جمعہ , 19 اپریل 2024

پاکستان پر حملے میں ملوث 3 ممالک

(تحریر: علی زین)

گذشتہ ہفتے جب سے آئی ایس پی آر کی جانب سے یہ بیانیہ جاری کیا گیا ہے کہ پلوامہ ڈرامہ کے بعد جب پاکستان پہ حملہ کیا گیا تھا تو انڈیا اور اسرائیل سمیت ایک تیسرا بڑا ملک بھی شامل تھا، مگر کچھ وجوہات کی بنا پہ اس ملک کا نام نہیں لیا گیا تھا۔ بدقسمتی سے ہمارے ملک کا ایک خاص طبقہ حقائق کے تجزیہ و تحلیل کی بجائے تعصب سے کام لینے لگا اور اس معاملہ کو کچھ اور ہی بنا کر پیش کیا جانے لگا، کچھ حلقوں نے بنا سوچے سمجھے تیسرے شریک ملک کو "ایران” کہا تو کسی نے "روس”۔ بہرحال مختلف رپورٹس، تجزیوں اور حقائق کو عقل کے زاویے سے پرکھنے سے جو حقائق سامنے آئے، انہیں قلم بند کرنا واجب سمجھا چونکہ گذشتہ دنوں میں نے حالات حاضرہ سے بے بہرہ افراد کو بھی اس معاملے پہ ایکسپرٹ بنتے دیکھا۔ پاکستانی عسکری و سیاسی اعلیٰ سطح قیادت سے منسلک باوثوق ذرائع کا کہنا ہے کہ بالاکوٹ آزاد کشمیر پر انڈیا، اسرائیل، افغانستان (امریکہ) کی جس ٹرائیکا نے مشترکہ حملہ کیا تھا، اس کی پیشگی اطلاع کے بعد پاکستان (آئی ایس آئی) نے اپنی جوابی حکمت عملی سے اسے بری طرح ناکام بنا کر قرار واقعی جواب دے دیا ہے۔

ذرائع کے مطابق اس سارے پلان کا ماسٹر مائنڈ امریکہ تھا، جس میں اسرائیل اور انڈیا کو یہ ٹاسک ملا کہ وہ پاکستان پر لائن اف کنٹرول کی طرف سے حملہ کرے، تاکہ پاکستان کی ساری توجہ اس بارڈر پر ہو جائے اور افغانستان کے بارڈر سے پاکستان کی توجہ ہٹ جائے گی۔ جس کے بعد افغانستان کے بارڈر سے انڈیا، اسرائیل اور افغانستان (امریکہ) مشترکہ حملہ کرکے حقانی نیٹ ورک کو تباہ کر دیں گے۔ انڈیا کی طرف سے بالاکوٹ حملہ میں جیش محمد کے کیمپ کو تباہ کرنے کی خبر چلی تو ابتدائی ردعمل میں امریکہ نے بیان دیا تھا کہ انڈیا کو اپنی سرزمین پر دہشت گردی کرنے والے بارڈر کے دوسری طرف قائم دہشت گردی مراکز کے خلاف کارروائی کرنے کا اختیار ہے۔ بعد میں الجزیرہ ٹیلی ویژن نیٹ ورک نے حملہ کی جگہ پر اپنی رپورٹ چلائی کہ اس حملہ میں کوئی جانی نقصان نہیں ہوا اور نہ ہی کوئی کیمپ یہاں واقع تھا، جس پر پاکستان مخالف کیمپ میں سراسمیگی پھیل گئی اور اگلے دن ہی پاکستان پر دوبارہ ائیر سٹرائیک کا فیصلہ کیا گیا، جس میں پاکستانی ائیر فورس نے دونوں طیارے مار گرائے۔

ابھی پاکستان مخالف ٹرائیکا حیران و پریشان ہو کر سنبھلا ہی نہیں تھا کہ افغانستان کے صوبہ ہلمند میں طالبان کے ذریعے ایک زوردار حملہ کر دیا گیا۔ دہشت گردی کے خلاف جنگ کی تاریخ میں اتنا بڑا حملہ پہلے کبھی نہیں کیا گیا تھا، جو مسلسل 40 گھنٹے تک چلتا رہا ہو۔ اس لڑائی میں افغانی و امریکی افواج کے ہونے والے نقصانات کی تفضیلات کے مطابق 137 امریکی فوجی ہلاک ہوئے، جن میں 15 پائلٹ، 18 ڈرون انجینیئرنگ مکینک ہلاک ہوئے، جبکہ 18 دوسرے طیارہ مکینک زخمی ہوئے۔ امریکی فوجیوں کے علاوہ اس حملہ میں 260 افغانی فوجی بھی ہلاک ہوئے، جن میں 142 کمانڈوز اور 118 عام فوجی بشمول کمانڈوز کا کمانڈر اور ایک برگیڈئیر شامل تھے۔ اتنی بڑی تعداد میں فوجیوں کی ہلاکتوں اور زخمیوں کے علاوہ ہیلی پیڈ پر درجنوں ہیلی کاپٹرز، ہینگرز میں کھڑے جنگی طیارے، 32 ٹینک، 19 بکتر بند، 27 رینجرز گاڑیاں، 21 انٹرنیشنل گاڑیاں، 11 آئل ٹینکرز، 1 لاجسٹک ڈپو، اسلحہ ڈپو، تیل کے ذخیرے، طیاروں کی ورکشاپ، رینجرز گاڑیوں کی ورکشاپ، ٹینک ورکشاپ اور متعدد کنٹینر تباہ کر دیئے گئے۔ اس کے علاوہ وہاں کے دو ائیر پورٹ ترجیحی بنیاد پر تباہ کر دیئے گئے، تاکہ امریکی اور افغان فوجیوں کو حملے کے دوران فوری کمک نہ پہنچ سکے۔

انڈیا، اسرائیل، افغانستان (امریکہ) اس ردعمل پر بھونچکا رہ گئے۔ افغانستان اور امریکہ نے اس خبر کو میڈیا میں جانے سے روکنے کے اقدامات کئے، کیونکہ اتنے بڑے پیمانے پر امریکی فوجیوں کی لاشیں اگر امریکہ پہنچ کر میڈیا کوریج حاصل کرتیں تو امریکی سیاست الٹ جاتی اور امریکی عوام کے غیض و غضب سے شدید مشکلات پیش آجاتیں۔ امریکہ کی طرف سے پاکستان سے بھی کہا گیا کہ یہ خبر میڈیا میں شائع نہ ہونے پائے اور اسے دبا دیا جائے۔ دوسری طرف پاکستان نے اپنی افواج کو افغان بارڈر سے انڈین بارڈر پر شفٹ کرنا شروع کر دیا اور افغان بارڈر FC (فرنٹیرز کور) کے حوالے کر دیا اور ساری توجہ انڈین لائن آف کنٹرول پر مرکوز کردی۔

افغانستان کے صوبہ ہلمند میں 40 گھنٹے طویل یہ جھڑپ اس لئے برپا کی گئی, تاکہ وہاں سے پاکستان پر حملہ کرنے کی کوشش نہ کی جائے اور انڈیا سے نمٹنے کے لئے اسے پیغام بھیج دیا گیا کہ پاکستان کے خلاف کسی بھی طرح کی مزید کارروائی کی صورت میں انڈیا کے خلاف مکمل جنگ چھیڑ دی جائے گی اور اس دوران انڈیا کے مختلف مقامات پر کارروائیاں کی جائیں گی، جس میں کلسٹر بم حملے بھی شامل ہوں گے۔ یہ ایسی خوفناک دھمکی تھی، جس نے انڈین قیادت میں سراسمیگی پھیلا دی اور انڈیا کی طرف سے وزیر خارجہ سشما سوراج نے بیان دیا کہ وہ پاکستان کے خلاف مزید کشیدگی بڑھانے کا ارادہ نہیں رکھتے۔ دوسری طرف امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ اور سیکرٹری آف سٹیٹ مائیک پومپیو نے فوری طور پر پاکستانی قیادت سے رابطہ کیا اور کشیدگی ختم کرنے پر زور دیا۔ جس کا پاکستانی قیادت کی طرف سے مثبت جواب دیا گیا۔

ان معلومات کی بنیاد پر یہ بات واضح ہوچکی ہوگی کہ پاکستان پر حملہ کرنے کی سازش میں انڈیا اور اسرائیل کے ساتھ شامل تیسرا ملک افغانستان بلکہ اصل میں وہاں بیٹھا امریکہ ہے، مگر پاکستان نے اس کا نام صرف اس لئے ظاہر نہیں کیا، کیونکہ ایک تو پاکستان اپنا بنایا گیم ظاہر نہیں کرنا چاہتا اور امریکہ کو بھی اس میں واضح جواب دے دیا کہ پاکستان دودھ پیتا بچہ نہیں اور نہ ہی تمہاری سازشوں سے بے خبر ہے اور دوسرا یہ کہ پاکستان اس وقت انتہائی حساس مقام پہ کھڑا ہے۔ معیشت سمیت دیگر بہت سارے اندرونی مسائل کا شکار ہے اور اس لئے پاکستان اس طرح کی ایک نئی مشکل کا متحمل نہیں ہوسکتا۔ پس تو پاکستان نے افغانستان اور امریکہ کا نام اس لئے نہیں لیا کہ عالمی سطح پہ چند مجوزہ مشکلات کا شکار نہ ہو جائے۔ مزید امریکہ کو یہ پیغام بھی پہنچا دیا گیا کہ پاکستان کی ہر سازش پر نظر ہے اور جہاں بھی اسے محسوس ہوتا ہے کہ اس کے خلاف سازش ہو رہی ہے تو وہ وہاں جواب دینے کے لئے پوری طرح تیار ہے اور پاکستان ہر سطح پہ ہر طرح کی جارحیت کا، خواہ وہ عسکری ہو، سفارتی ہو یا انٹیلیجینس ہو، ہم آخری دم تک بھرپور جواب دیں گے۔

یہ بھی دیکھیں

مریم نواز ہی وزیراعلیٰ پنجاب کیوں بنیں گی؟

(نسیم حیدر) مسلم لیگ ن کی حکومت بنی تو پنجاب کی وزارت اعلیٰ کا تاج …