جمعرات , 25 اپریل 2024

انقلابِ ایران: ‘میرے لیے سب سے سخت چیز حجاب تھی’

(فرانک عمیدی)

ایران میں اپنے سکول کے پہلے دن ہم ایک کم روشن راہداری سے گزرے۔ میں نے اپنی ماں کا ہاتھ پکڑ رکھا تھا اور میں زارو قطار رو رہی تھی۔ وہ بھی رو رہی تھیں۔ میرے سر پر ایک سیاہ سرپوش تھا جسے مغنائہ کہتے ہیں اور اس سے میرے بال ڈھکے ہوئے تھے۔ میں چھ سال کی تھی اور خوفزدہ تھی۔ یہ میرے لاس اینجلس کے کنڈرگارٹن کی طرح بالکل نہیں تھا۔

میں سنہ 1979 میں ایران کے اسلامی انقلاب کے چند ماہ بعد موسم گرما میں کیلیفورنیا میں پیدا ہوئی۔ میری ماں اس وقت 20-22 سال کی تھیں جبکہ میری دادی 50 سال کی تھیں۔لاکھوں ایرانی خواتین نے انقلاب میں شرکت کی، مردوں کے شانہ بہ شانہ کھڑی رہیں لیکن اس کے فوراً بعد رخ ان کے مخالف ہو گيا۔ خواتین نے شاہ محمد رضا پہلوی کے دور میں جو بنیادی حقوق حاصل کیے تھے وہ فوراً ختم کردیے گئے۔

خاندانی تحفظ کا قانون جس کے تحت خواتین کو طلاق دینے کا حق تھا وہ کالعدم قرار دیا گيا اور خواتین کے لیے لازمی لباس کا ضابطہ عمل میں آیا جس میں تمام خواتین کو حجاب پہننا لازمی قرار دیا گیا۔شاہ کے خلاف بغاوت اور انقلاب نے ہمارے خاندان کو دنیا بھر میں منتشر کر دیا۔ ہم اپنے والدین کے ساتھ سنہ 1984 میں ایران واپس آ گئے جو کہ عراق کے ساتھ آٹھ سالہ جنگ کا ٹھیک وسط تھا اور حالیہ تاریخ میں یہ نظریاتی طور پر ایران کا سخت ترین دور تھا۔

خواتین کے لیے ضابطۂ لباس پر سختی کے ساتھ عمل کیا جا رہا تھا۔ شوخ رنگ، لپ سٹک، ناخن پر پالش یا پھر ایک بھی بال کا ظاہر کرنا آپ کو گرفتار کر وا سکتا تھا۔میری ماں کہتی ہیں کہ ‘میرے خیال سے میرے لیے سب سے سخت چیز حجاب تھی۔ میں نے حکومت کی جانب سے نافذ کیے جانے والے سخت ضابطۂ لباس پر کبھی عمل نہیں کیا اور میں نے اپنے طرز لباس پر قائم رہنے کے لیے سخت محنت کی۔’

میری دادی کو انقلاب کے چند سال بعد برطانیہ سے ایران واپس آنے پر وہاں آنے والی تبدیلیوں سے مشکلات کا سامنا رہا۔وہ یاد کرتے ہوئے کہتی ہیں: ‘مجھے ایسا لگا کہ میں ایک بالکل ہی مختلف ملک میں آ گئی ہوں، وہ پہلے جیسا بالکل نہیں تھا۔’

‘میرے سکول کے دنوں جیسا کچھ نہیں’
روزانہ صبح کلاس شروع ہونے سے قبل ہم سکول کے برامدے میں قطار باندھ کر کھڑے ہو جاتے اور اپنی ننھی منی مٹھی ہوا میں لہرا کر اپنی ہیڈ استانی کے الفاظ دہراتے۔ وہ میگافون پر چیخ رہی ہوتی تھیں: ‘مرگ بر امریکہ! مرگ بر عراق، مرگ بر انگلستان!’میری ماں کہتی ہیں: پہلے دن جب میں تمھیں سکول لے گئی تو مجھے بہت صدمہ ہوا اور میں بہت مایوس ہوئی۔’

یہ ایران میں ان کے گزارے ہوئے بچپن سے بہت مختلف تھا۔ میری ماں نے فرانسیسی مسیحی مشنری کے قائم کردہ سکول میں تعلیم حاصل کی تھی جہاں لڑکیاں دلربا لباس پہنتی تھیں، کھیل میں شرکت کرتی تھیں، موسیقی، گیت اور رقص میں شامل ہوتی تھیں۔

وہ کہتی ہیں: ‘تمہارے سکول کا ماحول حوصلہ شکن اور اداس تھا۔ جہاں تک مجھے اپنے سکول کا زمانہ یاد آتا ہے وہاں ہمارے سکول جیسا شوخ اور زندہ دل ماحول بالکل نہیں تھا۔’

’برائے مہربانی اپنا کتا اپنے گھر میں ہی رکھیں‘
میری دادی ایران کی پہلی نسل کی لڑکیوں میں شامل تھیں جنھوں نے سنہ 1930 کی دہائی میں پبلک سکول میں تعلیم حاصل کی تھی۔ اس سے قبل تک مذہبی پیشواؤں کی مخالفت کے سبب لڑکیوں کے لیے سکول کھولنے کی تمام کوششیں ناکام ہوتی رہیں کیونکہ ان کا خیال تھا کہ وہ فحاشی کا اڈہ ہوں گے۔

میری دادی کہتی ہیں کہ ‘مجھے سکول سے بہت لگاؤ تھا، وہاں ہم بہت مزے کیا کرتے تھے اور مجھے وہاں کی کوئی ناخوشگوار یاد نہیں ہے۔’شاہ کے دور میں مذہب آپ کا ذاتی معاملہ تھا۔ انقلاب کے بعد مذہب عوامی دائرے کا حصہ بن گیا۔

حکومت سے اپنی وفاداری کی علامت کے طور پر آپ کی اپنے اسلام کو ظاہر کرنے کے لیے حوصلہ افزائی کی گئی۔ خواتین کو مزید حیادار لباس میں ملبوس ہونا پڑا، مردوں نے داڑھیاں بڑھا لیں اور لوگ انقلاب مخالف کہلانے کے ڈر سے کام کی جگہ نمازیں پڑھنے لگے۔ حکومت نے ہماری زندگی کے زیادہ تر ذاتی پہلوؤں کو کنٹرول کرنا شروع کر دیا۔

دوہری زندگی جینا
سکول میں اساتذہ کو کہا جاتا کہ وہ طلبہ کی ذاتی زندگی کے بارے میں ان سے سوال کریں۔ہم سے پوچھا جاتا کہ کیا ہمارے والدین شراب پیتے ہیں، موسیقی سنتے ہیں۔ کیا ہمارے گھر میں ویڈیو پلیئر ہے، یا وہ تاش کھیلتے ہیں، گھر کے مخلوط ماحول میں کیا ہماری والدہ حجاب اتار دیتی ہیں۔ قانوناً ان سب کی ممانعت ہے۔زیادہ تر والدین ہمیں اس کے متعلق جھوٹ کہنے کی ترغیب دیتے اور اس طرح ہم نے دوہری زندگی جینا سیکھنا شروع کیا۔

میں کلاس میں حجاب پہنتی تھی اور جب اپنے کمرے میں ہوتی تو اسے اتار پھینک کر نجات کا احساس ہوتا۔ سکول میں ہم چیخ چیخ کر ‘مرگ بر امریکہ’ کہتے اور گھرپر موسیقی کے خفیہ کیسٹ پیچنے والے سے ‘گنز اینڈ روزز’ کے کیسٹ خریدتے۔شاہ کے دور میں بڑھنے والی میری ماں کو زیادہ سماجی آزادی حاصل تھی۔وہ یاد کرتے ہوئے کہتی ہیں: ‘میں جو پہننا چاہتی تھی وہ پہن سکتی تھی، جو گیت ہم سننا چاہتے تھے سن سکتے تھے۔ لیکن پھر بھی خواتین پر کئی قسم کی پابندیا تھیں۔’

میری والدہ کی 17 سال کی عمر میں شادی ہو گئی اور یہ شاہ کے دور میں بھی عام بات تھی۔ اس وقت بھی خواتین سے سماج کے سخت اصول کی پیروی کرنے کی امید کی جاتی اور کام کی جگہ پر مردوں اور خواتین میں بہت بڑی خلیج تھی۔میری ماں کہتی ہیں کہ ‘شاہ چیزوں کو بدلنا چاہتے تھے اور سماج کو مزید ماڈرن بنانا چاہتے تھے۔’

میری دادی کی پرورش ایک امیر گھرانے میں ہوئی اور وہ مغربی طرز زندگی سے متعارف تھیں تاہم انھیں بھی بہت سی بندشوں کا سامنا تھا اور بہت سی روایتوں کی پاسداری کرنی ہوتی تھی۔سکول کی تعلیم کے بعد ان کی شادی ہو گئی اور انھیں چھ بچے پیدا ہوئے۔ ان کے پاس بھی زندگی میں بہت چوائس نہیں تھی۔ شادی اور بچوں کی پرورش تک ہی ان کی زندگی محدود تھی۔

ماں اور دادی کے مقابلے میں میری زندگی میں زیادہ چوائس تھی۔ میں نے یونیورسٹی کی ڈگری حاصل کی، جب میں 30 سال کی ہوئی تو میں نے تنہا نقل مکانی کی، اپنے دوست کے ساتھ چار سال تک رہی اور 35 سال کی عمر میں شادی کی۔ لیکن ایک عام ایرانی کی زندگی میں ایسے تجربات کم ہی ہوتے ہیں۔

حکام کا کہنا ہے کہ یونیورسٹی کے طالبعلموں میں نصف سے زیادہ لڑکیاں ہیں اور وہ اپنی شادی کو 30 سال تک ٹالتی رہتی ہیں۔ لیکن نوکریوں میں ان کی موجودگی صرف 19 فیصد ہے۔ شادی کرنے اور خاتون خانہ بننے کے سوا زیادہ تر خواتین کے پاس اب بھی کم چوائس ہے۔

پارلیمان میں خواتین کی شرکت صرف چھ فیصد ہے اور خواتین کو شادی کے معاملے میں تقریبا کوئی اختیار حاصل نہیں ہے۔ حکومت کے نشریاتی اداروں سے مردوں اور خواتین کے کردار کا پروپگینڈا کیا جاتا ہے اور خواتین سے کہا جاتا ہے کہ ان کا کردار گھر میں بچوں کے ساتھ ہے۔

انقلاب کی چار دہائی کے بعد یہ کہنا بہت مشکل ہے کہ آیا ایرانی خواتین نے واقعی ترقی کی ہے۔ لیکن ایک بات واضح ہے کہ ہر ایک قدم آگے لے جانے کے لیے کئی قدم پیچھے جانا پڑا ہے تاہم ناکامیوں نے کبھی بھی خواتین کی آگے بڑھنے میں حوصلہ شکنی نہیں کی ہے۔بشکریہ بی بی سی

یہ بھی دیکھیں

مریم نواز ہی وزیراعلیٰ پنجاب کیوں بنیں گی؟

(نسیم حیدر) مسلم لیگ ن کی حکومت بنی تو پنجاب کی وزارت اعلیٰ کا تاج …