ہفتہ , 20 اپریل 2024

معاشی جنگوں کا دور

(سید ذیشان علی کاظمی) 

لمحہ موجود جس میں ہم جی رہے ہیں، معاشی جنگوں کا دور ہے ،عالمی تجارت میں مخالف ملک کو بڑی مہارت سے زیر کر کے شکست سے دوچار کیا جارہا ہے،روس، امریکہ،چین اور دیگر ترقی یافتہ ممالک میں اندرون خانہ ایسی ہی جنگیں ہو رہی ہیں ،عجب بات ہے کہ ان جنگوں میں اسلحہ کی جگہ ذہانت کا استعمال کیا جارہا ہے ،ایک دوسرے کے جانی دشمن بھی ڈنر یا لنچ کی ٹیبل پر بیٹھتے ہیں اور اپنے معاملات کو مسکراتے ہوئے ذہانت اورچالبازی کے ساتھ حل کرکے اٹھتے ہیں جبکہ ترقی پذیر ممالک آج بھی اسلحہ کے زور پر جنگیں لڑ کر اپنی معیشت کا بیڑہ غرق کر رہے ہیں۔ شمالی کوریا جیسا ملک جو بات بات پر جوہری دھماکوں کی دھمکی دیتا تھا آج وہ بھی امن کی باتیں کر رہا ہے ، شمالی کوریا کے وزیر خارجہ ری یونگ کا کہنا ہے کہ امریکا ہماری شہری معیشت اور ہمارے لوگوں کی زندگیوں پر اثرانداز ہونے والی پابندیاں ختم کرے تو ہم امریکی ماہرین کی موجودگی میں یونگ بیون کی جوہری تنصیبات کا مکمل خاتمہ کر دیں گے۔

1962ء تک جرمنی امریکی امداد پر چلنے والا دنیا کا سب سے بڑا ملک تھا۔ دنیا کے 14 ممالک جرمنی کو امداد دیتے تھے اور سب سے دلچسپ حقیقت یہ ہے کہ ان امداد دینے والے ملکوں میں ہمارا ملک پاکستان بھی شامل تھا۔ ایوب خان کے دور میں پاکستان نے 20 سال کے لئے جرمنی کو 12 کروڑ روپے قرض دئیے تھے اور جرمن چانسلر نے اس مہربانی پر حکومت پاکستان کا باقاعدہ شکریہ ادا کیا وہ خط آج بھی وزارت خارجہ کے آرکائیو میں محفوظ ہے۔1973 ء تک شمالی اور جنوبی کوریا کی دولت ایک جتنی تھی۔ اس کے بعد سے اب تک جنوبی کوریا نے دنیا کے کلیدی صنعتی ملک کا درجہ حاصل کرنے کے لیے تیز رفتاری دکھائی ہے ،سام سنگ اور ہنڈائی جیسے ادارے عالمی سطح پر گھریلو نام بن گئے ہیں۔شمالی کوریا 1980ء میں جمود کا شکار ہو گیا اور ملک اپنے ریاستی نظام میں بری طرح پھنستا چلا گیا۔ شمالی کوریا آبادی کے لحاظ سے دنیا کا 52 واں بڑا ملک اور چوتھی بڑی فوج کا حامل ہے۔اندازوں کے مطابق فوج کے اخراجات مجموعی قومی پیداوار کا 25 فیصد ہیں اور تقریباً ہر شمالی کوریائی مرد کسی نہ کسی انداز میں فوجی تربیت حاصل کرتا ہے۔90ء کی دہائی کے آخر میں قحط کے سلسلوں کی وجہ سے شمالی کوریا میں متوقع مدت حیات میں تیزی سے کمی آئی لیکن اس عنصر کو نکال بھی دیا جائے تو شمالی کوریا میں جنوبی کوریا کے مقابلے میں اوسط عمر 12 سال کم ہے۔شمالی کوریا میں عوام کو خوراک کی کمی کا سامنا رہتا ہے اور یہی وجہ ہے جنوبی کوریائی عام طور پر زیادہ لمبی زندگی گزارتے ہیں۔جنوبی کوریا ایک خوشحال اورترقی یافتہ ملک ہے جس کی جی ڈی پی 1622ارب ڈالر ہے جبکہ شمالی کوریا انتہائی پسماندہ اور غریب ملک ہے جس کی جی ڈی پی محض 40ارب ڈالر ہے۔ شمالی کوریا کو محض دو حوالوں سے جنوبی کوریا پر برتری حاصل ہے۔ایک تو ٹرانسپرنسی انٹرنیشنل کے مطابق شمالی کوریا دنیا کا بدعنوان ترین ملک ہے اور دوسرے شمالی کوریا کے دفاعی اخراجات اپنی حیثیت سے کہیں بڑھ کر ہیں۔جنوبی کوریا نسبتاً بڑا ملک ہے اس کی آبادی تقریباً پانچ کروڑ ہے اور اس کی مسلح افواج کی تعداد (بشمول ریزرو فورس) 655000 ہے اور یہ اپنی جی ڈی پی کا 2.8 فیصد دفاع پر خرچ کرتا ہے جبکہ شمالی کوریا کی آبادی اڑھائی کروڑ ہے اس کی مسلح افواج کی تعداد 1190000ہے اور یہ دفاع پر جی ڈی پی کا 22.3فیصد خرچ کرتا ہے۔

امرواقعہ یہ ہے کہ 1960ء کے اوائل میں جبکہ جنوبی کوریا اپنے بدترین دور سے گزر رہا تھا۔ اس وقت پاکستان کو دنیا بھر میں معاشی ترقی کے حوالے سے بڑی پذیرائی مل رہی تھی اور دنیا بھر میں پاکستان کی معاشی ترقی کے چرچے تھے جبکہ اقتصادی ترقی کے حوالے سے پاکستان کے اس وقت کے دارالحکومت کراچی کی ساری دنیا معترف ہورہی تھی۔اس وقت بہت سے ممالک نے پاکستان کی معاشی ترقی کو سراہا تھا جن میں جنوبی کوریابھی شامل تھااور یہ جنوبی کوریا ہی تھا جو ہم سے ہمارادوسرا پنج سالہ منصوبہ لے کر گیا تھا مگر ہم نے تواس کو الماری کی زینت بنادیا جبکہ جنوبی کوریا نے اس کو اپنے ملک میںنافذ کیا جس کا نتیجہ آج سب کے سامنے ہے۔

اگر ہم 1960ء کے پاکستان اور جنوبی کوریا کامعاشی موازنہ کرتے ہیں تو ہمیںباآسانی اندازہ ہوتا ہے کہ اس وقت پاکستان کی شرح نمو 6فیصد سالانہ تھی جبکہ جنوبی کوریا کی 0.6فیصد سالانہ تھی۔ اس وقت پاکستان میں پیداواری شعبہ کی ابتداء ہوئی تھی جس میں سیمنٹ انڈسٹری، آٹو موبائل انڈسٹری اور بھاری صنعتوں میں پیداواری عمل کا آغاز ہوا تھا جبکہ اسی دوران جنوبی کوریا میں بھی پیداواری عمل اور بھاری صنعتوں کی جانب قدم بڑھایا گیا تھا۔ مگر ہوا کچھ یوں کہ پاکستان میں پیداواری عمل بتدریج ختم ہوتا گیا جبکہ جنوبی کوریا نے پیداواری شعبے میں اپنی دھاک دنیا پر بٹھا دی۔اس کے علاوہ 1960-1961 میں جنوبی کوریا کی برآمدات 85ملین ڈالرز جبکہ پاکستان کی برآمدات 378ملین ڈالرز تھیں یعنی پاکستان کی برآمدات جنوبی کوریا کی برآمدات سے 77گنا زیادہ تھیں مگر اب قسمت کی ستم ظریفی دیکھئے کہ جنوبی کوریا کی برآمدات پاکستان کی برآمدات سے 96گنا زیادہ ہیں یعنی جنوبی کوریا تومعاشی ترقی کی جانب گامزن رہا اور ہم معاشی پستی میں گرتے چلے گئے۔یہاں اس تجزئیے کا مقصد صرف یہ ہے کہ اگر معاشی پالیسیاں پائیداراور زمینی حقائق کے مطابق ہوں ، ان پر ایمانداری سے عمل بھی کیا جائے اور جنگوں میں اپنا پیسہ اور قیمتی وقت ضائع کرنے کے بجائے اپنی معیشت کو بہتر بنانے پر تمام توانائیاں صرف کی جائیں تو دنیا کی کوئی طاقت معاشی استحکام اور ترقی سے نہیں روک سکتی مگر ناقص اور غیر پائیدارپالیسیوں پر چلنے کا نتیجہ وہی ہوتا ہے جو آج پاکستان کا ہورہا ہے۔بشکریہ مشرق نیوز

یہ بھی دیکھیں

مریم نواز ہی وزیراعلیٰ پنجاب کیوں بنیں گی؟

(نسیم حیدر) مسلم لیگ ن کی حکومت بنی تو پنجاب کی وزارت اعلیٰ کا تاج …