منگل , 23 اپریل 2024

جنگ مسئلے کا حل نہیں

(شکیل فاروقی)

گزشتہ 14 فروری کو مقبوضہ کشمیر کے شہر پلوامہ میں قابض بھارتی فوج کے خلاف خودکش حملے میں چالیس سے زیادہ فوجیوں کی ہلاکت کے بعد بھارت کی انتہا پسند جنونی قیادت نے کسی قسم کی چھان بین اور تفتیش کی زحمت گوارا کیے بغیر پاکستان کو مورد الزام ٹھہراتے ہوئے انتہائی جارحانہ انداز میں اپنی سینا کو پاکستان پر حملے کے لیے تیار رہنے کا حکم دے دیا۔ جواباً پاکستان نے ان بے بنیاد اور من گھڑت الزامات کو سختی سے مسترد کرکے اپنی بہادر مسلح افواج کو چوکس کرکے لائن آف کنٹرول سمیت پوری سرحد پر اپنے مورچے سنبھالنے کا حکم دے دیا۔

یوں 1948 کے بعد چھٹی مرتبہ پاک بھارت جنگ کی تیاریاں شروع ہوگئیں۔ کشمیر کا تنازع دراصل برطانوی حکومت کی جانب سے کی گئی برصغیر کی بندربانٹ کا نتیجہ ہے، حالانکہ بہادر حریت پسند کشمیریوں نے ڈوگرا سرکار کے خلاف 1931 میں ہی علم آزادی بلند کرکے اپنی تحریک کا آغاز کردیا تھا۔ گزشتہ 72 برسوں کے دوران پاکستان اور بھارت کے درمیان جو چار بڑی لڑائیاں لڑی گئیں ان میں سے تین جنگوں کا سبب تنازعہ کشمیر ہی رہا ہے۔ ایک جنگ جو روک دی گئی وہ بھی کشمیر ہی کے تناظر میں لڑی جانے والی تھی۔ تاریخ گواہ ہے کہ کشمیر پر جو بھی جنگ لڑی گئی اس میں پاکستانی قوم افواج پاکستان کے ساتھ کندھے سے کندھا ملائے ہوئے پوری جواں مردی کے ساتھ شریک رہی۔

اس سال بھارت میں ہونے والے عام چناؤ مودی سرکار کی ناکام پالیسیوں اور بھارتی جنتا سے پچھلے الیکشن میں کیے گئے وعدے سراسر جھوٹے ثابت ہونے کی وجہ سے حکمران جماعت بی جے پی کے لیے ایک بھیانک خواب بن چکے ہیں۔ یہی وجہ ہے کہ ان کے دماغ پر جنگی جنون سوار ہے اور وہ محدود پیمانے کی جنگ چھیڑ کر انتہا پسند ہندوؤں کی ہمدردیاں سمیٹنا چاہتے ہیں۔

اس حقیقت کو بھلا کیونکر فراموش کیا جاسکتا ہے کہ آج سے دو عشروں قبل اسی نریندر مودی نے بھارت کے صوبے گجرات میں مسلمانوں کے خون سے ہولی کھیل کر اسے مسلمانوں کا مقتل بنادیا تھا جس کے نتیجے میں ہزاروں مسلمان شہید اور لاکھوں بے گھر ہوگئے تھے جن کی بہت بڑی تعداد آج تک دوبارہ آباد اور بحال نہیں ہوسکی۔ مودی نے وزیر اعظم بن کر اس سلسلے کو مزید آگے بڑھایا اور بی جے پی اب مقبوضہ کشمیر کے مسلمانوں کے ساتھ بھی یہی خونی ناٹک رچانے میں شدومد کے ساتھ مصروف ہے۔

بی جے پی نے مقبوضہ کشمیر کی مسلم اکثریت کو بے لگام ظلم و تشدد کے ذریعے اقلیت میں تبدیل کرنے کا جوگھناؤنا منصوبہ تیار کیا ہے، اس پر نہایت سفاکی کے ساتھ عملدرآمد کیا جا رہا ہے۔ اسی منصوبے کے تحت بھارت کے آئین کے آرٹیکل 35(A) میں ترمیم کرنے کی مکروہ سازش بھی کی جا رہی ہے۔ یہ آرٹیکل ریاست کشمیر اور اہل کشمیر کو ایک خصوصی حیثیت دیتا ہے، اگر کشمیری مسلمان آج تک اکثریت میں ہیں تو یہ اسی آرٹیکل 25(A) کی بدولت ہے۔ مقبوضہ کشمیر بھارت کی دیگر ریاستوں کے مقابلے میں خصوصی حیثیت کا حامل اسی آرٹیکل کی وجہ سے ہے۔

مودی سرکار جو بھارتی مسلمانوں کو دیوار سے لگانے کے لیے کوشاں ہے اب اس آرٹیکل کو ختم کرانے کے درپے ہے۔ اس نے اس آرٹیکل کو بھارتی آئین کی روح سے متصادم قرار دے کر اسے منسوخ کرنے کی ایک درخواست بھارتی سپریم کورٹ میں دائر کی ہوئی ہے۔ بھارتی سپریم کورٹ اس سال ماہ اگست میں اس درخواست کا فیصلہ سنائے گی اور شدید خدشہ یہ ہے کہ فیصلہ مودی سرکار کے حق میں جائے گا۔ پھر اس کے بعد جو ہوگا وہ صاف ظاہر ہے۔ آر ایس ایس کے غنڈوں اور سنگھ پریوار کے بدمعاشوں کو کشمیر میں لا لا کر بسایا جائے گا۔ دوسری طرف کشمیریوں کو شک و شبے کا نشانہ بنا کر بھارت کے مختلف گوشوں میں بکھیر دیا جائے گا۔ یہ سلسلہ اس حد تک تو پہلے ہی شروع ہوچکا ہے کہ حریت قیادت کو گرفتار کرکے پورے بھارت میں منتشر طور پر پابند سلاسل کیا جا رہا ہے۔ اگر یہ سلسلہ اسی طرح جاری رہتے ہوئے مزید بڑھ گیا تو مقبوضہ کشمیر میں مسلمان اقلیت بن کر رہ جائیں گے جس کے بعد بھارت کشمیر کے مسئلے کو اقوام متحدہ کی سلامتی کونسل کی منظور کی ہوئی قراردادوں کے مطابق حل کرانے پر بھی شاید آمادہ ہوجائے گا۔

کشمیری مسلمان بے وقوف نہیں۔ انھیں بھارتی حکمرانوں کے مکروہ عزائم اور منصوبوں کا بخوبی اندازہ ہے۔ اسی لیے وہ مودی سرکار کے خلاف سراپا احتجاج اور کمربستہ ہیں۔ کشمیری حریت پسندوں نے اپنے سروں پر کفن باندھا ہوا ہے۔ بھارت کا بڑھتا ہوا ظلم و تشدد ان کے جذبہ آزادی کے شعلوں کو مزید ہوا دے رہا ہے۔ کشمیریوں کی نئی نسل کھلے عام کہہ رہی ہے کہ ہمیں جینے کا حق نہیں دیا جا رہا تو نہ سہی لیکن ہم سے مرنے کا حق تو چھینا نہیں جاسکتا۔ عادل احمد ڈار نے عملاً ایسا کرکے بھی دکھا دیا۔

کشمیر کے مسئلے پر پوری پاکستانی قوم ہم آواز اور متحد ہے۔ حکومت اور حزب اختلاف کا بھی موقف ایک ہی ہے۔ پوری قوم، حکومت پاکستان اپنی بہادر افواج کے ساتھ شانہ بشانہ ہیں۔ وزیر خارجہ شاہ محمود قریشی نے اپنی حالیہ پریس کانفرنس میں بھارت کے مکروہ عزائم اور نہتے کشمیریوں پر اس کے انسانیت سوز مظالم کو پوری دنیا کے سامنے بے نقاب کردیا۔ انھوں نے بھارت کے جھوٹے پروپیگنڈے کا مدلل جواب دے کر بھارت کے اصل مکروہ چہرے پر چڑھا ہوا مکھوٹا نوچ کر پھینک دیا ہے۔ پاکستان کی جانب سے بھارت کو کی جانے والی قیام امن کی پیشکش نے اقوام عالم کو باور کرادیا ہے کہ پاکستان ایک امن پسند ملک ہے اور وہ خطے کے استحکام اور علاقے کے ڈیڑھ ارب انسانوں کی زندگیوں کو ہولناک جنگ کی تباہ کاریوں سے بچانے میں انتہائی سنجیدہ اور مخلص ہے۔

پاکستان اور بھارت اس وقت ایٹمی قوت ہیں۔ چنانچہ اب اگر خدانخواستہ ان دونوں کے درمیان جنگ چھڑ گئی تو وہ ماضی کی جنگوں کی طرح محض روایتی ہتھیاروں تک محدود نہیں رہے گی۔ دنیا ہیروشیما اور ناگا ساکی پر ایٹمی حملوں کی ہولناک تباہی دیکھ چکی ہے۔ خیال رہے کہ بھارت اور پاکستان کے پاس موجودہ ایٹمی ہتھیار ان ہتھیاروں کے مقابلے میں کہیں زیادہ مہلک اور تباہ کن ہیں۔ ان خوفناک ہتھیاروں سے ہونے والی ہولناک تباہی و بربادی کا تصور بھی نہیں کیا جاسکتا۔ لہٰذا دونوں پڑوسی ممالک کی بقا اور سلامتی کا تقاضا یہی ہے کہ خواہ مخواہ کی اشتعال انگیزی اور دھمکیوں سے گریز کرتے ہوئے عاقبت اندیشی اور مفاہمت کی راہ اختیار کی جائے اور کشمیر سمیت تمام تصفیہ طلب مسائل کا حل مذاکرات کے ذریعے تلاش کیا جائے۔ بھارت کی غالب اکثریت خط غربت سے نیچے رہ کر زندگی گزار رہی ہے۔ نہ اس کے تن پر کپڑا ہے اور نہ پیٹ میں روٹی۔ انتہا یہ ہے کہ بھارتی خواتین اپنے پیٹ کی آگ بجھانے کے لیے جسم فروشی کرنے پر مجبور ہیں۔ بقول شاعر:

مفلسی حس لطافت کو مٹا دیتی ہے
افسوس کہ بھارتی جنتا کو غربت اور افلاس کی دلدل سے باہر نکالنے کے بجائے بھارتی قیادت اپنے وسائل ہتھیاروں کے حصول کی بھٹی میں جھونک رہی ہے۔ بھارت کی اسی غلط روش سے مجبور ہوکر پاکستان کو بھی اپنے دفاع کی خاطر اپنے محدود وسائل کا خاصا بڑا حصہ ہتھیاروں کی تیاری اور خریداری پر خرچ کرنا پڑ رہا ہے جسے بصورت دیگر ملک و قوم کی فلاح و بہبود کے لیے بروئے کار لایا جاسکتا ہے۔ سچ تو یہ ہے کہ دونوں ممالک کے درمیان ہتھیاروں کی دوڑ دونوں ہی کی ترقی و خوشحالی کی راہ میں سب سے بڑی رکاوٹ بنی ہوئی ہے۔ بھارت کو ذرا ٹھنڈے دل سے سوچنا اور اس حقیقت کا ادراک ہونا چاہیے کہ ستر سال کا مسلسل جبر و تشدد مقبوضہ کشمیر کے مسلمانوں کے جذبہ حریت و آزادی کو کچل نہیں سکا اور آج مقبوضہ وادی کی صورتحال پہلے سے کہیں زیادہ بھارت مخالف ہے۔

طاقت اور غرور کے نشے میں دھت بھارت کی حکمران قیادت نے پاکستان کی سیاسی اور عسکری قیادت کے ضبط و تحمل اور معقولیت پسندانہ رویے کو بالکل غلط مطلب اخذ کیا اور شرافت اور امن پسندی کو کمزوری سے تعبیر کرتے ہوئے اشتعال انگیزی اور دراندازی کا بدترین مظاہرہ کیا اور بھارتی طیارے 26 فروری کو بالاکوٹ میں فضائی دراندازی کا ناٹک رچا کر چلے گئے۔ لیکن اگلے ہی روز بھارت کے دو لڑاکا طیارے گرا کر پاک فوج اور پاک فضائیہ نے بھارتی جارحیت کا دندان شکن جواب دے کر بھارتی حکمرانوں کا نشہ ہرن اور پاکستانی عوام کا مورال بلند کرکے ثابت کردیا کہ:

باطل سے دبنے والے اے آسماں نہیں ہم
سو بار کر چکا ہے تو امتحان ہمارا

بھارتی طیارے کے پائلٹ کے زندہ پکڑے جانے کے واقعے نے فتح مندی کے احساس کو دوبالا اور قوم کی خوشی کو دوآتشہ کردیا۔ دوسری جانب پاکستان کی جانب سے کی گئی اس زبردست اور بروقت کارروائی نے بھارتی حکمرانوں کے ہوش ٹھکانے لگا دیے اور پاکستان کو کمزور گردان کر خوشی سے بغلیں بجاتے ہوئے بھارتی میڈیا کو یکدم سانپ سونگھ گیا۔ یہ امر خوش آیند ہے کہ پاک بھارت کشیدگی کو کم کرانے کے لیے قومی اور بین الاقوامی سطح پر کوششوں کا آغاز ہوگیا ہے۔ ادھر پی ٹی آئی کے رکن قومی اسمبلی ڈاکٹر رمیش کمار نے اپنے حالیہ نجی دورہ بھارت کے دوران بھارت کے پردھان منتری نریندر مودی کے ساتھ ملاقات میں واضح کردیا کہ جنگ مسئلے کا حل نہیں۔ امید ہے کہ بھارتی قیادت اس بات کو ہمیشہ کے لیے سمجھ جائے گی۔بشکریہ ایکسپریس نیوز

یہ بھی دیکھیں

مریم نواز ہی وزیراعلیٰ پنجاب کیوں بنیں گی؟

(نسیم حیدر) مسلم لیگ ن کی حکومت بنی تو پنجاب کی وزارت اعلیٰ کا تاج …