جمعہ , 19 اپریل 2024

وحشی لوگ انسانوں کو فنا کر رہے ہیں

(نادر شاہ عادل)

ارسطو نے کہا تھا کہ انسان افضل ترین حیوان ہے، مگر قانون اور انصاف کا دشمن ہو تو اس سے بدترکوئی نہیں ۔ اسی طرح کسی ماہر قانون کا قول ہے کہ انصاف کو خاموش کرانا، معاشرے سے انتقام لینے کی ناخوشگوارکوشش ہے۔

میڈیا کی خبروں میں بتایا گیا ہے کہ آسٹریلین دہشت گرد برنٹن ہیریسن ٹرینٹ نے حملہ سے قبل کہا تھا ’’چلو پارٹی اسٹارٹ کرتے ہیں‘‘ پھر اس کے بعد اس بدبخت مسلح شخص نے خدا کے گھرکو خون ، آہوں، سسکیوں اور آنسوؤں میں ڈبو دیا، نمازیوں پر گولیاں چلائیں، جو نماز جمعہ کی ادائیگی کے لیے جمع تھے ۔

اس فائرنگ میں 9 پاکستانی بھی شہید ہوئے۔ نمازیوں کے نا حق قتل عام پر نیوزی لینڈ سمیت دنیا بھرکے امن پسندوں کے دل چھلنی ہوگئے ، مسلم امہ صدمہ سے نڈھال ہوگئی۔ صدمہ سے چور نیوزی لینڈ کی دل گرفتہ وزیر اعظم جیسنڈا آرڈرن نے اپنی پریس کانفرنس میں کہا کہ ’’جس شخص نے اس جرم کا ارتکاب کیا ہے وہ ہم میں سے نہیں، وہ بے نام رہے گا، جو اس فائرنگ سے براہ راست متاثر (شہید، ہوئے ہیں وہ مہاجر تھے یا نقل مکانی کرکے آئے ہوئے لوگ تھے،انھوں نے نیوزی لینڈکو اپنا گھر بنایا ، یہ ان کا اپنا گھر ہے، تشدد کرنے والوں کی یہاں کوئی جگہ نہیں، جیسنڈا نے کہا کہ آج کا دن ملک کی تاریخ کا سیاہ ترین دن ہے۔ دہشتگرد کو ہر قیمت پر نظام انصاف کا سامنا کرنا پڑے گا۔‘‘ امریکی میڈیا کا کہنا تھا کہ مسلمانوں کے خلاف نفرت کا پر چار کرنا آج کل معمول بن گیا ہے، جب کہ مسلمانوں کو تعصب کی نظر سے دیکھنے کے بجائے انسان کی حیثیت سے دیکھنا ہوگا۔

لیکن آج سے تقریباً ستر برس قبل ایک امریکی ماہر بشریات گورڈن ڈبلیو آلپورٹ نے اپنی کتاب ’’تعصب کی فطرت ‘‘( دی نیچر آف پریجوڈس) میں لکھا کہ ’’گزشتہ صدی کے دوران قومی اور نسلی وابستگی کی اہمیت نے سراٹھایا اور اس میں اضافہ ہوا جب کہ خاندان اور مذہبی وابستگی مائل بہ زوال ہیں،آج اسکاٹش نسلی گروہ میں وفاداری اور رقابتیں قصہ پارینہ بن چکی ہیں، تاہم ایک ماسٹر ریس (برتر نسل) کا تصور خطرناک حد تک پھیلتا جا رہا ہے۔

نیوزی لینڈ سانحہ کی زیریں لہروں میں سفید فام سپرمیسی یعنی سفید چمڑی کی سماجی سیاسی، مذہبی اور نفسیاتی بالادستی کا خونی رجحان کو بآسانی دیکھا جاسکتا ہے، اس نسلی بالادستی کے بہیمانہ اور مہلک عروج کو نوع انسانی کے مختلف گروہ اقوام اور طبقات جنگ عظیم اول اور دوم میں اپنی گنہگار آنکھوں سے دیکھ چکے ہیں، لاکھوں کروڑوں انسان ہلاک ہوئے، انسانیت زخموں سے چور چور ہوگئی۔ آپ کرائسٹ چرچ کے دردناک سانحہ کے سیاق وسباق میں ذرا ’’بن حر‘‘ نامی فلم کا وہ منظر تازہ کیجیے جس میں فلم کے آسکر ایوارڈ یافتہ ہیرو چارلٹن ہیسٹن رتھوں کی سنسنی خیز دوڑ میں اپنے مدمقابل ولن سٹیفن بائیڈ کو سٹیڈیم میں شکست دینے اور اسے خاک و خون میں غلطاں دیکھ کر انعام جیت جاتا ہے اور بعد میں بائیڈ کو شاہی اسپتال میں زندگی اور موت کی اذیت ناک کشمکش میں مبتلا پاتا ہے تو اس وقت بھی سٹیفن بائیڈ کے آتش انتقام میں کوئی کمی نہیں آئی ہوتی، اسے معالج قابو کرنے کی ناکام کوشش کرتے ہیں لیکن وہ ہیسٹن کو اسی حالت کرب و مرگ میں کہتا ہے کہ ’’ریس ابھی ختم نہیں ہوئی۔‘‘

رقابتوں کی نسلی اور مذہبی آگ انسان کے وجود میں کیسے پرورش پاتی ہے، آلپورٹ کی کتاب اس کا جائزہ پیش کرتی ہے۔ اسی سماجی ، نسلی ، مذہبی جنون اور نفرتوں کی زہرناکی امریکا کے آزادی کے مجسمہ کی زبان سے وہ الفاظ سناتی ہے، جسے نوع انسانی کا نوحہ کہنا زیادہ مناسب ہے، آزادی کی دیوی کہتی ہے ۔

اپنے تھکے ماندہ خستہ تنوں اورغریبوںکو مجھے دے دو

اپنے مجبور عوام کو میرے سپرد کردو

جو آزادی کا سانس لینا چاہتے ہیں

اپنے ساحلوں کا گند جو سمندری طوفانوں نے میری طرف اچھال دیا ہے

مجھے عطیہ کردو

ان خانماں برباد لوگوں کو میرے پاس آنے دو

جنھیں بپھری موجوں نے میری طرف دھکیل دیا ہے

میں نے ان کے لیے

اپنا چراغ طلائی دروازے کے قریب رکھ دیا ہے

ادھر آسٹریلوی حکام کا کہنا ہے کہ برینٹن ٹرینٹ کا کوئی کرمنل ریکارڈ موجود نہیں لیکن وہ خود کو نسل پرست، اینٹی مسلم، اینٹی امیگرینٹس اور سفید سپرا میسسٹ آئیڈیالوجی والا کہتا ہے۔ نیوزی لینڈ حکومت کہتی ہے کہ برینٹن کے انتہاپسند گروہوں، اس کے منصوبوں ،خیالات اور اس نے کس کس سے تحریک حاصل کی ہے سب کا پتا چلایا جائے گا۔نیوزی لینڈ کے ڈائریکٹر 36 پیرالل اسسمنٹ پال بکانن نے اپنے تجزیے میں کہا کہ نیوزی لینڈ میں مردم کشی کا وائرس سیاست میں بھی آگیا ہے،البتہ دہشتگردی اور انتہا پسندی ایسی نہ تھی، ایجنسیوں نے شاید غفلت برتی، اس جانب کوئی توجہ نہیں دی، یہ ہماری سوچ اور سیاست کے لیے نیا موڑ ہے ۔ اس چیز کو یورپ اور امریکا میں واضح طور پر دیکھا جاسکتا ہے اور اب یہ ہمارے ملک میں آگئی ہے، مسئلہ تشویش ناک ہے، معاملات یکسر تبدیل ہوتے نظر آتے ہیں۔

ان کا کہنا تھا کہ نائن الیون کے بعد نیوزی لینڈ کے انٹیلی جنس اداروں کا فوکس اسلامی انتہا پسندوں کے خطرہ پر تھا ، ہمارے پاس وسائل کی کمی کا مسئلہ نہیں سراغرساں اداروں نے دائیں بازوکے انتہاپسندوں کے گھمبیر مسئلہ پر توجہ نہیں دی۔ وہ سوشل میڈیا پر فروری سے کام کر رہے تھے،ان کا پمفلٹ ایک منشور سے متعلق تھا۔ کرائسٹ چرچ میں رائٹ ونگ انتہا پسندی موجود تھی، یہ لوگ اقلیتی کمیونٹی پر حملے کرتے تھے، مگر ریگولر نہیں ہوتے تھے، یہ حیران کن بات نہیں مگرہولناک ضرور ہے، انٹیلی جنس والے ملزم برنٹن کے ساتھیوں کو تلاش کررہے ہیں تاکہ اندازہ لگایا جاسکے کہ کوئی وسیع تر گروہ سرگرم عمل تو نہیں۔ سوال یہ ہے کہ ان کے پاس ہتھیار کہاں سے آئے، ان کی فنڈنگ کون کرتا ہے، شوٹر نے طریقہ واردات کی تربیت کہاں سے حاصل کی، عموماً انٹیلی جنس کے ادارے اپنے کام سے کام رکھتے ہیں، تفصیل نہیں دیتے مگر جب غلطی ہوجائے توانتہا پسندوں کے خلاف سخت کارروائی ناگزیر ہوجاتی ہے۔

ممتاز قلم کار عمران شاہد بھنڈر نے اپنی کتاب میں لکھا ہے کہ اسلام کے خلاف شدید نفرت فلسفیانہ سطح پرمابعد الطبیعات کے وسط میں موجود ہونے کے علاوہ سرمایہ دارانہ نظام کے رشتوں سے مکمل مطابقت رکھتی ہے، جو بحران کی صورت میں نفرت کو ابھارنے میں معاون ثابت ہوتی ہے۔ اس لیے ضروری ہے کہ دہشت گردی کا سیاسی و معاشی عمل یا مذہبی وحشت سے تعلق دریافت کیا جائے۔

علاوہ ازیں کرائسٹ چرچ کے سیاق و سباق میں اس ملکی وحشت اور مذہبی بربریت کا بھی جائزہ لیا جائے جو انتہاپسندی اور طالبانیت کی صورت فاٹا کے علاقے میں موت بانٹتی رہی، وہ کون لوگ تھے جنہوں نے آرمی پبلک اسکول میں 149 معصوم طالب علموں اور اسٹاف عملہ کو بے رحمی سے قتل کیا، وہ بھی تو کرائسٹ چرچ جیسا قتل عام تھا۔ ڈرون کا پہلا حملہ ڈمہ ڈولا کے غریب مدرسہ پر ہوا جس میں غریب طالب علم موت کے آغوش میں چلے گئے، ڈرون حملے ہوتے رہے، حالانکہ ہم ایک ایٹمی ملک تھے۔ لہذا سوچیے پاکستان پر بھی کئی بار کرائسٹ چرچ جیسی موت مسلط کی گئی۔ بقول نظیری موت نے ہمارے گھر کا رستہ دیکھ لیا تھا۔

اب اس تناظر میں ذرا کراچی میں جرائم کی صورتحال پر نظر ڈالیں اور اسی عروس البلاد شہر قائد کے لیاری ٹاؤن میں گینگ وار کی تباہ کاریوں کا ڈیٹا مانگ لیں تو کسی کے پاس اس ’’منی روانڈا ‘‘ کے دکھ کی کوئی مربوط تفصیل نہیں ملے گی۔ میڈیا پر گینگ وار کے حوالہ سے خبروں کا تانتا بندھا ہوا ہے۔ کسی سے پوچھ لیں کہ گینگ وار کارندوں کا پہلا ٹارگٹ کون اور کس علاقے کا تھا تو کسی کے پاس مستند جواب نہ ہوگا لیکن افسانے ہزاروں ہونگے جب کہ حقیقت یہ ہے کہ گینگ وار کا سلسلہ 2001 میں شروع ہوا اور بابو اقبال ڈکیت سے ہوتا ہوا عزیر بلوچ تک آیا۔

کسی صحافتی رفیق کا مشورہ تھا کہ آپ چونکہ گینگ وار کے چشم دید واقعات کے اہم ’’سورس‘‘سے واقف ہیں اور ان رازہائے سربستہ کی گہرائیوں میں اتری قوتوں اور غیر مرئی نیٹ ورک کے اسکرپٹ اور اسکرین پلے کا ادراک رکھتے ہیں تو آپ ہی گینگ وار پر کوئی کتاب لکھ دیں۔ مشورہ غیر معقول نہیں،اس غیر انسانی صورتحال پرکوئی بھی مربوط دستاویز منظر عام پر آنی چاہیے، ہزاروں بے گناہ لوگ گینگ وار کا ایندھن بنے، گھر لٹے،کاروبار تباہ ہوا، ایک پرامن علاقے کی سیاسی، سماجی اور ثقافتی شناخت مٹ گئی اور اسپورٹس کے شاندار حوالے برباد ہوئے۔ اگر ’’ایلکس ہیلی کی زندگی سے چالیس سال کی تحقیق منہا کردی جائے تو ’’روٹس‘‘ Roots جیسا ناول کیسے تخلیق پاتا۔ سیاہ فام بھی کرائسٹ چرچ جیسے یکے بعددیگرے عذابوں سے گزرتے رہے۔ ول ڈیورینٹ نے درست کہا کہ یہ تہذیب کا انحطاط ہے۔ وحشی لوگ انسانوں کو فنا کر رہے ہیں۔بشکریہ ایکسپریس نیوز

یہ بھی دیکھیں

مریم نواز ہی وزیراعلیٰ پنجاب کیوں بنیں گی؟

(نسیم حیدر) مسلم لیگ ن کی حکومت بنی تو پنجاب کی وزارت اعلیٰ کا تاج …