ہفتہ , 20 اپریل 2024

یو این او میں کالعدم جیش محمد کا دفاع

(رپورٹ: ٹی ایچ بلوچ)

اقوام متحدہ میں چین نے مسعود ازہر کو دہشت گرد قرار دینے سے متعلق ایک بار پھر چھ ماہ کیلئے موخر کروا دیا ہے، جس پر بھارتی اپوزیشن مودی کو سخت تنقید کا نشانہ بناتے ہوئے کہہ رہی ہے کہ وہ چینی صدر سے ڈر کر خاموش ہوگئے ہیں۔ خطہ جنگ کے دہانے پہ ہے۔ پاکستان میں بڑی سیاسی جماعت پاکستان پیپلز پارٹی کے چیئرمین بلاول بھٹو زرداری نے سندھ اسمبلی میں میڈیا سے گفتگو میں حکومت پر الزام لگایا ہے کہ عمران خان کالعدم تنظیموں کی مدد سے اقتدار میں آئے ہیں اور ہم موجودہ حکومت پر یقین نہیں کرسکتے کہ وہ نیشنل ایکشن پلان کی روح کے مطابق اس پر عمل کرینگے، چونکہ ان کے تین وزراء اب بھی ممنوعہ قرار دی جانیوالی شدت پسند تنظیموں کے ساتھ روابط میں ہیں۔ انہوں نے یہ کہا ہے کہ موجودہ حکومت صرف اپوزیشن کو نشانہ بنا رہی ہے، لیکن کالعدم تنظیموں کے خلاف زبان کھولنے سے گریزاں ہے۔

حالیہ کشیدگی میں عمران خان کے طرز عمل سے ان کی مقبولیت میں اضافہ ہوا ہے، وہ ایک طرف عالمی لیڈر بن کر ابھرے ہیں، لیکن امریکہ، سعودی عرب اور چین کا کہنا ہے کہ ان ممالک نے کشیدگی کم کروائی۔ اسی پاکستان میں زیادہ تر لوگ اس سے اتفاق رکھتے ہیں کہ عمران خان کی نسبت جنرل باجوہ کا کردار زیادہ اہم تھا۔ جو چین نے اقوام متحدہ میں بھارت کو ناک آوٹ کیا ہے، وہ پہلے بھی ایسا کرچکے ہیں، جب عمران خان حکومت میں نہیں تھے، چینی پالیسی کا تعلق بھارت کے امریکہ سے تعلقات کیساتھ زیادہ ہے، پاکستان کی حمایت اس میں کم شامل ہے، لیکن ایک لحاظ سے پاکستان تقویت محسوس کرتا ہے۔ لیکن اس بار تو پاکستان کو چین سے احتجاج کرنا چاہیئے کہ ہم دنیا کے کہنے پر جس شخص کو دہشت گرد قرار دیکر اس کی جماعت کو کالعدم دے چکے ہیں، آپ ہماری پالیسی کے برخلاف جا رہے ہیں۔

لیکن چین کا کنسرن پاکستان بھی ہے اور عالمی حریف امریکہ بھی۔ سلامتی کونسل میں فرانس، برطانیہ اور امریکہ کی طرف سے آنے والی قرارداد جب پیش کی گئی، اس سے قبل امریکی سیکرٹری آف اسٹیٹ نے بھارتی حکام کیساتھ مل کر اپنا موقف بھی میڈیا کو بتایا، جو صرف بھارت کے ہمسایہ چین کیلئے بھی ایک پیغام تھا، پاکستان نے اسے زیادہ سنجیدہ نہیں لیا، کیونکہ پاکستان افغان امن مذاکرات میں کھلے دل سے کردار ادا کر رہا ہے۔ پاکستان کو ایک محاذ کا سامنا ہے، وہ ہے فنانشل ٹاسک فورس کے مطالبات اور دباؤ ہے۔ حکومت یہی کہہ رہی ہے کہ پاکستان ایف اے ٹی ایف کے تحفظات کا کافی و شافی جواب دینے کی پوزیشن میں ہے، پاکستان سے دہشت گردوں کی فنڈنگ، منی لانڈرنگ سمیت دیگر حساس نکات پر تفصیلات کی فراہمی کا مطالبہ ایک داخلی اقتصادی ٹاسک ضرور ہے، جس کا جواب وار فوٹنگ پر استدلال اور پر زور انداز میں دینے کی اشد ضرورت ہے۔

پاکستان کی جانب سے یہ اختلاف اصولی اور پاکستان کو درپیش معاشی معاملات سے اہم ہے کہ بھارت کی طرف سے اس فورم پہ معاندانہ دخل اندازی اور بے جا اعتراضات اٹھانا کسی طور پاکستان برداشت نہیں کرسکتا۔ سوال یہ ہے کہ ہم نے اپنے ملک کے قوانین کے مطابق جن تنظیموں کا ہائی رسک قرار دیا، انہی سے متعلق عالمی ٹاسک فورس دوبارہ اعتراض اٹھا سکتی ہے، شاید ایسا ممکن نہ ہو، کیونکہ یو این او امریکہ کی حریف طاقت چین نے قرارداد کو موخر کروایا ہے نہ کہ پاکستان نے۔ اسی طرح حکومتی اقدامات میں ناپختگی اور کمزوری کا جو پہلو نظر آتا ہے، یہ اس کیس کو متاثر نہیں کریگا، حکومت نے اپنے طور پر پہلے سے کالعدم قرار دی گئی تنظیموں بشمول جیش محمد کو کالعدم قرار دیا ہے اور انکے مراکز، مدارس کو سرکاری تحویل میں لیا ہے، ساتھ ہی متعدد افراد کو حراست میں لے رکھا ہے، البتہ بھارت کی طرف سے کوئی ثبوت ابھی تک فراہم نہیں کئے گئے، پھر بھی فنانشل ٹاسک فورس سمیت مختلف فورمز پہ اپنا کیس جیتنے کیلئے مزید اقدامات کی ضرورت ہوگی۔

یہ بھی دیکھیں

مریم نواز ہی وزیراعلیٰ پنجاب کیوں بنیں گی؟

(نسیم حیدر) مسلم لیگ ن کی حکومت بنی تو پنجاب کی وزارت اعلیٰ کا تاج …