جمعہ , 19 اپریل 2024

وزیر اعظم کی خواہش

(ظہیر اختر بیدری) 

وزیر اعظم عمران خان نے منی لانڈرنگ کی موثر روک تھام اور اس کے نتیجے میں حاصل ہونے والی کامیابیوں کے بارے میں ایک اعلیٰ سطح اجلاس کی صدارت کرتے ہوئے کہا کہ منی لانڈرنگ میں ملوث عناصر کسی رعایت کے حق دار نہیں، ان کی اصلیت سامنے لائی جانی چاہیے۔

وزیر اعظم کو بتایا گیا کہ جعلی اکاؤنٹس کے ضمن میں اب تک 6 مختلف بینکوں کو 247 ملین روپے جرمانہ کیا گیا جب کہ 109 افسروں کے خلاف تحقیقات جاری ہے۔ اجلاس میں مشکوک ٹرانزیکشن رپورٹس کے اجرا اور فنانشل مانیٹرنگ یونٹ کی جانب سے رپورٹ کے جائزے اور تحقیقات کے حوالے سے بھی مفصل بریفنگ دی گئی۔ وزیر اعظم کو بتایا گیا کہ جولائی 2018 سے جنوری 2019 تک ضبط شدہ اشیا بشمول کرنسی کی مالیت 20,376 ارب روپے ہے جب کہ گزشتہ سال اسی عرصے میں ضبط شدہ اشیا کی مالیت 12,304 ارب روپے تھی۔

وزیر اعظم کو بتایا گیا کہ اینٹی منی لانڈرنگ کے قانون کے نفاذ کے بعد مئی 2016 سے جنوری 2019 تک کل 335 مشکوک ٹرانزیکشن کا اجرا کیا گیا جس کے نتیجے میں 500 سے زیادہ کیسز کی تحقیقات کی گئیں اور 6.6 ارب روپے کی ریکوری کی گئی۔ نومبر 2018 سے جنوری 2019 تک 305,06 ملین روپے مالیت کی کرنسی ضبط کیے جانے کے 11 کیسز میں ایف آئی آر کا اندراج کیا گیا۔
وزیر اعظم کو پیش کی گئی منی لانڈرنگ کی رپورٹ سے اندازہ کیا جاسکتا ہے کہ ہمارے ملک میں منی لانڈرنگ کا حشرکیا تھا۔ یہ سب کچھ قانون کی چھتری کے نیچے ہوا۔ حیرت ہے کہ اب بھی ہمارے دانشور مفکر جمہوریت کے گیت گا رہے ہیں۔ اس کا مطلب ہرگز یہ نہیں کہ جمہوریت کو گولی ماردی جائے بلکہ یہ بتانا مقصود ہے کہ کرپٹ عناصر نے جمہوریت کی آڑ میں لوٹ مار کا بازار گرم کرکے کس طرح جمہوریت کا کریا کرم کیا۔

اس حوالے سے اس بات کی نشاندہی ضروری ہے کہ یہ سارے گھپلے سرمایہ دارانہ نظام کے اسپانسر کیے ہوئے ہیں۔ وزیر اعظم فرما رہے ہیں کہ منی لانڈرنگ میں ملوث افراد کے ساتھ کوئی رعایت مناسب نہیں۔ وزیر اعظم کی یہ بات درست ہے کہ کرپشن وہ بھی اربوں روپوں کی کرپشن کا ارتکاب کرنے والے کسی رعایت کے مستحق نہیں ہیں۔ وزیر اعظم کا ارشاد بجا لیکن سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ کیا ایسا ہو رہا ہے؟

اس قسم کی بدعنوانیوں کے کیسز عدلیہ کے ہاتھوں میں جاتے ہیں اور عدلیہ قانون کے دائرے میں رہتے ہوئے ملزمان کے ساتھ بلاامتیاز انصاف بھی کر رہی ہے لیکن اس حوالے سے ایک سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ کیا عدلیہ کے فیصلوں پر فوراً عمل درآمد ہو رہا ہے؟ ہم نے اس حقیقت کی نشاندہی کی ہے کہ جہاں سرمایہ دارانہ نظام ہوگا یہ سب کچھ بلکہ اس سے زیادہ ہوتا رہے گا لیکن سرمایہ دارانہ نظام کو ختم کیا جانا آسان ہے؟ مجھے بڑے افسوس کے ساتھ یہ کہنا پڑ رہا ہے کہ سوشل ازم کو سرمایہ دارانہ نظام کے ایک بہتر متبادل کے طور پر لایا گیا اگرچہ سوشل ازم کو سازشوں کے ذریعے ختم کردیا گیا لیکن ساری دنیا میں سوشل ازم کی داعی پارٹیاں اب بھی بڑی تعداد میں موجود ہیں کیا وہ عوام کو ظالمانہ سرمایہ دارانہ نظام کے شکنجے سے نکالنے کی کوشش کر رہی ہیں؟

اس بات سے انکار نہیں کیا جاسکتا کہ سوشل ازم میں بھی کمزوریاں خامیاں تھیں اور ہوسکتی ہیں لیکن کیا اس حقیقت سے انکار کیا جاسکتا ہے کہ سوشلسٹ نظریے کو اس وقت تک شکست نہیں دی جاسکتی جب تک دنیا میں طبقاتی نظام موجود ہے اور غیر محدود نجی ملکیت کا حق موجود ہے۔ سرمایہ دارانہ نظام کے ساتھ صرف کرپشن کی واحد بیماری جڑی ہوئی نہیں ہے بلکہ ہتھیاروں کی تیاری اور کھربوں روپے کی تجارت اور جنگوں کا کلچر بھی اسی نظام کے ساتھ بندھا ہوا ہے۔ انفرادی سطح پر بھی آج جو برائیاں نظر آرہی ہیں وہ بھی اسی نظام بد کا شاہکار ہیں۔اس کا ہرگز یہ مطلب نہیں کہ سرمایہ دارانہ نظام کے سامنے گھٹنے ٹیک دیے جائیں بلکہ اس کے خلاف اور زیادہ شدت سے تحریکیں چلانے کی ضرورت ہے۔مجھے نہیں معلوم کہ عالمی سطح پر سرمایہ دارانہ نظام کے خلاف کیا کچھ کیا جا رہا ہے یعنی باقی ماندہ پارٹیاں کیا کچھ کر رہی ہیں لیکن روس چین جیسے سوشل ازم کے مرکز ٹوٹ کر بکھر جانے کے بعد ہر طرف ایک مایوسی کی کیفیت ضرور ہے۔

اگر دنیا بھر میں موجود جینوئن پارٹیاں ماضی کی غلطیوں کا ادراک کرکے ان سے بچتے ہوئے ازسر نو سرمایہ دارانہ نظام کے خلاف ایک منصوبہ بند تحریک شروع کریں تو سرمایہ دارانہ نظام سے بے زار اور متنفر عوام سرمایہ دارانہ نظام کے خلاف اٹھ کھڑے ہوسکتے ہیں اس کام کے لیے پارٹیوں کو عوام میں جانا ہوگا اور عوام کو بتانا ہوگا کہ آپ جن مصائب میں گرفتار ہیں اور آپ کے سر پر مسائل کے جو انبار ہیں وہ دنیا کی تاریخ کے اسی بدترین نظام کی بدولت ہیں۔ہم نے کالم کا آغاز پاکستان میں منی لانڈرنگ کی بڑھتی ہوئی وبا کے حوالے سے کیا تھا۔

آج پاکستان میں اربوں روپوں کی منی لانڈرنگ کے کیسز عدالتوں میں زیر سماعت ہیں۔ سرمایہ دارانہ نظام کے سرپرست بھی اس حقیقت سے واقف ہیں کہ اس کی تخلیق کرپشن جب حد سے بڑھے گی تو اس کے خلاف مزاحمت شروع ہوجائے گی۔ اس کا تدارک کئی طریقوں سے کیا جا رہا ہے جس میں سب سے بڑا طریقہ یہ ہے کہ کرپشن کو ان جگہوں تک پہنچایا جائے جہاں اس کے تدارک کی کوششیں ہوتی ہیں خاص طور پر قانون اور انصاف کے اداروں تک جو اس بلا کے خلاف کوششوں میں مصروف ہیں۔پاکستان کی آبادی 22 کروڑ ہے۔ 90 فیصد آبادی دو وقت کی روٹی سے محتاج ہے اس کے برخلاف 2 فیصد سے کم آبادی ایسی ہے جو 80 فیصد دولت کی مالک ہے، ان تونگروں کی حرص کا عالم یہ ہے کہ وہ اور زیادہ سے زیادہ دولت قبضہ کرنے کی کوشش میں لگے ہوئے ہیں۔

ہمارے وزیر اعظم فرما رہے ہیں کہ منی لانڈروں سے کوئی رعایت نہیں برتی جائے گی لیکن منی لانڈروں کے مخالفین کا کہنا ہے کہ گرفتار منی لانڈر، جن کا احتساب ہو رہا ہے وہ جیلوں میں بھی 5 اسٹار ہوٹلوں کے مزے لے رہے ہیں کیونکہ اس سسٹم میں دولت ایک قاتل کو بھی وی آئی پی کا درجہ دلا دیتی ہے۔ وزیر اعظم ہوسکتا ہے ان حقائق سے ناواقف ہوں لیکن منہ پھٹ میڈیا کسی کو نہیں بخشتا اندر کی کہانیوں بلکہ پراسرارکہانیوں کو باہر لاتا ہے۔بشکریہ ایکسپریس نیوز

یہ بھی دیکھیں

مریم نواز ہی وزیراعلیٰ پنجاب کیوں بنیں گی؟

(نسیم حیدر) مسلم لیگ ن کی حکومت بنی تو پنجاب کی وزارت اعلیٰ کا تاج …