ہفتہ , 20 اپریل 2024

ایران پاکستان کے بہتر تعلقات وقت کی ضرورت

(صبا ممتاز بانو)

ایران کہنے کو تو ہمارا برادر اسلامی ملک ہے مگر اس کے باوجود ہم اس کے ساتھ مثالی تعلقات قائم کرنے میں کامیاب نہیں ہو سکے ۔ اس کی وجوہات اگرچہ سیاسی اور مذہبی منافرت کے ساتھ جڑی ہوئی ہیں لیکن یہ امر اپنی جگہ خوش آئند ہے کہ دونوں طرف کچھ ایسے لوگ ضرور ہیں جو کہ بہتر تعلقات کی مساعی میں لگے ہوئے ہیں ۔ گزشتہ دنو ں ایرانی قونصلیٹ میں ایرانی قونصل جنرل نے قلم دوست تنظیم سے متعلقہ پاکستانی کالم نگاروں کو خصوصی طور پر مدعو کیا تاکہ دونوں کے درمیان بہتر روابط کے فروغ کی کو ششوں کو آگے بڑھا یا جائے اور غلط فہمیوں کودور کیا جائے ۔

ایرانی قونصل جنرل رضانظیری نے اپنی گفتگو میں بتایا کہ ایران کے عوام پاکستا ن سے بہت محبت کرتے ہیں،شیعہ سنی اختلافات دراصل ایک کلمے کے سامنے کوئی حیثیت نہیں رکھتے ،اسلام کا مشترکہ مذہب ایک مضبوط اکائی ہے جس کے سامنے دیگر عقائد کو برتری نہیں ہونی چاہیے ۔ انہوں نے بتا یا کہ ایران ہرسال بہت سے پاکستانیوں کو ویزے جاری کرتا ہے، یہی وجہ ہے کہ ایران میں پاکستانیوں کا آنا جانا لگا رہتا ہے،اگرچہ پاکستان میں ایرانیوں کو ویزہ جاری کرنے میں تامل سے کام لیا جاتا ہے اور ان کو ویزے اور رہائش کے سلسلے میں سہولت فراہم نہیں کی جاتی ۔ انہوں نے رہائشی ویزے کے ضمن میں خود کو پیش آنے والی مشکلات کا بھی ذکر کیا۔

ایران کی مشکلات کی بڑی وجہ مغربی طاقتوں کے سامنے سر تسلیم خم نہ کرنا ہے ۔ یہ بات امریکہ کو گوارا نہیں،وہ اس کا ناطقہ پوری دنیا میں بند کرنے کے مشن پر عمل پیرا ہے،وہ اپنے ہم نوا ممالک کو ساتھ ملا کر ایران پر حملہ کرنا اور اس کا حشر بھی عراق جیسا کرنے کا خواہاں ہے،سعودی عرب یا ایران کی جنگ میں بھی ان مغربی طاقتوں کے مفادات پو شیدہ ہیں ۔ ایران دنیا کے ان تمام ممالک کی عوام کاحمایتی ہے جن میں برسر اقتدار طاقتیں اپنے عوام کی مرضی کے خلاف ان پر راج کررہی ہیں ۔ یہی بنیا دی وجہ ہے کہ آج ان ممالک میں شورش برپا ہے کیونکہ وہاں جابرانہ اور آمرانہ شخصیات کا تسلط ہے جو کہ اپنی پالیسیوں سے نہیں بلکہ اپنے زور بازو سے اپنی عوام کو ہانک رہی ہیں،وہ علمِ بغاوت کو کسی طور ہضم نہیں کر پارہیں اور اس کا مقابلہ عوام کو کچل کر کر رہی ہیں ۔ یمن میں بھی اسی صورت حال نے جنگ کو جنم دیا ہے ،یمن کی قیادت نے عوام کی خواہشات کا خیال نہیں رکھا ،یمن میں قحط سالی ہے ، بیماری ہے ، شیعہ سنی تفرقات ہیں لیکن ان سب مسائل کی بڑی وجہ وہاں عوام کی مرضی کو یکسر نظر انداز کرنے والی حکومتوں کا برسر اقتدار ہونا ہے ۔

موجودہ تناظر میں ایران اور پاکستان کے لیے بڑی طاقتوں کے سامنے سر تسلیم خم کرنے کی بجائے بہتر مشترکہ دشمنوں سے بچاؤ کی کوشش کرنا ہے ۔امریکہ نے ایران کی اقتصادی ترقی کی راہوں کو بند کردیا ہے اور اس پر ناجائز پابندیوں کی باڑ لگادی ہے ۔ ایران خطے میں بہت اہمیت رکھنے والا ملک ہے ۔ افغانستان برآمدات کی نقل و حمل کا ایک بڑا ذریعہ ایران ہے ۔ یہ 80 ملین آبادی کے لیے ایک اقتصادی گزر گاہ ہے ۔ ایران گیس اور تیل کی دولت سے مالا مال ملک ہے ،یہ دنیا میں تیل کی برامدات کا تیسرا اورگیس کی برامد کا یہ دوسرا بڑا ملک ہے۔امریکہ اسی لیے ایران کو پوری طرح برباد کرنے اور اس پر قبضہ کرنے کی مہم پر کارفرما ہے تاکہ قدرتی وسائل سے مالا مال اس ملک پر قبضہ کرسکے۔

ایران اور پاکستان کو اپنے تعلقات مضبوط کرنے چاہیے،دونوں ممالک کو اپنی علمی طاقت، میزائل ٹیکنالوجی ، سپاہیوں کی تربیت کے لیے اپنا کردار بڑھانا چاہیے ۔ ایک وقت تھا کہ ایکوتنظیم نے دونوں ممالک کے درمیان تعلقات کو بڑھانے میں کلیدی کردار ادا کیا لیکن قیادتوں کی سرد مہری کی وجہ سے یہ تنظیم غیر فعال ہو کر رہہ گئی ۔

رضا نظیری نے دونوں ممالک کے درمیان بہتر تعلقات کے لیے ہر سطح پر روشن خیال خصوصا نوجوان طبقے کے تبادلے کی تجویز سے اتفاق کرتے ہوئے اسے وقت کی اہم ضرورت قرار دیا لیکن انہوں نے اس تبادلہ جات کے لیے پاکستانی حکومتوں کے تحفظات کا ذکر بھی کیا جو کہ اس راہ میں حائل ہیں ۔ پاک انڈیا جنگ ہو نے کی صورت میں انہوں نے سچائی کے ساتھ کھڑے رہنے کے عزم کا اظہار کرتے ہوئے پاکستان کے ساتھ دوستی کو قابل ترجیح قرار دیتے ہوئے حکومتی مفادات اور پالیسیوں کی اہمیت سے بھی انکار نہیں کیا جو کہ ہر ملک کے اپنے مفادات سے جڑی ہوتی ہیں،یہ مفاداتی پالیسی کبھی اٹل ہوتی ہے اور نہ متزلزل، اس میں اتار چڑھاؤ آتا رہتا ہے ۔

یہاں پر یہی بات سچ کہی جاسکتی ہے کہ قوموں کے درمیان دوستی یا نفرت نہیں ہوتی ،ان کے درمیان مفادات اور اغراض ہوتے ہیں،جب تک وہ ایک دوسرے کے ساتھ جڑ ے ہوتے ہیں،وہ ایک دوسرے کے دوست ہوتے ہیں ،یہی ایک زندہ حقیقت ہے کہ قوموں کے درمیان دوستی یا دشمنی ان کے مفادات پر استوار ہوتی ہے ۔انہوں نے پاکستان اور بھارت کے درمیان بہتر تعلقات کی خواہش کا اظہار کیا اور اس میں ہی خطے کی سلامتی اور امن کو پوشیدہ قرار دیا۔ پاکستان اور بھارت کے درمیان جنگ چھڑنے کی صورت میں پورے خطے کے متاثر ہونے کا خدشہ ہے جو کہ بہت سے ممالک کو اپنی لپیٹ میں لے لے گا۔ اس بات سے ان کا واضح اشارہ تیسری عالمی جنگ کی طرف تھا۔ انہوں نے ایران عراق جنگ کی ہولناکیوں کو بیان کرتے ہوئے جنگ کو تباہی کا پیش خیمہ قرار دیا۔ انہوں نے بتایا کہ ایران عراق جنگ میں دونوں ممالک کا سرمایہ اور افرادی قوت کا بے دریغ استعمال ہوا ۔ بدخواہوں کی خواہش نے دونوں ملکوں کوایک نہ ہونے دیا،جوان عورتوں کی ایک بڑی تعداد کو بے شمار مسائل اور مصائب کا سامنا کرنا پڑا،جنگ کسی کی بھی جیت نہیں لاتی ،جنگ سب کی ہار ہے ،جنگ سب کے وسائل کو تباہ کردیتی ہے اور ان کے عوام کو زندہ درگور کردیتی ہے ۔

انہوں نے ایران کا معاشی بائیکاٹ کرنے کی ظالمانہ پالیسی کے خلاف پاکستان سے مدد چاہی اور اسے مشکل معاشی حالات میں سہارا دینے کی بات کی ۔ دراصل ایران اور پاکستان اس وقت بہت نازک دور سے گزر رہے ہیں جس میں مغربی ممالک اور صہیونی طاقتیں ان کی معاشیات کو تباہ کرنے اور انہیں دنیا میں تن تنہا کردینے کی پالیسی کو لے کر چل رہی ہیں۔ ایسے میں مسلم ممالک کے پاس ایک ہی راستہ ہے کہ وہ وحدت اسلامیہ کو فروغ دیتے ہوئے آپس میں بہتر تعلقات قائم کریں اور دشمنوں کے ارادوں کو ناکام بنائیں۔

یہ بھی دیکھیں

مریم نواز ہی وزیراعلیٰ پنجاب کیوں بنیں گی؟

(نسیم حیدر) مسلم لیگ ن کی حکومت بنی تو پنجاب کی وزارت اعلیٰ کا تاج …