جمعہ , 19 اپریل 2024

جو گن نہیں گائیں گے مارے جائیں گے

(وسعت اللہ خان )

بات صرف حب الوطنی تک رہے تو بہت اچھا ہے ۔مگر بات کم بخت رہتی نہیں ہے۔ حب الوطنی کے بے ضرر بیج سے جو کونپل پھوٹتی ہے وہ بڑھتے بڑھتے قوم پرستی میں بدل جاتی ہے اور پھر یہ قوم پرستی جنونیت کے گھنے درخت کی شکل اختیار کر لیتی ہے کہ جس کی عدم برداشتی چھایا تلے اور آس پاس کوئی اعتدالی و عقلی پودا پنپ نہیں پاتا۔اور پھر اس جنونیت کی شادی نظریاتی تنگ نظری سے ہو جاتی ہے اور اس شادی سے جنگ کا آتشیں دیوتا جنم لیتا ہے جو سارا جنگل اور چرند پرند درند بھسم کردیتا ہے اور پھر اس راکھ سے زندگی دوبارہ جنم لیتی ہے اور کچھ عرصے بعد پھر یہی زندگی اپنے فطری تساہل کے سبب اغوا ہو کر پھر اسی گھن چکر میں پھنستی چلی جاتی ہے کہ جس میں پھنس کر وہ بھسم ہوئی تھی۔

وحشی بننے اور بنانے کے لئے چند تکراری تقاریر کافی ہیں پر وحشت ٹھنڈا کرنے کے لئے بہت سے پاگلوں کی عشروں پر پھیلی ریاضت چاہئیے۔ جھوٹ روشنی کی رفتار سے سفر کرتا ہے اور سچ کچھوے کی رفتار سے آگے بڑھتا ہے۔ درندگی کی عمر لاکھوں برس ہے۔ برداشت کی عمر محض چند سو برس۔ تہذیبی رویوں کو مسلسل رکھنے اور نسل در نسل منتقل کرنے کے لئے تعلیم، وسائل اور چوبیس گھنٹے جاگنے کی ضرورت رہتی ہے۔ جہاں آنکھ بچی وحشت اور جنون خود رو نوکیلی جھاڑیوں کی طرح پھر سر ابھار لیتے ہیں۔

ہر چھوٹی بڑی جنگ کا نوالہ سب سے پہلے دشمن نہیں بلکہ بنیادی سوالات اور انہیں اٹھانے والے بنتے ہیں۔پہلی عالمی جنگ سے نائن الیون تک، پینسٹھ کی جنگ سے چودہ فروری کی پلوامہ گھٹنا تک ایک ہی بیانیہ کام آتا ہے ۔

یہ نازک وقت ہے اس لئے کورس میں گیت گانا بے حد ضروری ہے ۔گیت کے بول بھی ہم لکھ کے دیں گے، دھن بھی ہم دیں گے، آرکسٹرا کا انتظام بھی ہم ہی کریں گے۔ تمہیں بس آواز ملانی ہے۔ یہ نازک وقت ہے مت پوچھو کہ ریاست نے تمہیں کیا دیا، یہ بتاؤ تم ریاست کو اور کیا کیا دے سکتے ہو۔

صرف یہ پوچھنا حلال ہے کہ پلوامہ کے حملے کا ذمہ دار کون ہے مگر یہ پوچھنا غداری کہ قدم قدم پر پھیلے مخبروں کے ہوتے عادل احمد ڈار کہ جس کا باپ دو وقت کی روٹی بھی مشکل سے کما پار ہا تھا اس کے پاس لاکھوں روپے کا ڈھائی سو کلو دھماکہ خیز مواد کہاں سے آیا اور کس رنج نے عادل احمد ڈار کو خودکش بنایا؟

بس یہ پوچھو کہ دشمن کے طیاروں کی بمباری سے کتنی مٹی اور کتنے درخت اڑے یہ مت پوچھو کہ دشمن کے بارہ طیارے ساٹھ کلومیٹر اندر تک ریڈاری دیوار سے بچتے ہوئے کیسے گھس آئے اور پھر سارے کے سارے سلامت کیسے لوٹ گئے؟

ملک نازک دوراہے پر کھڑا ہے اور تم ایسے سوالات اٹھا رہے ہو۔ آخر تم چاہتے کیا ہو ؟

روزگار ؟ بک بک بند ملک کی سلامتی داؤ پر ہے ۔اسپتال ؟ چپ ، ملکی سلامتی داؤ پر ہے ۔معیاری تعلیم ؟ بکواس بند ۔اچھا تو جان و مال ، عزت و آبرو ؟ لگتا ہے تم بالکل پگلا چکے ہو ۔اچھا یہی بتا دو کہ اس بحران کے نتیجے میں قرضوں کا بوجھ اور کتنا بڑھے گا ؟ یار یہ ایسے نہیں مانے گا۔اسے پتھر مارو۔

مت بتاؤ کہ تم ریاست کو کہاں لے جانا چاہتے ہو ؟ تمہارا کیا خواب تھا یا ہے ؟ تمہاری اور تمہارے خواب کی ایسی تیسی ۔بس یہ کہنے کی اجازت ہے کہ ریاست جہاں بہتر سمجھے ہم سب کو لے جائے۔ وطن کے لئے مال حاضر ہے اور جان بھی ۔بس اتنی سی بات سمجھ لو گے تو امریکہ میں بھی خوش رہو گے اور چین میں بھی۔ بھارت میں بھی اور پاکستان میں بھی۔

جب کوئی صنعت منافع بخش نہ ہو تو سب سے زیادہ منافع بخش بحران کی صنعت ہوتی ہے ۔جب وعدوں کی تعبیر پلے نہ ہو تو پھر خوف ہی سب سے زیادہ فروخت ہو سکتا ہے ۔خوف ہر سوال کا اکسیری جواب ہے۔

جو سچ سچ بولیں گے مارے جائیں گے
جو اس پاگل پن میں شامل نہیں ہوں گے مارے جائیں گے
کٹہرے میں کھڑے کر دئیے جائیں گے ، جو ورودھ میں بولیں گے
برداشت نہیں کیا جائے گا کہ کسی کی قمیض ہو ان کی قمیض سے زیادہ سفید
قمیض پے جن کے داغ نہ ہوں گے مارے جائیں گے
دھکیل دئیے جائیں گے کلا( فن ) کی دنیا سے باہر
جو گن نہیں گائیں گے مارے جائیں گے
سب سے بڑا اپرادھ ( جرم ) ہے اس سمے میں نراپرادھی ( بے گناہ ) ہونا
جو اپرادھی نہیں ہوں گے مارے جائیں گے ( راجیش جوشی )
(بشکریہ ہم سب نیوز)

یہ بھی دیکھیں

مریم نواز ہی وزیراعلیٰ پنجاب کیوں بنیں گی؟

(نسیم حیدر) مسلم لیگ ن کی حکومت بنی تو پنجاب کی وزارت اعلیٰ کا تاج …