نسیم حیدر) مسلم لیگ ن کی حکومت بنی تو پنجاب کی وزارت اعلیٰ کا تاج …