ہفتہ , 20 اپریل 2024

بریگزٹ کیلئے دھچکا، 7 اراکین کالیبرپارٹی سے دستبرداری کا اعلان

لندن (مانیٹرنگ ڈیسک)برطانیہ کی اپوزیشن جماعت لیبر پارٹی کے 7 اراکین نے بریگزٹ کی وجہ سے پارٹی سے علیحدگی کا اعلان کردیا۔امریکی خبر رساں ادارے ’اے پی ‘ کے مطابق ان اراکین نے اپنے بیان میں کہا کہ ’لیبر پارٹی اب ان پالیسیوں پر چل رہی ہے جو ہماری قومی سلامتی کو کمزور کرسکتی ہیں، ان ممالک کے بیانات کو تسلیم کر رہی ہے جو ہمارے ملک کے لیے خطرہ ہیں اور بریگزٹ کے چیلنج سے نمٹنے میں ناکام رہی ہے‘۔

ان 7 اراکین نے لبرل ڈیموکریٹس نامی جماعت میں شمولیت سے انکار کرتے ہوئے دیگر جماعتوں کے اراکین کو برطانوی سیاست میں نئی جماعت کے قیام میں مدد کرنے پر اصرار کیا۔لیبر پارٹی کے اراکین کی جانب سے یہ اعلان پارٹی میں موجو سوشلسٹ اور سینٹرلسٹ کے درمیان جاری کشیدگی کے نتیجے میں آیا ہے، جو خود کو برطانیہ کے ملازمت پیشہ طبقے کے نمائندے کے طور پر دیکھتے ہیں۔

یہ اعلان برطانیہ کی یورپی یونین سے علیحدگی سے قبل ایک بڑا سیاسی نقصان ہے جس کی وجہ سےملک کی دو بڑی جماعتیں کنزرویٹوز اور لیبر پرو- بریگزٹ اور پرو – یورپی یونین میں تقسیم ہوگئی ہیں۔خیال رہے کہ لیبر پارٹی کے اکثر قانون ساز جیرمی کوربن کی قیادت سے ناخوش ہیں جنہوں نے 2015 میں پارٹی کی قیادت سنبھالی تھی۔

وہ جیرمی کوربن پر کنزرویٹو جماعت کی وزیر اعظم تھریسامے کے یورپی یونین چھوڑنے کے منصوبے پر کمزور اپوزیشن کرنے کا الزام عائد کرتے ہیں، اس کے ساتھ ہی پارٹی میں یہود مخالف خیالات کی بڑھتی ہوئی لہر کو روکنے میں ناکامی کا ذمہ دار بھی ٹھہراتے ہیں۔

برطانیہ کی اپوزیشن جماعت سے علیحدگی کا اعلان کرنے والے 7 اراکین لیبر پارٹی کے 256 قانون سازوں یا برطانوی پارلیمنٹ کے 650 قانون سازوں کا ایک چھوٹا سا حصہ ہیں۔تاہم یہ لیبر پارٹی کو 1981 کے بعد پہلا بڑا دھچکا ہے جب 4 سینئر اراکین نے علیحدگی اختیار کرکے سوشل ڈیموکریٹک پارٹی بنائی تھی۔

لوسیانا برجر نے اپنے 6 ساتھیوں کے ہمراہ نیوز کانفرنس کرتے ہوئے کہا کہ’ لیبر پارٹی یہود مخالف ادارہ بن گیا تھا، میں غنڈہ گردی، تعصب کی ثقافت کو پیچھے چھوڑ رہی ہوں‘۔لیبر پارٹی کے رہنماؤں نے اس بات کا اعتراف کیا ہے کہ لوسیانا برجر جو کہ یہودی ہیں، انہیں شمال مغربی برطانیہ میں مقامی پارٹی کے کچھ اراکین کی جانب سے دھمکایا جاتا رہا ہے۔

اس بات کے قوی امکانات ہیں کہ برطانیہ کی جانب سے یورپی یونین سے علیحدگی کے فیصلے پر برطانوی سیاست میں بڑا انتشار پیدا ہوجائے۔برطانوی وزیر اعظم تھریسامے کی جماعت میں بریگزٹ اور یورپی یونین کے حامیوں کے درمیان خانہ جنگی کا شکار ہے جبکہ لیبر پارٹی میں بھی ٹوٹ پھوٹ جاری ہے۔

لیبر پارٹی کے اکثر اراکین بریگزٹ کی مخالفت کررہے ہیں جس میں 6 ہفتے سے بھی کم وقت باقی ہیں اور چاہتے ہیں کہ ان کی جماعت ایک نئے ریفرنڈم کی جنگ لڑے تاکہ برطانیہ 28 قوموں کی تنظیم کا رکن رہ سکے۔

تاہم جیرمی کوربن جو دہائیوں سے یورپی یونین پر تنقید کرتے رہے ہیں وہ ایسا کچھ بھی کرنے پر تیار نہیں، جس سے یورپی یونین چھوڑنے کے فیصلے کو مسترد کیے جانے کے طور پر دیکھا جاسکے۔

لیبر پارٹی سے علیحدگی اختیار کرنے والے قانون ساز مائیک گیپز نے کہا کہ ’میں بہت برہم ہوں کہ پارٹی قیادت بریگزٹ کا ساتھ دے رہی ہے جس سے ہمارے ملک کو معاشی، سماجی اور سیاسی نقصان پہنچے گا‘۔پارلیمنٹ کے 7 اراکین نے کہا کہ وہ اپوزیشن جماعت سے علیحدگی کے بعد اب ہاؤس آف کامنز میں نو تشکیل کردہ آزاد گروپ کے تحت بیٹھیں گے۔

اس موقع پر جیرمی کوربن نے کہا کہ ’وہ بہت مایوس ہوئے کہ ان کے پارلیمانی اراکین پارٹی کی پالیسیوں کے مطابق کام نہیں کرسکے جنہوں نے گزشتہ انتخابات میں لاکھوں افراد کو متاثر کیا تھا‘۔

بریگزٹ کیا ہے؟
برطانیہ کے یورپی یونین میں رہنے یا اس سے علیحدہ ہونے سے متعلق 23 جون 2016 کو ریفرنڈم کا انعقاد کیا گیا تھا جس میں بریگزٹ یعنی یورپی یونین سے نکل جانے کے حق میں میں 52 جبکہ مخالفت میں 48 فیصد ووٹ دیے گئے تھے جس پر عملدرآمد کرتے ہوئے برطانیہ 29 مارچ 2019 کو یورپی یونین سے علیحدہ ہوجائےگا۔

برطانوی وزیر اعظم تھریسامے نے بریگزٹ معاہدے پر عوامی فیصلے کو عملی جامہ پہنانے کا وعدہ کیا تھا لیکن شدید مخالفت کے بعد سے انہیں مشکلات کا سامنا کرنا پڑا تھا اور وہ اراکین پارلیمنٹ کو منانے کی کوشش کرتی رہی ہیں۔بعد ازاں اس معاہدے پر دسمبر 2018 میں برطانوی پارلیمنٹ میں ووٹنگ ہونی تھی، تاہم اسے جنوری تک ملتوی کردیا گیا تھا۔

جس کے بعد گزشتہ دنوں برطانوی پارلیمنٹ میں بریگزٹ معاہدے پر ووٹنگ ہوئی، جس میں برطانوی پارلیمنٹ نے یورپی یونین سے علیحدگی کے وزیر اعظم تھریسامے کے بل کو واضح اکثریت سے مسترد کردیا تھا، جس کے بعد بریگزٹ کے معاملے پر دوبارہ بحث کرنے کا فیصلہ ہوا تھا۔

جنوری میں بریگزٹ پر ہونے والی ووٹنگ میں 432 ارکان پارلیمنٹ نے اس کے خلاف ووٹ دیا تھا جبکہ 202 ارکان نے وزیر اعظم کے معاہدے کے حق میں ووٹ دیا تھا۔اس کے بعد ایوان زیریں میں برطانوی وزیر اعظم کے خلاف تحریک عدم اعتماد پیش کی گئی تھی، جو ناکام ہوگئی تھی اور ان کا عہدہ بچ گیا تھا۔

اپوزیشن کی جانب سے پیش کی گئی اس تحریک عدم اعتماد میں برطانوی وزیر اعظم تھریسامے کے حق میں 325 جبکہ ان کی مخالفت میں 306 ووٹ آئے تھے۔15 جنوری کو تھریسامے کی جانب سے پیش کردہ معاہدے کو مسترد کیے جانے کے بعد برطانیہ بریگزٹ کی جانب بغیر کسی منصوبہ بندی کے پیش قدمی کررہا ہے۔

اور اگر برطانوی وزیراعظم کی اپنا معاہدہ بچانے کی کوششیں ناکام ہوجاتی ہیں توخطرہ ہے کہ برطانیہ کے اس کے قریبی تجارتی شراکت داروں کے ساتھ تعلقات خراب ہوجائیں گے۔

اس سلسلے میں متعدد اراکین کا مطالبہ ہے کہ معاہدے پر نظرِ ثانی کرکے اس میں ترامیم کرنے اور بریگزٹ کو ملتوی کرنے اور یورپی یونین کے ساتھ دوبارہ مذکرات کرنے اور دوسرے ریفرنڈم پر غور کیا جائے۔برطانوی وزیر اعظم کا کہنا ہے کہ اس ساری صورتحال میں سب سے بہترین طریقہ ہے کہ ان کے مجوزہ معاہدے پر اتفاق کرلیا جائے بصورت دیگر 29 مارچ کو بریگزٹ ہوجائے گا۔

یہ بھی دیکھیں

روس کے الیکشن میں مداخلت نہ کی جائے: پیوٹن نے امریکا کو خبردار کر دیا

ماسکو: روس کے صدر ولادیمیر پیوٹن نے امریکا کو خبردار کرتے ہوئے کہا ہے کہ …