ہفتہ , 20 اپریل 2024

ہولی تہوار، یومِ پاکستان کے نام!

(ڈاکٹر رمیش کمار وانکوانی)

دنیا بھرکی طرح بیس مارچ کو پاکستان میںبھی ہولی کا تہوار نہایت جوش و خروش کیساتھ منایا گیا،یہ تہوار ہندو دھرم میں دیوالی کے بعد سب سے بڑا تصور کیا جاتا ہے جو موسم بہار کی آمد کی خوشی میں منایا جاتا ہے، مذہبی روایات کے مطابق ہولی کا تہوار نیکی کی بدی اور روشنی کی اندھیرے پر فتح کی یاد دلاتا ہے، ہولی کا تہواریاد دلاتا ہے کہ ظالم بادشاہ ہرنیہ کا شیپو کا اپنا سگا بیٹاپراہ لاد حق و سچائی کی خاطر ایک خدا پر ایمان رکھتے ہوئے اپنے باپ کے ظلم و ستم کے خلاف ڈٹ گیا، سنسکرت زبان میں پراہ لاد کے معنٰی خوشیوں سے بھرپور ہے۔

پاک بھارت حالیہ کشیدگی کے تناظر میں پاکستان ہندوکونسل نے رواں برس کا ہولی تہوار یومِ پاکستان سے منسوب کرنے کا فیصلہ کیاجسے وسیع پیمانے پر پذیرائی حاصل ہوئی، مینیجنگ کمیٹی کے اجلاس میں بھارتی جارحیت کے خلاف متفقہ قرارداد منظور کرتے ہوئے فیصلہ کیا گیا کہ ہولی کا بڑا تہوار شہر قائد کراچی میں سولجر بازار میں واقع قدیمی ہنومان مندر میں منایا جائے گا جہاں بے شمار پاکستانی ہندو گھرانے ہاتھوں میں قومی پرچم اٹھائے اپنی دھرتی ماتا پاکستان سے اپنی بے پناہ محبت کا اظہارکریں گے،مجھے خوشی ہے کہ دنیا بھر کے میڈیا نے دکھایا کہ پاکستان میں ہمارے مندروں میںاگر ایک طرف ہمارا مقدس مذہبی گیروا جھنڈا لہرا رہا تھا تو ساتھ ہی پاکستانی پرچموں کی بہار 23مارچ 1940ء کو لاہور میں منعقدہ اس تاریخی اجلاس کی یاد دلارہی تھی جب ہمارے بڑوں نے قائداعظم کی زیرقیادت آزاد مملکت پاکستان کے قیام کا فیصلہ کیا۔ مذہبی طور پر ہولی کی رنگارنگ تقریب کی شروعات آرتی اور روایتی پوجاپاٹ سے کی جاتی ہے اور خاندان کابزرگ شخص اہل خانہ پر رنگ پھینک کرتہوار منانے کا آغازکرتا ہے، پاکستانی ہندو کمیونٹی کی نمائندہ تنظیم پاکستان ہندوکونسل کے سرپرست اعلیٰ ہونے کی حیثیت سے یہ اعزاز مجھے حاصل ہواہے۔رواں برس کی ہولی تقریب کی منفرد بات یہ تھی کہ پرچم کشائی اور پاکستان کے قومی پرچم کو خصوصی اہمیت دی گئی جبکہ ہندو بچوں نے ملِی نغمے پیش کئے، ہولی کا تہوار مناتے ہوئے ہم نے پاکستان کی ترقی و خوشحالی کیلئے خصوصی دعائیں کرتے ہوئے انسانی تاریخ کی عظیم پرامن اور کامیاب ترین تحریکِ پاکستان کے تمام اکابرین کو بھی خراجِ تحسین پیش کیا، میں نے اپنے خطاب میں قائداعظم کے قریبی بااعتماد ساتھی جوگندرناتھ منڈل کی خدمات کا خصوصی تذکرہ کیا جو قائداعظم کی آخری سانسوں تک ان کے ہمسفر رہے، میں نے واضح کیا کہ قائداعظم کے دو قومی نظرئیے کی بنیاد پر مطالبہ پاکستان کی حمایت کرنے والوں میں غیرمسلموں کی خاصی بڑی تعداد بھی شامل تھی جن میں کچھ بڑے نام دیوان بہادر ستیہ پرکاش سنگھا، چندو لال،راج کماری امریت، سی ای گبون، ایف ای چوہدری، الفریڈ پرشاد اور ایس ایس البرٹ وغیرہ وغیرہ کے ہیں۔

تحریک پاکستان کے غیرمسلم حامی پرْامید تھے کہ اسلام کے نام پر معرض وجود میں آنے والے ملک میں تمام شہریوں کو برابری کی سطح پر یکساں شہری حقوق حاصل ہونگے، اس حوالے سے ہمارے بڑوں کے سامنے انسانی تاریخ کا سب سے شاندار معاہدہ میثاق ِ مدینہ تھا جس میں اسلامی ریاست اور غیرمسلم شہریوں کے مابین پرامن تعلقات کو یقینی بنایا گیا تھا۔ آج بھی مجھ جیسے لاتعداد پاکستانی ہندو شہری اس امر پر فخر کرتے ہیں کہ ہمارے بڑوں نے قائداعظم کی اپیل پر ہجرت کا ارادہ ترک کرکے پاکستان کو اپنی دھرتی ماتا بنالیا۔ رواں برس ہولی مناتے ہوئے ہم نے اس عزم کا اعادہ کیا کہ انسان کا خداوندِ تعالیٰ پر یقینِ محکم ہونا چاہئے۔حالیہ پاک بھارت کشیدگی نے ہولی سے منسوب اس روایتی بیانیہ کی اہمیت مزید اجاگر کردی کہ ازل سے نیکی اور بدی کی نمائندہ قوتوںکے مابین تصادم جاری ہے، بھارتی فضائی دراندازی کے ردعمل میں پاک فضائیہ نے جس موثر انداز میں جواب دیا اور پاکستان کی سیاسی و عسکری قیادت نے یک زباں ہوکر امن کی خواہش کا اظہار کیا، اس نے ثابت کردیا کہ آخری جیت ہمیشہ حق کی ہوتی ہے، اچھے لوگوں کو اپنی جدوجہد کے دوران بے پناہ مسائل اور مشکلات کا سامنا کرنا پڑسکتا ہے لیکن ایسا کبھی نہیں ہوسکتا کہ نیک قوتیں بدی کے مقابلے میں شکست کھا جائیں۔پاکستان کی امن پسند ہندو کمیونٹی نے بھارتی وزیراعظم نریندرا مودی کو جنگی جنون ترک کرنے کی تلقین کرتے ہوئے مہاتما گاندھی جی کے اہنسا عقیدے کو اپنانے کی بھی تلقین کی، مقدس ہندو ویدوں کے مطابق ایک حکمراںکو اپنا اقتدار عوام کو ستانے کی بجائے خدا کی امانت سمجھ کر فلاح و بہبود کیلئے استعمال کرنا چاہئے۔

یہ ایک تاریخی حقیقت ہے کہ انگریزسامراج کی آمد سے قبل برصغیر کا معاشرہ مذہبی ہم آہنگی پر مبنی تھا جہاں بسنے والے ایک دوسرے کے مذاہب کا احترام کرتے ہوئے مذہبی تہوار ایک ساتھ منایا کرتے تھے،ہمارے بڑے آج بھی وہ زمانہ یاد کرتے ہیں جب ہندو مسلمان مل جل کر ہولی، دیوالی، عید اور محرم منایا کرتے تھے، آج بھی دونوں ممالک اور مذاہب کے ماننے والوں میں ایسے افراد موجود ہیں جوعلاقائی امن و استحکام کی خاطر ماضی کی روشن روایات کے احیا ء کیلئے اپنا کردار ادا کرنے کے خواہاں ہیں لیکن وہ دونوں اطراف میں موجود مٹھی بھر شدت پسند عناصر کے سامنے بے بس نظر آتے ہیں، میں ان تمام پاکستانی شہریوں اور میڈیا نمائندگان کا مشکور ہوں جنہوں نے ہولی تقریب میں بھرپور شرکت کرکے یہ اہم پیغام دیا کہ ہم اپنے معاشرے کو تقسیم کرنے کی بجائے بھائی چارے کو عام کرنا چاہتے ہیں ، اپنے آپ کو ایک مضبوط اور متحد قوم میں ڈھالنے کیلئے ضروری ہے کہ ہم ملک میں بسنے والے تمام مذاہب کے ماننے والوں کا احترام یقینی بناتے ہوئے مذہبی ہم آہنگی ، برداشت، رواداری پر مبنی پاکستانی معاشرے کی تکمیل میں اپنا بھرپور کردار ادا کریں۔

اس اعلیٰ مقصد کے حصول کیلئے ضروری ہے کہ ایک دوسرے کے مذہب کی تعلیمات اور تہواروں کے اصل پیغام کو سمجھاجائے، میری نظر میں ہولی صرف رنگ پھینکنے کا نام نہیں بلکہ ایک عظیم درس ہے کہ کبھی کسی ظالم غاصب طاقت سے خوفزدہ نہ ہو ا جائے بلکہ ڈٹ کر باطل کا مقابلہ کیا جائے، ہو لی منانے کا ایک مقصد انسانوں کو قریب لانا بھی ہے۔پاکستانی محب وطن ہندو کمیونٹی نے ہولی تقریب یوم پاکستان کے نام کرتے ہوئے افواج پاکستان کے شانہ بشانہ دفاع وطن کیلئے ہر قربانی پیش کرنے کے عزم کا بھی اعادہ کیا، شہدائے نیوزی لینڈ کیلئے ایک منٹ کی خاموشی اختیار کرتے ہوئے دعائیں بھی مانگی گئیں۔ کاش، کرہ ارض پر بسنے والا ہر انسان نفرتوں کو خیرباد کہہ کر ایک دوسرے پر خوشیوں کے رنگ پھینکنے کی اہمیت سمجھ سکے۔بشکریہ جنگ نیوز

یہ بھی دیکھیں

مریم نواز ہی وزیراعلیٰ پنجاب کیوں بنیں گی؟

(نسیم حیدر) مسلم لیگ ن کی حکومت بنی تو پنجاب کی وزارت اعلیٰ کا تاج …