جمعہ , 19 اپریل 2024

عالمی طاقتیں کشمیر میں گھسنا چاہتی ہیں

(سید شکیل احمد) 

وزیراعظم عمران خان نے کہا ہے کہ پاک بھارت کشیدگی میں کمی آئی ہے‘جنگ ٹل گئی ہے مگر خطرہ ابھی برقرارہے‘جنگ کو خارج از امکان قرارنہیں دیاجاسکتا‘ دونوں ممالک کی افواج اب بھی مکمل طورپر الرٹ اور جنگی پوزیشن پر ہیں۔ بدھ کو عمران خان کی زیر صدارت پی ٹی آئی کی پارلیمانی پارٹی کا اجلاس ہوا جس میں پارلیمانی پارٹی نے اقتصادی اصلاحات بل 2018-19کی منظوری دی‘ذرائع کے مطابق اس موقع پر وزیراعظم نے پاک بھارت کشیدگی پر پارٹی ارکان کو اعتماد میں لیااور کہا کہ کالعدم تنظیموں پر پابندی ملک کا اندرونی معاملہ ہے، کوئی بھی فیصلہ عالمی دباؤکے پیش نظر نہیں کیا جارہا‘دنیا پر واضح کرچکے کہ ہم وہ فیصلہ کریں گے جو ملکی مفاد میں ہو گا۔وزیراعظم نے مسلح افواج کی بہادری کو خراج تحسین پیش کرتے ہوئے کہا کہ پوری قوم کو اپنے بیٹوں پر فخر ہے‘عمران خان نے وزارت خارجہ کو بھی خراج تحسین پیش کیا۔ اپنی جگہ وزیراعظم کی بات درست ہے اور ہو سکتا ہے کہ پاکستان نے کوئی فیصلہ بیر ونی دباؤ میں آ کر نہیں کیا کچھ عرصہ پہلے کی بات ہے کہ وزیر داخلہ شہر یا ر آفریدی سے ایک وفد نے ملاقات کی تھی جس میں وفد کے شرکا ء نے دینی ، فلا حی اور ایسی ہی تنظیمو ں پر پابندی عائد ہو نے کا خدشہ ظاہر کیا تھا ، جس پر شہریارآفرید ی نے بے دھڑکے فرمایا تھا کہ کہ حافظ سعید تو الگ بات ہے جب تک پی ٹی آئی اور ہم پارلیمنٹ میں ہیں کوئی مائی کا لا ل ان پر پا بندی نہیں لگاسکتا ۔

اب پا بندیاں لگنا شروع ہو گئی ہیں اور یہ پابندیا ں ڈوزئیر کے بعد لگنا شروع ہوئی ہیں ۔ جس کے بارے میںحکومتی حلقو ں کا مو قف ہے کہ بھارت یا کسی کے دباؤ میں آکر پا بندی لگا نے کا فیصلہ نہیں کیا گیا ہے۔کسی حکومت نے اپنی غلطیو ں سے نہ تو سیکھا ہے اور نہ کبھی اپنی غلطی کو تسلیم کیا ہے اورنہ کبھی یہ تسلیم کیا ہے کہ اس کے فیصلے اپنے نہیں ہو تے کسی دباؤ کا نتیجہ ہو ا کر تے ہیں ۔ پہلی بات تویہ ہے کہ حکومت کو بھارت سے ڈوزئیرمانگنا ہی نہیں چاہیے تھا ، یہ نا قص خارجہ پا لیسی اور نا تجر بہ کا ری کی علا مت ہے ، جس طرح ماضی میں پاکستان کا مو قف رہا ہے کہ پا کستان دہشت گردی کی کسی کا رروائی میں ملو ث نہیں ہے اور وہ دہشت گردی کے خلاف جنگ کر رہا ہے اسی مو قف کو اپنا نا چاہیے تھا ، ثبوت ما نگنے کی ضرورت ہی نہیں تھی۔اب بھارت نے ڈوزئیر دئیے ہیں تو ان کا جو اب بھی دینا ہو گا ۔ جہا ں تک جما عت الدعوۃ اور فلا ح انسانیت کے خلا ف کا رروائی کا تعلق ہے تو اس مو قف کو کوئی تسلیم نہیںکر ے گا کہ یہ محض اتفاق ہے کہ جن کے خلا ف کا رروائی کی جا رہی ہے ان کا نا م اتفاق سے ڈوزئیر میں شامل ہے ۔

جہا ں تک وزارت خارجہ پر وزیر اعظم کے اعتما د کا اظہا ر ہے تو وہ بھی باعث حیر ت ہے کیو ں کہ اس ہنگامی دور میں وزارت خارجہ کی کا رکر دگی پھس پھسی رہی ہے ، اس امر کی اطلاعات سرکا ری ذرائع سے ملتی رہی ہیں کہ فلا ں ملک کے سربراہ یا وزیر خارجہ کی ٹیلی فون کا لز آئیں مگر یہ کوئی اطلا ع نہیں کہ انہو ں نے پاکستان کے ساتھ کھڑے ہو نے کا مظاہرہ کب اور کہاں کیا ۔ ماسوائے ترکی کے صدر اردگان کے کہ ان کے حوالے سے یہ خبر جا ری ہوئی کہ انہوں نے پاکستان کی حما یت کی ۔

خارجہ پا لیس کی نا کا می اسلا می کا نفرنس کے مو قع پر بہت کھٹکی ، یہا ں پا کستان کا مئو ثر کردار نظر نہیںآیا ، جبکہ اسلا می کا نفرنس میں بھی خارجہ پا لیسی کی ڈونڈی خوب پیٹی جا رہی ہے ، پہلی نا کا می تو یہ رہی کہ بھارت کو اسلا می کانفرنس میں مہمان خصوصی کا درجہ پا کستان کی کا وشو ں کے باوجو د ملا ، جہا ںتک کشمیر سے متعلق قرار داد کا تعلق ہے تو اس قرارد اد نے پیش تو ہو نا تھا کیو ں کہ وہ ایجنڈے میں پہلے ہی شامل تھی ، البتہ کانفرنس کے شر کا ء کا شکریہ کہ انہو ں نے پاکستان کی عد م شرکت کے باوجو د یہ قرار داد منظورکرلی ، لیکن اسلامی کا نفرنس کے اجلا س کا جو اعلامیہ جا ری کیا گیا اس میں اس قرا ر داد کا دور تک ذکر نہیں ہے ۔ اس کے باوجو د اگر عمر ان خان یہ کہیں کہ ان کی کا میا ب خارجہ پالیسی ہے تو حیر انی تو ہو نی ہے ۔اب یہ بات ڈھکی چھپی نہیں رہی ہے کہ عالمی طاقتیں کشید ہ حالا ت کے ذریعے مقبوضہ کشمیر پر ہا تھ صاف کرنا چاہتی ہیں ، اور وہ ان مقا صد کے لیے ایک ہلکی پھلکی جنگ کر انے کے لیے بھی فضاء ہمو ار کررہی ہیں ، جیسا کہ وزیر اعظم عمر ان خان نے فرما یا ہے کہ پاک بھارت کشیدگی میں کمی آئی ہے‘جنگ ٹل گئی ہے مگر خطرہ ابھی برقرارہے‘جنگ کو خارج از امکان قرارنہیں دیا جاسکتا‘دونوں ممالک کی افواج اب بھی مکمل طورپر الرٹ اور جنگی پوزیشن پر ہیں۔

کشمیر کے معاملے میں عالمی طاقتو ںبالخصوص امریکی پالیسی جو ہے وہ بھی تشویش نا ک ہے اس سے غافل نہیں رہنا چاہیے ، کیوں کہ کوئی بھی ایسا حل جو کشمیر کے عوام کی مر ضی و منشا کے بغیر ہو گا وہ نہ تو پائیدار حل ہو سکتا ہے بلکہ حل ہو ہی نہیں سکتا ، کشمیر کا کوئی ایسا گھرانہ نہیں ہے جس گھر سے حریت کی راہ میں قربان ہو نے والے کا جنا زہ نہ اٹھا ہو ۔جب کشمیر کے باشندوںکو بھارت قبول نہیں ہے تو وہ کسی تیسری قوت کو کس طر ح قبول کر لیں گے ، یہ نا ممکن ہے چنانچہ مسئلے کے حل کی راہ میں ایسا کو ئی ڈھونگ رچا کر کوئی کھیل کھیلا گیا تو یہ موجو دہ حالا ت سے زیا دہ خطرنا ک ثابت ہو گا ۔بھارت جو ایک سیکولر ریا ست کے طور پر وجو د میں آیا اس کو مو د ی نے ہندو ریاست کا تشخص دید یا ہے اور وہ بھارت کے ایک دوسرے درجہ کی اکثریت کی آڑ لے کر اسلا می ملکو ں کی صف میں گھس رہا ہے ۔اسرائیل میںبھی مسلما ن آبا د ہیں اور وہ فلسطینی النسل ہیں فلسطینی ریاست اور اسرائیل کی مسلما ن آبا دی کو شامل کر لیا جائے تو ایک بڑی اکثریت جو اسرائیل کی صیہونی آبادی سے بھی کئی گنا بڑی ہو جا تی ہے تو کل اسی آبادی کی بنیا د پر کیا اسرائیل کو بھی اسلامی کانفرنس تنظیم میں شامل کر نے کا جو ا ز قبول کر لیا جا ئیگا ۔بشکریہ مشرق نیوز

یہ بھی دیکھیں

مریم نواز ہی وزیراعلیٰ پنجاب کیوں بنیں گی؟

(نسیم حیدر) مسلم لیگ ن کی حکومت بنی تو پنجاب کی وزارت اعلیٰ کا تاج …