جمعرات , 18 اپریل 2024

سوشل میڈیا پر نفرت انگیز مواد اور کریک ڈاؤن کا اعلان

(تحریر: طاہر یاسین طاہر)

وہ سماج جہاں بات بات پر بحث ہو، وہاں برداشت کے بجائے عدم برداشت رواج پاتی ہے، وہاں ہر فریق یہ چاہتا ہے کہ اسی کی بات کو تسلیم کیا جائے۔ لفظ "بحث” بجائے خود اپنے اندر ایک تکلیف دہ اور جارحانہ معنویت رکھتا ہے۔ بحث کسی نتیجے پہ پہنچنے کے بجائے مخالف فریق کو زیر کرنے کے ہنر کا نام ہے۔ یا یوں کہہ لیں کہ بحث سماج میں مناظرانہ رویئے کو رواج دینے میں معاونت کرتی ہے۔ مناظرانہ طرزِ حیات میں دلیل کے بجائے ضد کو اہمیت دی جاتی ہے۔ تاریخ کا مطالعہ یہی بتاتا ہے۔ ہاں بحث کو مثبت معنوں میں بھی لیا جا سکتا ہے۔ اس حوالے سے سماج کے رویئے کا مطالعہ بہت ضروری ہے۔ اگر سماجی حیات میں ٹھہرائو، دلیل اور دوسرے کی بات سننے کی ہمت موجود ہے تو پھر بحث ہو یا مکالمہ، نام سے فرق نہیں پڑے گا۔ ہدف مثبت نتیجہ ہوگا۔ جس کی بنیاد دلیل ہوتی ہے۔ لیکن جس سماج کا ہم حصہ ہیں، بلکہ پورے برصغیر اور قریب قریب سارے انسانوں کا بحث کے حوالے سے تحریری و تقریری رویہ ایک سا ہی ہوتا ہے۔

مکالمہ میں البتہ گنجائش ہے۔ یہاں دلیل سے بات کی جاتی ہے اور دلیل ہی کی جیت ہوتی ہے۔ کسی فرد، پارٹی یا شخصیت کی نہیں۔ فرض کریں ہم سماج میں کرپشن پر "بحث” کراتے ہیں اور اس بحث کے لیے حکومت سیمینارز کا اہتمام کرتی ہے، تو یہ سیمینارز دوسری سیاسی جماعتوں کے نزدیک اپنی بنیاد میں ہی کمزور اور حزبِ مخالف کے خلاف تصور کیے جائیں گے۔ پھر اگر ان مباحث میں سیاستدان ہی آکر تقریریں کریں گے تو وہ موضوع کے بجائے اپنی اپنی پارٹی کا نقطہ نظر اور اپنے اپنے سیاسی ناخدا کی توصیف کریں گے، جبکہ حکومتی وزراء سارا زور اس بات پر لگا دیں گے کہ پیپلز پارٹی اور نون لیگ نے ملک کا بیڑا غرق کر دیا۔ معیشت تباہ و برباد ہوچکی ہے اور اب ہم نے نہ صرف معیشت ٹھیک کرنی ہے بلکہ ان لٹیروں کو جیل میں بھی ڈالنا ہے۔ میرا خیال ہے کہ اس نوع کے مباحثے مثبت نتیجہ دینے کے بجائے ملک میں مزید سیاسی گھٹن اور ایک مکالماتی تشنگی کا سبب بنیں گے۔

مسئلے کی اصل دیکھنے کے بجائے خواہ مخواہ اس کا حل پیش کرتے رہنا ہیجان کے سوا کچھ بھی نہیں۔ دیکھنا یہ ہے کہ سماج کا اصل مسئلہ کیا ہے؟ سماج کا اصل مسئلہ بے روزگاری، انتہا پسندی، فرقہ واریت اور اس سے جڑی دیگر سماجی برائیاں ہیں۔ سادہ بات یہی ہے کہ معاشرہ ہیجان اور دبائو کا شکار ہے۔ جب کوئی سماج دبائو کا شکار ہو تو پھر اسے کتھارسس کی ضرورت ہوتی ہے۔ پی ٹی آئی سے پہلے والی حکومتوں نے بھی یہی کیا، جو پی ٹی آئی کر رہی ہے۔ نوجوانوں کو روزگار چاہیئے۔ ہر سیاسی جماعت نے وعدہ کیا مگر کوئی یہ وعدہ وفا نہ کرسکی۔ کیوں؟ اس لیے کہ یہ ان کی ترجیح ِ اول ہے ہی نہیں۔ پی ٹی آئی ایک کروڑ نوکریاں کہاں سے دے گی؟ وعدہ تو کر لیا گیا، مگر ابھی تک وہ فارمولا سامنے نہیں آیا، جس سے دس بیس لاکھ نوکریاں پیدا ہوں۔ ظاہر ہے جب بے روزگاری بڑھے گی، روپے کی قدر گرتی جائے گی تو حکومت پر تنقید بھی ہوگی اور سماجی مسائل میں اضافہ بھی ہو گا۔

مجھے جس مسئلے پر گہری تشویش ہے، وہ حکومتی رویہ ہے۔ حکومت اور اس کے ذمہ داران کا رویہ بڑا متناسب ہوتا ہے۔ جارحیت تو اپوزیشن کا حصہ ہے۔ پی ٹی ائی کی حکومت جس بات کو سمجھنے سے قاصر ہے، وہ یہ ہے کہ یہ اکیسویں صدی ہے۔ پاکستانی سماج نے جو عالمی و داخلی حالات برداشت کیے ہیں، اس کے بعد یہ ناممکن ہے کہ اس نسل کی زبان بندی کی جا سکے۔ ہم جانتے ہیں کہ پرنٹ و الیکٹرانک میڈیا پر ایک غیر اعلانیہ سنسر شپ ہے۔ میڈیا ہائوسز دبائو کا شکار ہیں اور صحافتی برادری الگ سے معاشی و زبان بندی کی پریشانیوں کا شکار ہے۔ ہمارا سماج زندگی کی مشکل پگڈنڈیوں سے حیاتِ جادواں کی طرف پلٹا ہے، ہم کیسے زباں بندی کی پابندیاں برداشت کرسکتے ہیں؟ ہاں دوسروں کی تضحیک، دوسروں کے عقائد کا مذاق، تکفیر اور مسائل کے بجائے ذاتیات کو تحریر و تقریر کا مرکز بنانا کسی بھی مہذب سماج میں روا نہیں۔ حکومت سوشل میڈیا پر نفرت پھیلانے والوں پر نظر ضرور رکھے، مگر کریک ڈائون سے مراد صحافتی برادری کو شاید کوئی پیغام دینا مقصود تھا۔

یہاں نفرت سے مراد کیا ہے؟ کیا جو حکومتی پالیسوں کے خلاف بات کرے گا، وہ نفرت پھیلانے کا ملزم قرار پائے گا؟ اور جو نون لیگ و پیپلز پارٹی کو ہدف تنقید بنائے گا، وہ سماج کا پرامن شہری قرار پائے گا؟ یا نفرت پھیلانے سے مراد یہ ہے کہ جو دوسروں کے مذہبی و مسلکی نظریات کو نشانہ بنائے گا اور کفر و قتل کے فتوے جاری کرے گا۔؟ اس گروہ کے خلاف کریک ڈائون کیا جائے گا؟ اگر تو حکومت کی مراد آخر الذکر ہے تو یہ کام تو بہت پہلے کرنا چاہیئے تھا۔ قتل و کفر کے فتوے تو آئے روز لگتے رہتے ہیں۔ یاد رہے کہ "وفاقی وزیر اطلاعات فواد چوہدی نے سوشل میڈیا پر نفرت پھیلانے والوں کے خلاف کریک ڈاؤن کا اعلان کرتے ہوئے کہا ہے کہ ہم پاکستان میں قوانین کی حاکمیت کو یقینی بنانے پر یقین رکھتے ہیں۔ا سلام آباد میں تقریب سے خطاب کرتے ہوئے ان کا کہنا تھا کہ پاکستان کی افواج اور عوام نے بہت قربانیاں دی ہیں اور اب ہم نے لوگوں کو نفرت اور انتہا پسندی پھیلانے کی اجازت نہیں دینی۔ وزیر اطلاعات کا مزید کہنا تھا کہ معاشرے میں بحث نہیں ہوگی تو شدت پیدا ہوگی اور اس سے انتہاء پسندی دہشت گردی میں تبدیل ہو جاتی ہے، لوگوں کو اپنے رائے کی آزادی کا مکمل حق ہے، لیکن دوسرے کی آزادی سلب کرنے کا حق کسی کو نہیں ہے۔ وزیر اطلاعات کا کہنا تھا کہ کچھ لوگوں کا مطمع نظر ہے کہ انہیں ہر چیز کی آزادی ہے، لیکن ایسا نہیں ہے، ہر کسی کی آزادی کی ایک حد ہوتی ہے۔”

یہ بات درست ہے کہ پاکستان بڑی قربانیاں دے کر مشکل ترین حالات سے باہر نکلا ہے۔ دہشت گردی کے خلاف جنگ بڑی ہمت اور استقامت سے جیتی گئی ہے، مگر دہشت گردوں کے سہولت کار عشروں تک کسی نہ کسی شکل میں سماج کے اندر خوف کی لہر برقرار رکھنا چاہیں گے۔ شاید حکومت انہی کے خلاف کریک ڈائون کا کہنا چاہتی ہو۔ مگر لہجہ بتا رہا تھا کہ بہت سوں کو بھی اس قانون کی لاٹھی ہانک کر ملزموں کے کٹہرے تک لاتی رہے گی۔ یہ بہت تشویش ناک بات ہے۔ حکومت پر تنقید ہوتی رہے گی، اس سے گھبرانے کے بجائے حکومت اپنے اہداف کی طرف توجہ کرے، البتہ سوشل میڈیا یا کسی بھی پلیٹ فارم سے نفرت انگیز مواد کی تشہیر کرنے والوں کے خلاف جارحانہ کارروائی بے شک ضروری ہے۔ اگر کریک ڈائون میں حکومت مخالف پیجز کے ایڈمنز اٹھانے شروع کر دیئے گئے تو سماج ایک نئے ہیجان اور غصے کا شکار ہوگا، جس کا نتیجہ بے شک تکلیف دہ اور منفی ہی ہوگا۔ اے کاش حکومت انتقام کے بجائے تعمیری کاموں کی طرف متوجہ ہو جائے۔

یہ بھی دیکھیں

مریم نواز ہی وزیراعلیٰ پنجاب کیوں بنیں گی؟

(نسیم حیدر) مسلم لیگ ن کی حکومت بنی تو پنجاب کی وزارت اعلیٰ کا تاج …