بدھ , 24 اپریل 2024

14 مارچ: دنیا ماتم کرے یا جشن منائے؟

(صادقہ خان)

ابتدائی ادوار میں کئی صدیوں تک سائنسی علوم میں مسلمان سائنسدان کا سکہ چلتا رہا اور سائنس کی تمام اہم شاخوں کی بنیاد مسلم سائنسدانوں نے ہی رکھی، مگر پھر مسلمانوں پر آنے والے زوال کے ساتھ ہی سائنسی علوم پر بھی زوال آتا گیا اور کئی صدیوں تک سائنسی پیش رفت جمود کا شکار رہی۔اس جمود کو ایک باصلاحیت اطالوی ماہرِ ریاضیات و فلکیات نے توڑا جسے دنیا آج "گلیلیو گلیلی” کے نام سے جانتی ہے۔

گلیلیو گلیلی کو اپنے سائنسی نظریات کے باعث شدید مزاحمت اور قید و بند کی صعوبتیں بھی برداشت کرنا پڑیں مگر وہ باہمت انسان آخری وقت تک اپنے نظریات پر قائم رہے۔

گلیلیو گلیلی کے بعد 1865میں پروفیسر کلارک میکسویل نے برقی مقناطیسی میدان میں بہت پیچیدہ اور قدرے منفرد اہمیت کے حامل حساب و کتاب کیے، جو 1873 میں ایک سائنس جرنل میں شائع ہوئے تو برٹش ایسوسی ایشن نے یہ حتمی بیان جاری کیا کہ اس جلد کے کسی بھی حصے میں کوئی بھی ریاضی دان اس وقت تک کوئی تبدیلی نہیں کر سکے گا جب تک اسے یہ یقین نہ ہو کہ یہ انہی قوانین سے متعلق ہے، جن کا طریقہ کار اور ماخذ خالص طبیعات کے اصولوں پر ہو، لہذاٰ اگلے 15 برس میں اس حوالے سے جو کچھ بھی دریافتیں ہوئیں انہیں میکسویل کے قوانین پر مشتمل کام میں ضم کیا جاتا رہا اور یہ مسئلہ طویل عرصے تک تحقیقات میں جمود کا باعث بننا رہا۔پھر اس جمود کو البرٹ آئن اسٹائن نے توڑا جن کے قوانین و نظریات کی ایک صدی بعد تصدیق ہو رہی ہے اور انہیں ہر دور کا ذہین ترین انسان قرار دیا جا چکا ہے۔

14 مارچ 1879 کو جنوبی جرمنی کے شہر الم میں واقع گاؤں ‘سوابین ‘میں پیدا ہونے والے البرٹ آئن اسٹائن کے متعلق ابتدا میں کوئی گمان بھی نہیں کر سکتا تھا کہ یہ بچہ مستقبل میں طبیعات جیسے مشکل مضمون میں انقلاب لانے کا باعث بنے گا۔

اس بچے کی نشو ونما بچپن ہی سے بہت سست تھی، عام بچوں کے برعکس 2 سال کی عمر میں اس نے بمشکل ٹوٹے پھوٹے الفاظ میں بولنا شروع کیا جسے سمجھنے میں اس کے والدین کو بھی دشواری کا سامنا کرنا پڑتا تھا۔

اسکول میں بھی اس کا شمار سست رفتار بچوں میں کیا جاتا تھا، جو سیکھنے اور پڑھنے میں بہت وقت لگاتے تھے، اس کے والدین ہی نہیں پورا خاندان متفق تھا کہ یہ بچہ بمشکل ہی کوئی ڈگری حاصل کر سکے، مگر وقت نے دیکھا کہ 19ویں صدی کے اوائل میں سوئٹزر لینڈ کے پیٹنٹ آفس میں ایک کلرک کی معمولی نوکری کرتے ہوئے نہایت خاموشی اور غیر محسوس انداز میں البرٹ آئن اسٹائن نے جو تحقیقات سرانجام دیں وہ نہ صرف مستقبل میں انقلاب لانے کا سبب بنیں بلکہ انہیں بلاشبہ صدیوں پہلے شروع کی جانے والی سائنسدانوں اور ماہرین ریاضیات کی کوششوں کا تسلسل کہا جاسکتا ہے۔

اسکول میں اوسط درجے کے بچوں میں شمار ہونے کے باوجود آئن اسٹائن کی ریاضی میں دلچسپی اور رجحان غیر معمولی تھا، حالانکہ عام طور پر نوٹ کیا جاتا ہے کہ ریاضی یا طبیعات میں غیر معمولی ذہین بچے ہی دلچسپی لیتے ہیں مگر آئن اسٹائن کا شمار ذہین طلبا میں نہیں کیا جاتا تھا اور اس کے اساتذہ زیادہ تر اس سے نالاں رہا کرتے تھے، جب وہ لیکچر کے دوران کسی قانون کو "وژولائز” کر کے اسے بنیاد سے سمجھنے کی کوشش کررہا ہوتا تو اس کے اساتذہ اسے غائب دماغی سمجھ کر اسے کلاس سے باہر نکال دیا کرتے اور اگلے روز اس کے والد کو شکایت بھیج دی جاتی۔

دوسری جانب صرف 15 برس کے عمر میں اپنی مدد آپ کے تحت ریاضی کے پیچیدہ اصولوں اور کیلکولس میں مکمل مہارت حاصل کر لینے کے بعد آئن اسٹائن کا دل اسکول، لگی بندھی روٹین اور فرسودہ سلیبس سے اکتا گیا تھا، مگر یہ صرف ایک آئن اسٹائن کا مسئلہ نہیں تھا، ایسا گلیلیو گلیلی، راجر بیکن، آئزک نیوٹن کے ساتھ بھی ہوچکا تھا اور یقینا مستقبل میں بھی اس وقت تک ہوتا رہے گا جب تک اساتذہ طلبا کے ذہنی و طبعی رجحان کو سمجھنے کے بجائے انہیں کتابوں میں لکھا رٹانے اور سلیبس پورا کروا نے پر مصر رہیں گے۔

مگر آئن اسٹائن کے ساتھ مسئلہ محض اس کے ناتجربہ کار اور اکھڑ مزاج اساتذہ ہی نہ تھے اس کے والد ہرمن آئن اسٹائن بھی کبھی اپنے بیٹے کی صلاحیتوں کو پوری طرح سمجھ نہیں سکے اور وہ اسے اپنی طرح بزنس مین بنانے پر بضد رہے۔

ہرمن آئن اسٹائن بھی آج کے مادی دور میں جینے والے دیگر افراد کی طرح ہی سوچتے تھے، جہاں زندگی کا اولین مقصد زیادہ سے زیادہ مادی اشیا اور دنیاوی فوائد کا حصول ہے، اسی وجہ سے طلبا کی بڑی تعداد اپنے لیے ایسے مضامین کا انتخاب کرتی ہے جو سماجی، معاشرتی یا حکومتی امور سے متعلق ہوں اور جن کے بارے میں ان کے والدین کا خیال ہے کہ یہ زیادہ اہمیت کے حامل ہیں۔

آئن اسٹائن نے اپنی زندگی کے کئی قیمتی برس اس استدلال پر گزارے کہ ہماری درسگاہوں کو اس امر سے پوری طرح واقف ہونا چاہیے کہ وہاں تعلیم پانے والے بچے یا نوجوان کس طرح کے ماحول میں جینے اور سیکھنے کے خواہش مند ہیں۔

1905 میں نظریہ اضافیت اور کچھ برس بعد بنیادی نظریہ اضافیت پیش کرنے کے بعد دنیائے طبیعات کے اس ذہین ترین انسان نے پھر مڑکر پیچھے نہیں دیکھا، وہ ساری زندگی قدرت کے شاہکاروں کے پوشیدہ قفل کھولنے کی سعی کرتے رہے۔

مقناطیسی فیلڈ میں کار فرما مخفی قوت کشش ہو یا اجرام فلکی کی مضبوط کشش ثقل، اشیا کا جمود ہو یا گردشی اثر، روشنی کی شعائیں ہوں یا ثقلی موجیں، ہر شے انہیں اپنے سحر میں جکڑتی گئیں اور وہ قدرت کی جانب سے عطا کردہ صلاحیتوں کو استعمال کرتے ہوئے تمام گتھیاں سلجھاتے رہے۔

البرٹ آئن اسٹائن کا وجدان اور اشیا کی گہرائیوں میں اتر جانے کی صلاحیت انتہائی غیر معمولی تھی، اگر کوئی سوچ یا خیال اچانک ذہن میں وارد ہوکر انہیں بہت زیادہ متاثر کرتا تو وہ اسے بار بار دوہرایا کر تے تھے، اسکول کے زمانے سے وہ بول کر سوچنے کے علاوہ اپنے خیالات کو تصویر کی صورت میں بھی سوچتے، اس حوالے سے آسمانی بجلی کا چلتی ہوئی ٹرین سے ٹکراؤ اور نیچے کی طرف آتی ہوئی متحرک لفٹ سے گریویٹی کے تجربات پر ان کے موازنے قدرت کی جانب سے عطا کردہ ان کے گہرے وجدان کا منہ بولتا ثبوت ہیں۔

بلاشبہ آئن اسٹائن کے بنیادی نظریہ اضافیت پر ہی کوانٹم فزکس اور جدید خلائی علوم کی بنیاد رکھی گئی جن کے بدولت انسانیت کو رچرڈ پی فائن مین، اسٹیفن ہاکنگ اور کارل سیگان جیسے مایہ ناز ماہرین طبیعات و محققین میسر آئے، اگرچہ ان سائنسدانوں میں ہر ایک اپنی جگہ یکتا اور قابل تعریف ہے مگر اسٹیفن ہاکنگ کا نام کئی حوالوں سے آئن اسٹائن کے ساتھ جوڑا جاتا رہا ہے اور جس میں سب سے اہم حوالہ دونوں کی غیر معمولی ذہانت اور وجدان تھا جس کے باعث وہ عام محققین کی نسبت چیزوں یا عوامل کو زیادہ بہتر انداز میں سمجھ لیا کرتے تھے۔

اسٹیفن ہاکنگ جنوری 1942کو گلیلیو گلیلی کی وفات کے ٹھیک 300 سال بعد پیدا ہوئے اور ان کا انتقال 14 مارچ 2018 کو آئن اسٹائن کے 141 ویں یوم پیدائش پر ہوا، ان دونوں تواریخ کو لاکھوں افراد پیدا اور فوت ہوئے ہوں گے مگر ان میں سے کوئی بھی ان صلاحیتوں کا رتی برابر بھی حامل نہ تھا جو اسٹیفن ہاکنگ کے ورثے میں آئیں اور شدید جسمانی معذوری کا شکار اس باہمت ترین انسان نے مرتے دم تک ایک متحرک اور باعمل زندگی گزار کر ثابت کیا کہ بلاشبہ وہ گلیلیو اور آئن اسٹائن جیسی مایہ ناز شخصیات کا حقیقی وارث تھا۔

آئن اسٹائن کی طرح اسٹیفن ہاکنگ بھی بچپن سے ایک کم گو اور ذات میں گم رہنے والا بچہ تھا جو بولنے سے زیادہ غور و فکر کو ترجیح دیتا تھا، مگر اس میں سیلف کانفیڈنس کی شدید کمی تھی، یہاں تک کہ جب انہوں نے کیمبرج یونیورسٹی میں داخلے کے لیے اپلائی کیا تو صحیح طرح تحریری امتحان بھی نہیں دے سکے تھے، مگر قدرت ہمیشہ ہاکنگ کی مدد اور راہنمائی کرتی رہی کیوں کہ انہیں آگے بڑھ کر دنیا بھر میں بسنے والے لاکھوں معذور اور کروڑوں صحت مند افراد کے لیے مشعل راہ بننا تھا۔

کیمبرج یونیورسٹی میں پی ایچ ڈی کے دوران جب اسٹیفن ہاکنگ پر انکشاف ہوا کہ وہ اعصابی نظام سے متعلق ایک شدید نوعیت کے مرض کا شکار ہیں تو ان کے پاس جینے کے لیے محض 2 برس کا عرصہ تھا، اس وقت کو بہترین استعمال میں لاتے ہوئے، انہوں نے بلیک ہولز پر اپنی تحقیقات کو جلد از جلد مکمل کرنے کی کوشش کی مگر جسمانی معذوری بڑھتی گئی اور ایک وقت وہ بھی آیا جب پلکوں کے علاوہ ان کا پورا جسم مفلوج ہوگیا تھا۔

اپنے گھر کے برآمدے میں ویل چیئر پر بیٹھ کر وہ پہروں خاموشی اور یاسیت کے عالم میں آسمان کو تکا کرتے، بیماری نے ان سے دنیا سے رابطے کا ہر ذریعہ چھین لیا تھا مگر وہ اس سے ہار ماننے پر تیار نہیں تھے، انہیں جینا تھا اور بہت کچھ کر کے جینا تھا، اس کڑے وقت میں ان کا سب سے زیادہ ساتھ ان کی بیوی جین نے دیا جو جان چکی تھیں کہ اس مفلوج جسم سے منسلک بہترین دماغ ابھی بھی مکمل طور پر متحرک ہے اور وقت نے جین کے وجدان کو درست ثابت کیا کہ بلا شبہ دماغ تمام انسانی اعضاء کا بادشاہ ہے۔

دنیا میں ایسے کروڑوں صحت مند افراد بستے ہیں جن کی زندگی محض روز مرہ کی روٹین کے گرد گھومتی ہے جنہیں اپنی مخفی صلاحیتوں کو استعمال کرنا نہیں آتا، اسٹیفن ہاکنگ مرتے دم تک ایسے تمام افراد کو تحقیق، تجسس اور کھوج کی جانب مائل کرتے رہے کہ اگر ہمارا جسم مکمل مفلوج ہو تب بھی ہماری سوچ آزاد ہے اور اس سوچ کی پرواز کے ذریعے انسان اس پوری کائنات کو کھنگال سکتا ہے۔آئن سٹائن اور اسٹیفن ہاکنگ میں ایک قدر مشترک بات یہ بھی ہے کہ دونوں کی ابتدائی کامیابیوں میں ان کی پہلی بیویوں نے مرکزی کردار ادا کیا۔

آئن اسٹائن کی پہلی بیوی میلیوا میرک بچپن میں پولیو کا شکار ہونے کی وجہ سے کئی جسمانی نقائص کا شکار تھی مگر وہ ایک ذہین خاتون تھی اور طبیعات میں ان کی دلچسپی و صلاحیتیں غیر معمولی تھیں، ان کی انہی صلاحیتوں نے نوجوان آئن اسٹائن کو اپنی جانب مائل کیا تھا جو نہ صرف خوبرو تھے بلکہ غیر معمولی ذہین بھی تھے۔

دوسری جانب اسٹیفن ہاکنگ کی اہلیہ جین شادی سے پہلے جانتی تھی کہ اسٹیفن ہاکنگ محض چند برس اور جی سکتے ہیں مگر بعد کے کھٹن حالات اور ہاکنگ کی شدید معذوری سے پیدا شدہ مسائل سے نمٹنے کے علاوہ جین اسٹیفن ہاکنگ کا دوسرا بازو بھی تھیں۔

اگرچہ وہ اپنے شوہر کی تحقیقات میں ان کی معاونت تو نہیں کر سکیں مگر دراصل یہ جین ہی تھیں جن کی بھرپور مدد، خیال اور بے نظیر قربانی نے ہاکنگ کو مایوسیوں کی دلدل سے نکال کر طبیعات کے افق پر پہنچایا، اگرچہ دونوں سائنسدانوں کی پہلی شادیوں کا اختتام طلاق پر ہوا مگر یہ خواتین آخری دم تک ان کی بہترین دوست اور سپورٹر رہیں۔

یہ کہنا بے جا نہ ہوگا کہ جدید طبیعات خصوصا کوانٹم فزکس کی بنیاد آئن اسٹائن کے بنیادی نظریہ اضافیت پر مبنی ہے جس کے باعث اس کائنات کی ابتدا، نوعیت اور لامتناہیت سے متعلق بے شمار نظریات پیش کیے گئے جس سے کائنات کو سمجھنے میں مدد ملی۔

انہیں میں سے ایک مصدقہ قانون اسٹیفن ہاکنگ کی "بگ بینگ تھیوری” ہے، مگر ہاکنگ کی وجہ شہرت بلیک ہولز پر نصف صدی پر مشتمل ان کی تحقیقات بنیں، اگرچہ ان میں سے زیادہ تر قوانین کی اب تک تصدیق نہیں ہوسکی مگر جس استدلال کے ساتھ ہاکنگ ساری عمر ان قوانین پر ڈٹے رہے وہ گواہی دیتا ہے کہ مستقبل میں جدید ترین ٹیکنالوجی کے ذریعے جب انسان کائنات کی نئی وسعتوں پر کمندیں ڈالے گا تو آئن اسٹائن ” گریوی ٹیشنل ویوز” کی طرح ہاکنگ کے بلیک اور ورم ہولز پر قوانین اور متوازی کائناتوں کی گھتیاں بھی کسی روز تصدیق ہو کر حل ہو جائیں گی۔

اسٹیفن ہاکنگ اور آئن اسٹائن درد مند دل رکھنے والے 2 ایسے باکمال انسان تھے جنھوں نے اپنی زندگیاں انسانیت کی فلاح اور علوم کی ترویج میں گزاریں، اگرچہ ایک طبقے کی جانب سے اسٹیفن ہاکنگ کے بارے میں شدید اعتراضات بھی اٹھائے جاتے رہے ہیں کہ انہیں غیر معمولی شہرت اپنی معذوری کے باعث حاصل ہوئی مگر یہ معاشرے کا محض ایک طبقہ ہے جو ہر کام میں ٹانگ اڑانا اور غیر ضروری تنقید کو اپنا فرض سمجھتا ہے۔دنیائے طبیعات میں جو ماہرین اپنی صلاحیتوں کی بدولت ہمیشہ کے لیے امر ہو ئے ان میں سے زیادہ تر کسی نہ کسی جسمانی نقص کا شکار تھے۔

آئن اسٹائن ،ایڈیسن، ،ٹیسیو کاوسکی (فادر آف ماڈرن ایسٹراناٹکس) یہ تمام زندگی کے کسی نہ کسی دور میں عوارض کا شکار رہے مگر آج جو ایک عالم ان کی صلاحیتوں کا معترف ہے تو وہ ان کی معذوری پر ترس، رحم یا ہمدردی نہیں بلکہ یہ افراد واقعی اس عزت اور اعلیٰ مقام کے لائق بھی تھے۔

دوسری جانب آئن اسٹائن بھی اپنے کچھ قوانین اور ایٹم بم بنانے میں معاونت کے باعث شدید لعن طعن کا شکار رہے، ایٹم بم کی تیاری میں آئن اسٹائن کی ” کمیت توانائی” کی مساوات نے بنیادی کردار ادا کیا جس کے مطابق مادے کو کسی ضیاع کے بغیر توانائی میں تبدیل کیا جاسکتا ہے، اس پر آئن اسٹائن کا استدلال یہ تھا کہ”اگر انہیں ذرا برابر بھی اندازہ ہوتا کہ اس بم کو انسان کی تباہی و بربادی کے لیے اس بے دردی سے استعمال کیا جائےگا تو وہ سائنسدان یا ماہر طبیعات بننے کے بجائے ایک گھڑی ساز بننے کو ترجیح دیتے۔”

14 مارچ 2018 کو جب دنیا بھر کی سائنس کمیونٹی آئن اسٹائن کی 141ویں سالگرہ منانے کی تیاریوں میں مصروف تھی تب علی الصبح اسٹیفن ہاکنگ کی وفات کی خبر ایک عالم کو اداس کر گئی، کیونکہ اسٹیفن ہاکنگ صرف سائنس کمیونٹی ہی نہیں معذور افراد اور ہر با شعور انسان کے لیے محبوب اور قابل ستائش تھے۔

اپنی بھرپور حس مزاح سے وہ شدید اداسی کے لمحوں میں بھی قہقہے بکھیر دینے کی صلاحیت رکھتے تھے، آج ایک برس بعد 14 مارچ 2019 کو دنیا بھر میں یہ دن نہ صرف سالگرہ کے جشن کے طور پر منایا جائےگا بلکہ دنیا کے کئی کونوں میں سوگ کی جھلک بھی نظر آئے گی۔

کیوں کہ جہاں کچھ افراد اپنے پسندیدہ آئن اسٹائن کا جنم دن مناتے نظر آئیں گے، وہیں کچھ لوگ اپنے پسندیدہ اسٹیفن ہاکنگ کی موت کا ماتم کرتے دکھائی دیں گے، لیکن آج کے دن میں ایک بات مشترکہ ہوگی کہ ایک ہی دن پر دنیا بھر کے لوگ 2 عظیم لوگوں کے ذکر میں مصروف رہیں گے۔بشکریہ ڈان نیوز

یہ بھی دیکھیں

مریم نواز ہی وزیراعلیٰ پنجاب کیوں بنیں گی؟

(نسیم حیدر) مسلم لیگ ن کی حکومت بنی تو پنجاب کی وزارت اعلیٰ کا تاج …