جمعرات , 18 اپریل 2024

فیمینزم اور عورت مارچ۔ مردوں کو کیا ہوگیا ہے؟

(انجم رضا)

اگر آپ سوشل میڈیا پر ایکٹو ہیں تو آپ نے 8 مارچ کو پاکستان کے بڑے بڑے شہروں میں ہونے والے عورت مارچ حوالے سے بہت سی پوسٹس ضرور دیکھی ہوں گی۔ پاکستان بھر سے مختلف طبقہ ہائے فکرعورت مارچ کے حوالے سے پوسٹس کر رہے ہیں۔ یہ عورت مارچ کیا ہے اور کیوں ہوا؟

8 مارچ یعنی خواتین کے عالمی دن پر پاکستان کی عورتوں نے مختلف شہروں میں اپنے حقوق کے لیے ایک مارچ کیا۔ اس مارچ کو عورت مارچ کا نام دیا گیا۔ پاکستان کے بڑے شہروں کراچی، لاہور اور اسلام آباد میں خواتین نے عورت مارچ کے نام سے ریلیاں منعقد کیں۔

اسلام آباد میں پریس کلب سے سپر مارکیٹ تک نکالی گئی ریلی کو ’عورت آزادی مارچ‘ کا نام دیا گیا۔ ریلی میں سینکڑوں خواتین نے بینرز اور پلے کارڈ اٹھا رکھے تھے جن پر خواتین کے حقوق کے نعرے درج تھے۔ اسی طرح لاہور میں پریس کلب شملہ پہاڑی سے براستہ اسمبلی ہال الحمرا آرٹ سنٹر تک سینکڑوں عورتوں نے مارچ کیا۔

عورت آزادی مارچ میں مرد بھی شامل تھے۔ اور ان کا کہنا تھا کہ وہ اس مارچ میں اس لیے آئے ہیں کہ اس نظام میں عورت کو دوسرے درجے کا انسان سمجھا جاتا ہے۔ ’اور ہم اس جبر کے نظام میں عورت کو برابر کا انسان دینے کے لیے اس کے حق کی حمایت کے لیے آئے ہیں‘۔

سوشل میڈیا صارفین نے عالمی یوم خواتین پر فیس بک اور ٹوئٹر پر تصاویر شیئر کی ہیں اور عورتوں کو خراج تحسین پیش کیا ہے تاہم کئی صارفین نے لاہور میں منعقد کیے گئے عورت مارچ میں سامنے لائے پلے کارڈز پر درج نعروں کے خلاف اپنی رائے میں غم و غصہ بھی ظاہر کیا ہے۔پاکستانی میں ’ویمن ڈے‘ کی مناسبت سے کئی ٹرینڈز پر خواتین کے ساتھ ساتھ مرد بھی اپنی آرا کا اظہار کر رہے ہیں۔

یہ درست ہے کہ عورتوں کو با اختیار بنانے کی ضرورت ہے۔ انھیں حقوق، مقام، آزادی اور احترام سبھی کچھ ملنا چاہیے آزادی کپڑوں سے نہیں ذہنییت سے ہونی چاہیے، ترقی پسندی لباس سے زیادہ خیالوں سے ہونا ضروی ہے۔ عورتوں کی تعلیم، ان کی شخصی آزادی، ان کی پسند و ناپسند، ان کا نظریہ وغیرہ۔ اظہار خیال کی آزادی انتہائی اہم ہے اور اسی سمت میں کام کیا جانا چاہیے۔

یوم خواتین کے پس منظر کو دیکھیں تو ہمیں معلوم ہوتا ہے کہ امریکہ میں خواتین نے اپنی تنخواہ کے مسائل کے متعلق احتجاج کیا، لیکن ان کے اس احتجاج کو گھڑسوار دستوں کے ذریعے کچل دیا گیا، پھر 1908 میں امریکہ کی سوشلسٹ پارٹی نے خواتین کے مسائل حل کرنے کے لیے ”وومین نیشنل کمیشن“ بنایا اور اس طرح بڑی جدوجہد کے بعد فروری کی آخری تاریخ کو خواتین کے عالمی دن کے طور پر منایا جانے لگا۔

عالمی یوم خواتین، سب سے پہلے 28 فروری کو 1909 میں امریکہ میں منایا گیا، پہلی عالمی خواتین کانفرنس 1910 میں کوپن ہیگن میں منعقد کی گئی، 8 مارچ 1913 کو یورپ بھر میں خواتین نے ریلیاں نکالیں اور پروگرام منعقد کیے، اور اب برسوں سے 8 مارچ کو عالمی سطح پر یوم خواتین منایا جاتا ہے۔ اقوام متحدہ نے 1656 میں 8 مارچ کو عورتوں کے عالمی دن کے طور پر منانے کا فیصلہ کیا۔

چین، روس، نیپال، کیوبا، اور بہت سے ممالک میں اس دن خواتین ورکرز کی چھٹی ہوتی ہے، اور دیگر ممالک کی طرح پاکستان میں بھی یہ دن بڑے جوش و خروش سے منایا جاتا ہے۔

عورتوں کے حقوق سے مراد وہ حقوق (rights) اور قانونی استحقاق (entitlement) ہیں جن کا مطالبہ دنیا کے بہت سے معاشروں میں خواتین اور لڑکیوں کی طرف سے کیا جاتا ہے اور جن کے مطالبہ نے انیسویں صدی کی حقوق نسواں تحریک (women ’s rights movement) اور بیسویں صدی کی تحریکِ نسائیت (feminist movement) کو بنیاد فراہم کی۔ دنیا کے کئی ممالک میں ان حقوق کو قانونی اور سماجی تحفظ حاصل ہے لیکن بہت سے ممالک میں ان حقوق کو غصب یا نظر انداز کیا جاتا ہے۔ حقوق نسواں کی اصطلاح میں تمام انسانی حقوق شامل کیے جا سکتے ہیں لیکن عمومی طور پر اس موضوع میں وہی حقوق شامل کیے جاتے ہیں جن کے استحقاق کے حوالے سے معاشرہ مرد اور عورت کے درمیان فرق روا رکھتا ہے۔ چنانچہ حقوقِ نسواں کی اصطلاح عام طور پر جن حقوق کے لیے استعمال کی جاتی ہے ان میں خواتین کے لیے جسمانی تحفظ کی یقین دہانی، معاشی خود مختاری، جنسی استحصال سے تحفظ، حکومتی اور سماجی اداروں میں برابری کی بنیاد پر ملازمتیں، مردوں کے برابر تنخواہیں، پسند کی شادی کا حق، افزائش نسل کے حقوق، جائداد رکھنے کا حق اور تعلیم کا حق شامل ہیں۔

یہ نسائیت اور فیمینزم ہے کیا؟ اور عورتوں کے حقوق سے اس کا کیا تعلق ہے؟
Feminism فرانسوی لفظ ہے جو لیٹین کے لفظ Femind سے لیا گیاہے اور ذرا سی تبدیلی سے دوسری زبانوں جیسے انگلش اور جرمن میں بھی ایک ہی معنیٰ میں استعمال ہوتاہے۔ Femininعورت یا جنس مؤنث کے معنی میں استعمال ہوتا

اصطلاح میں Feminism ان دو معنیٰ میں استعما ل ہوسکتاہے ؛

اوّل) جیسا کی مشہور ہے اس طرز فکر یا اس تحریک کو کہا جاتا ہے جو سیاست و معیشت و معاشرتی جملہ تمام شعبوں میں عورتوں کی مردوں سے برابری کی دعویدار ہیں، البتہ اس فکر کی توسیع کے ہمراہ جو نتائج سامنے آتے ہیں ان میں خواتین کے کلب، خواتین کی انجمنوں اور خواتین کی دیگر اداروں کا وجود میں آنا قابل ذکر ہے۔

دوسرا معنی مردوں میں عورتوں کے صفات اور خصوصیات کا ظاہر ہوناہے البتہ یہ معنی و منظور بحث نہیں ہے۔

حالانکہ فیمینزم، خواتین کے حقوق کے دفاع اور مردوں کے ہمراہ ان کی برابری کے معنیٰ میں کئی سو سال پرانی فکرہے، لیکن انیسویں صدی کے وسط سے اس معنی میں باقاعدہ استعمال ہونے لگا، اور اس طرز فکر کا نافذ کرنے کے لئے دھیرے دھیرے بہت سی تحریکوں نے سر اٹھایا اور اپنے مطالبات کو حاصل کرنے کے لئے بہت سے طریقے اپنائے گئے۔

تاریخی پس منظر میں فیمینزم کے تکاملی مرحلوں کو دو حصوں میں بانٹا جاسکتا ہے :

پہلا مرحلہ: انیسویں صدی کی ابتدا سے 1920عیسوی یعنی پہلی جنگ عظیم کے بعد تک؛
دوسرا مرحلہ:ساٹھ 60 کی دہائی کے بعد کا مرحلہ۔
فیمینزم پہلی تعریف کے مطابق خواتین کی حق طلب تحریک کا نام تھا جو امریکا سے شروع ہوئی تھی۔

یعنی خواتین نے جنسیت کی بناپر اس زمانہ میں رائج امتیازی برتاؤ کے خلاف اپنے حق کوحاصل کرنے کے لئے ایک تحریک کا آغاز کیا جو ایک خاص معاشرتی نظریات اور کچھ دینی طرز فکر کے مطابق قدم اٹھایا تھا۔

اس تحریک میں کچھ کمزوریاں بھی تھیں۔ لیکن70سے 80 کی دہائیوں میں فمینیزم میں بہت سے رجحانات پیدا ہوئے، شدّت پسند سے لے کر اعتدال پسند رجحانات، یہاں تک کہ دینی اور مذہبی رجحانات بھی سامنے آئے۔ نتیجہ میں فیمینزم کے سلسلہ میں بہت سے نظریات اور رجحانات پیدا ہوگئے

لیکن سب کے سب اس بات پر متّفق ہیں کہ عورتوں کے حقوق پامال ہوئے ہیں اور مناسب طریقوں سے اس امتیازی برتاؤ اور حقوق کی پامال کو روکنا چاہیے۔ البتہ کچھ مسائل ایسے بھی ہیں جن میں اختلاف نظر پایا جاتا ہے جس کی وجہ سے وہ الگ الگ رجحانات میں بٹ گئے ہہیں۔ فیمینزم میں موجود رجحانات میں سے مندرجہ ذیل قابل ذکرہیں :

لیبرل فیمینزم، مارکسی فیمینزم، ریڈیکل فیمینزم، سوشلسٹ فیمینزم، پوسٹ ماڈرن فیمینزم، ۔ اور اسلامی فیمینزم۔ حالانکہ یہ کافی پرانا نظریہ ہے لیکن انیسویں صدی کے آخر میں مختلف طریقوں سے اسلامی ممالک میں یہ بھی یہ نظریہ پھلا پھولا

فیمینزم جو کہ ایک معاشرتی تحریک تھی اس نے چند دہائی کی سرگرمیوں میں اپنے نظریات کو نظم و ترتیب دیگر یونیورسیٹیوں کی سطح پر womenis studiesکے نام سے علمی طریقوں سے پیش کیے ہیں نتیجہ میں دنیا بھر میں خواتین کے مسائل کے ماہرین بھی سامنے آگئے ہیں

اس اہم نکتہ کی طرف توجہ ضروری ہے کہ مغربی فیمینزم ایک خاص ماحول میں خاص اسباب کی بناپر ایک ثقافتی، سماجی تحریک بن کے ابھرا ہے، لہذا ا اس کے نظریات اور دلائل پر باقاعدہ غور کرنے کے لئے کافی وقت اور دقّت کی ضرورت ہوگی۔

فیمینِیزم ایک نظریے کا نام ہے کہ خواتین کو بھی وہ ہی حقوق ملیں جو مردوں کو ملتے ہیں۔ وہ حقوق تعلیمی، معاشرتی اور سیاسی اعتبار سے ہوں، غرض کہ حقوق کی منصفانہ تقسیم کو یقینی بنایا جائے۔ مغرب میں ممکن ہے چونکہ ان تمام مکاتب فکر کی نظریاتی بنیادیں موجود ہوں لیکن برصغیر کے تناظر میں یہاں کی تشریحات کی ایک اپنی تاریخ اور ثقافت ہے۔

پاکستان میں فیمینزم کے مختلف مکاتب فکر موجود ہیں جہاں سے وابستگی کی وجوہات شعوری بھی ہیں اور غیر شعوری بھی، یہاں پر کوئی کسی ایک مکتب فکر سے نظریاتی وابستگی کا حامل ہو مشکل ہے۔ یہاں فیمینزم کی فکر سے وابستہ افراد حالات اور ضرورت کے تحت مختلف افکار سے متاثر ہوئے ہیں۔

تحریک سے کیا مراد ہوسکتا ہے؟ موجودہ حالات میں یہ بھی ایک حل طلب معاملہ ہے عمومی طور پر اس سے مراد قابل مشاہدہ، اجتماعی اور مسلسل مزاحمت ہے جو کسی بھی نا انصافی، غیر مساوی رویے اور تعصب کے خلاف ہو۔ بعض صورتوں میں یہ کسی اچانک مزاحمت کی صورت نظر آتی ہے جو کسی انسانیت سوز واقعے کے خلاف احتجاج سے پھوٹتی ہے۔ بہت کم صورتوں میں یہ کسی ایک فرد کی فکری فنی یا ادبی مزاحمت سے بھی تعبیر کی جاتی ہے۔ اس لیے آرٹ، ادب، موسیقی اور رقص جو کہ مزاحتمی ہو اسے بھی فیمینسٹ موومنٹ کہا جا سکتا ہے۔بشکریہ ہم سب نیوز

یہ بھی دیکھیں

مریم نواز ہی وزیراعلیٰ پنجاب کیوں بنیں گی؟

(نسیم حیدر) مسلم لیگ ن کی حکومت بنی تو پنجاب کی وزارت اعلیٰ کا تاج …