بدھ , 24 اپریل 2024

شہزادے کی آمد اور ”بدلہ لو انڈیا“

(امتیاز عالم)

اِک عرصے کے بعد سعودی عرب سے نہایت مقتدر ولی عہد محمد بن سلمان کی آمد آمد ہے کہ ہر طرف شادیانے بج رہے ہیں۔ لیکن عین اس وقت مقبوضہ کشمیر کے ضلع پلوامہ کے ایک گاؤں لیتھی پورہ کے ایک 20 سالہ نوجوان عادل احمد ڈار نے جموں و کشمیر ہائی وے پہ سنٹرل ریزرو پولیس فورس کے ایک بڑے قافلے سے اپنی بارود سے بھری گاڑی ٹکرا کر چالیس سے زیادہ جوانوں کو مار دیا اور درجنوں زخمی ہو گئے۔ اخباری اطلاعات کے مطابق یہ نوجوان اُن بچوں میں سے تھا جنہیں بھارتی فوج کے ہاتھوں تذلیل کا سامنا رہا اور مبینہ طور پر اس کا تعلق جیش محمد سے بتایا گیا ہے یا جوڑا گیا ہے۔

اس بڑی کارروائی پر پورے بھارت میں غم و غصے کی لہر دوڑ گئی اور مودی حکومت اور بھارتی جنتا پارٹی کو اپنی پھیکی انتخابی مہم میں ایک اشتعال انگیز مسالا مل گیا۔ کابینہ کی سلامتی کمیٹی کے اجلاس میں پاکستان کو سخت خمیازہ بھگتنے کی دھمکی کے ساتھ ساتھ فوج کو جوابی کارروائی کے لیے ”کھلا ہاتھ“ دیتے ہوئے بھارت نے پاکستان کو تجارتی اعتبار سے ”پسندیدہ مملکت“ (MFN) کا جو کاغذی اسٹیٹس دیا ہوا تھا، واپس لینے کا اعلان کر دیا۔

ہفتہ کو تقریباً تمام سیاسی جماعتوں کے قائدین کو ایک بریفنگ دی جانی تھی کہ سب مل کر پاکستان مخالف محاذ کو گرم کریں۔ بھارتی میڈیا کی جانب سے ”بدلہ لو انڈیا“ کا نعرہ بلند کیا گیا ہے اور سوائے بدلہ لینے اور سبق سکھانے کے کوئی آواز سنائی نہیں دے رہی۔ لگتا ہے کہ انتخابی گہما گہمی میں پاکستان مخالف جذبات اور ”آتنک واد“ (دہشت گرد) کے خلاف مہم میں بڑی جماعتیں خوب گلا پھاڑیں گی۔ بلاشبہ یہ دہشت گردی کا بڑا واقعہ ہے جو دو ملکوں میں کسی نوعیت کی جنگ کا باعث بن سکتا ہے۔

لیکن چند لوگوں کے سوا کوئی یہ کہنے کی جرات نہیں کر رہا آخر پوری واد یٔ کشمیر بھارت سے کیوں بیگانہ ہو گئی اور پڑھے لکھے مقامی نوجوان مرنے مارنے پہ کیوں تل گئے ہیں۔ اور یہ کہ فوج کشی اور دہشت گردی سے کشمیر کے مسئلے کا کوئی حل نکلنے والا نہیں۔ اور جانے برصغیر کب تک اس قضیے کے ہاتھوں یرغمال بنا رہے اور کشمیری یونہی مرتے سسکتے رہیں۔ اب عالمی سطح پر جیشِ محمد اور لشکر طیبہ جیسی تنظیموں اور دہشت گردی کے لیے مبینہ طور پر پاکستان کی سرزمین کے استعمال کے خلاف بڑی مہم چلائی جائے گی۔

امریکہ اور سعودی عرب سمیت بہت سے ممالک نے اس دہشت گردی کی سخت مذمت کی ہے اور پاکستان کے دفتر خارجہ نے بھی اس واقعہ کی مذمت کی ہے اور بھارت کو بلاتحقیق الزام بازی سے اجتناب کرنے کا مشورہ دیا ہے۔ کرتار پور کی راہداری کھولنے کے اعلان سے جو اچھی فضا بننے جا رہی تھی، وہ پھر کشمیر میں جاری خونریزی اور خلفشار کی نذر ہوتی دکھائی دے رہی ہے اور آئندہ دنوں میں ہم ایک بار پھر جنگی ماحول بنتا اور سرحدوں پر گرما گرمی بڑھتے دیکھیں گے۔

سعودی ولی عہد ایشیا میں سرمایہ کاری کے لیے دورے پہ ہیں۔ وہ چین سے ہوتے ہوئے پاکستان آئے ہیں اور یہاں سے بھارت، ملائشیا اور انڈونیشیا جائیں گے، جہاں وہ اربوں ڈالرز کی سرمایہ کاری کے سمجھوتوں پر دستخط کریں گے۔ ان کی پاکستان آمد سے قبل قائد حزبِ اختلاف شہباز شریف ضمانت پر رہا ہو چکے ہیں اور اگلے ہفتے میاں نواز شریف کی ضمانت متوقع ہے اور وہ شاید علاج کے لیے لندن روانہ ہو جائیں۔ حکومتی حلقے بہت خوش ہیں کہ گوادر میں تیل کی ریفائنری، پیٹروکیمیکل کمپلیکس، گیس اور تیل اسٹور کرنے اور بلوچستان میں ریکوڈک کی تانبے اور سونے کی کان اور معدنیات کے منصوبوں کے علاوہ توانائی کے دیگر شعبوں میں سرمایہ کاری کے معاہدوں پر دستخط ہو جائیں گے۔

سعودی عرب پہلے ہی تین ارب ڈالرز اور تیل کی خریداری میں 3.2 ارب ڈالرز کی ادائیگی میں رعایت کی تین سالہ سہولت فراہم کر چکا ہے۔ بھارت میں اپنے قیام کے دوران ایشیا کی سب سے بڑی تیل ریفائنری میں 22 ارب ڈالرز کی سعودی و خلیجی سرمایہ کاری کے علاوہ رعایتی شرائط پر تیل کی فراہمی کے علاوہ دیگر منصوبوں پر اتفاق کا امکان ظاہر کیا جا رہا ہے۔

پاک بھارت تعلقات کی موجودہ خطرناک کشیدگی کے موقع پر شہزادہ محمد کا برصغیر کا دورہ ایک الگ اہمیت اختیار کر گیا ہے۔ وہ یقیناً اس کشیدگی کو کم کرنے میں اہم کردار ادا کر سکتے ہیں۔ اس کے لیے پاکستان بھارت کو کیا پیغام دیتا ہے اور بھارت کس ردعمل کا اظہار کرتا ہے، اس پر ابھی کچھ کہنا قبل از وقت ہوگا۔ پہنچے ہوئے تجزیہ کار پہلے خلیجی روایتی فیاضی کے اس بے مثال اظہار کو طالبان کو مذاکرات کی میز پر لانے اور افغانستان میں کسی سیاسی مفاہمت سے جوڑتے نظر آتے تھے، اب اُن میں سے کچھ کی رائے ہے کہ امریکہ ایران کے خلاف جو بڑا محاذ کھڑا کر رہا ہے، اُس میں سعودی عرب کے مرکزی کردار کے پیشِ نظر چابہار کی بندرگاہ کے خلاف گوادر کی بندرگاہ کو آگے بڑھانے میں سعودی دلچسپی پہلے سے کہیں زیادہ ہو گئی ہے۔

سعودی عرب پہلے ہی سے چین کے ایک سڑک ایک راہداری کے منصوبے میں دلچسپی رکھتا ہے۔ ویسے بھی اب بلوچستان بڑی طاقتوں کی کشمکش کی لپیٹ میں آتا دکھائی دے رہا ہے جس طرح کہ ایرانی بلوچستان اور افغانستان۔ صدر ٹرمپ ایران کے خلاف محاذ آرائی میں اپنے یورپی اتحادیوں کی مخالفت کے باوجود سعودی عرب، متحدہ عرب امارات اور اسرائیل کی مدد سے آگے بڑھتے نظر آ رہے ہیں۔ وارسا میں بلائے گئے اجلاس میں فرانس، جرمنی، اسپین اور دوسرے یورپی ممالک نے ایران کے ساتھ کیے گئے جوہری معاہدے کو نہ صرف جاری رکھنے بلکہ امریکہ کی ایران کی معاشی ناکہ بندی میں شامل ہونے سے انکار کر دیا ہے۔

واشنگٹن پوسٹ کے سعودی نژاد صحافی خاشقجی کے ترکی کے سعودی قونصل خانے میں قتل کے حوالے سے سعودی اور امریکی تعلقات میں خاصا رخنہ پیدا ہوا تھا اور یمن میں سعودی مداخلت کی امریکی سینٹ نے پُرزور مخالفت کر دی ہے اور اب اقوامِ متحدہ کی سربراہی میں وہاں جنگ بندی کو قائم رکھنے کی کوشش کی جا رہی ہے۔ یہی وجہ ہے کہ اب یمن میں پاکستانی حمایت کے لیے سعودی دباؤ نہیں رہا۔ قطر کے ساتھ امریکی تعلقات کی بدولت اب قطری سعودی مناقشہ ٹھنڈا پڑ رہا ہے اور پاکستان اور قطر میں گیس سمیت معاشی تعلقات کو آگے بڑھانے کے امکانات ہیں۔

شہزادہ ترکی الفیصل جو سعودی انٹیلی جنس کے چیف اور امریکہ میں سفیر رہے ہیں کے مطابق پاکستان اور سعودی عرب میں ایسے قریبی تعلقات ہیں جو کسی اور میں نہیں ہیں۔ اس کا اظہار اس امر سے بھی ہوتا ہے کہ سعودی عرب نے دہشت گردی کے خلاف جو اسلامی فوج کھڑی کی ہے اس کے بانی سربراہ پاکستان کے سابق چیف آف آرمی اسٹاف جنرل راحیل شریف مقرر ہوئے۔ شہزادہ محمد کے دورہ سے قبل جنرل راحیل شریف نے پاکستان کا دورہ کیا۔ غالباً جنرل باجوہ اور جنرل راحیل شریف پاک سعودی تعلقات کے دو مرکزی موجد بن کر سامنے آئے ہیں۔

لیکن یہ دونوں جرنیل صاحبان ایران کے ساتھ اچھی ہمسائیگی کے بھی قائل رہے ہیں کہ ایران بھی دیرینہ دوست ہے اور ماضی کی پاک بھارت جنگوں میں ایران نے اصل اسٹرٹیجک گہرائی فراہم کی تھی۔ پاکستان کا سرکاری و قومی موقف بھی یہی ہے کہ پاک سعودی تعلقات کسی تیسرے ملک کے خلاف نہیں ہیں۔ دیکھتے ہیں خطے اور دُنیا کا بدلتا ہوا تناظر پاکستان کو کدھر دھکیلتا ہے۔ تاریخی سبق تو یہی ہے کہ تجھے پرائی کیا پڑی اپنی نبیڑ تو!بشکریہ ہم سب نیوز

یہ بھی دیکھیں

مریم نواز ہی وزیراعلیٰ پنجاب کیوں بنیں گی؟

(نسیم حیدر) مسلم لیگ ن کی حکومت بنی تو پنجاب کی وزارت اعلیٰ کا تاج …