جمعہ , 19 اپریل 2024

بوئنگ طیارے کے بڑھتے حادثات: مالی مفاد نے انسانی جان کو بھی نہ بخشا

ادیس بابا (مانیٹرنگ ڈیسک)یہ ایتھوپیا کے شہر ادیس بابا میں ایک روشن اور صاف دن تھا۔ کسی کو کیا معلوم تھا کہ 10 مارچ 2019ء کا یہ دن جو پرواز کے لیے بہترین دن کہا جاسکتا ہے، وہ ایوی ایشن کی تاریخ میں ایک تاریک دن کے طور پر یاد رکھا جائے گا۔

ایئر پورٹ پر نیروبی کی پرواز 302 تیار تھی۔ افریقہ میں کام کرنے والی متعدد این جی اوز، ملٹی نیشنل کمپنیوں کے نمائندے اور اقوام متحدہ کے ملازمین سمیت تقریباً 35 ممالک سے تعلق رکھنے والے 149 مسافر اور عملے کے 8 افراد ایئرلائن کے ’فِلیٹ‘ میں شامل ہونے والے نئے طیارے بوئنگ 737 میکس میں سوار ہورہے تھے۔

طیارے کے کپٹن یارید گیتاچاو Yared Getachew کو 737 طیارے اڑانے کا وسیع تجربہ تھا اور اسی بنیاد پر انہیں کمپنی نے اپنے نئے میکس طیارے اڑانے کے لیے منتخب کیا تھا۔ مگر نئے طیارے کے حوالے سے کوئی اسٹیمولیٹر Stimulator کی تربیت نہیں دی گئی تھی۔

کیپٹن طیارے کو رن وے پر لائے اور طیارے کو اڑان بھرنے کے لیے انجن کو پوری طاقت کے ساتھ چالو کردیا۔ طیارہ چند ہی لمحوں میں فضا میں بلند ہوگیا اور اپنی مطلوبہ اونچائی حاصل کرنے لگا۔ ابھی پرواز کو اڑے چند لمحے ہی گزرے تھے کہ اچانک ہی پائلٹ کو محسوس ہوا جیسے طیارے کی ’نوز‘ نیچے کی طرف جارہی ہے۔ اس نے طیارے کے حوالے جو ڈیٹا کمپیوٹر میں فیڈ کیا تھا وہ بھی کچھ تبدیل نظر آرہا ہے۔ اس نے طیارے کو اوپر اٹھانے کے لیے تھروٹل کو اٹھانا شروع کیا مگر طیارہ تھوڑا اوپر اٹھتا اور پھر نوز پر نیچے کی جانب دباؤ شروع ہوجاتا۔

اس پورے عمل نے پائلٹ اور اس کے ساتھی پائلٹ کے پسینے چھڑا دیے۔ اس مشکل صورتحال سے نکلنے کے لیے کشمکش بڑھتی چلی گئی۔ پائلٹ مسلسل جہاز کی نوز کو اوپر اٹھانے کی کوشش کرتا رہا مگر وہ کامیاب نہ ہوسکا۔ طیارے کے کاک پٹ میں انسانی عقل اور طیارے میں موجود آرٹیفشل انٹیلیجنس کی جنگ میں کمپیوٹر کی فتح ہوئی اور انسان ہار گیا۔ ایتھوپیا کی پرواز 302 اڑان بھرنے کے محض 6 منٹ بعد ہی زمین پر ناک کے بل گر پڑی اور یوں طیارے میں سوار تمام 157 مسافر اور عملہ جان کی بازی ہار گئے۔

اس حادثے کی خبر نے شہری ہوابازی کی صنعت میں ایک ہیجان اور بحران پیدا کردیا۔ جس کے بعد دنیا بھر سے بوئنگ 737 میکس طیاروں کو پرواز سے باہر کیے جانے کے اعلانات سامنے آنے لگے۔ چین، ارجنٹینا، بھارت، ایتھوپیا، میکسیکو، برطانیہ، آسٹریلیا، متحدہ عرب امارات اور برازیل نے ان طیاروں کو صرف گراونڈ ہی نہیں کیا بلکہ اپنی ملکی فضا میں داخلے پر بھی پابندی عائد کردی۔

اس سخت فیصلے کی وجہ شاید یہ ہو کہ ایتھوپیا کا محض واحد واقعہ رونما نہیں ہوا، بلکہ دنیا کے جدید ترین طیارے کو 5 ماہ کی قلیل مدت میں دوسرے تباہ کن حادثے کا سامنا کرنا پڑا تھا۔ اکتوبر 2018ء میں انڈونیشیا کی لائن ایئر کا طیارہ بھی پرواز کے چند لمحوں بعد اسی طرح حادثے کا شکار ہوگیا تھا، جس میں 188 افراد کی جان چلی گئی تھی۔

اکتوبر 2018ء میں انڈونیشیا کی لائن ایئر کا طیارہ بھی پرواز کے چند لمحوں بعد حادثے کا شکار ہوگیا تھا—تصویر: ٹوئٹر
لیکن جہاں اتنے سارے ممالک نے سخت ایکشن لیا، وہاں ابتدائی طور پر امریکی حکومت اور فضائی ریگولیٹرز اپنی کمپنی بوئنگ کی پشت پر کھڑے ہوگئے اور انہوں نے بوئنگ 737 میکس طیاروں کو گراونڈ کرنے سے انکار کردیا۔ سچ پوچھیے تو یہ فیصلہ مسافروں کی زندگی کے لیے ایک بہت بڑا رسک تھا۔

لیکن پھر ایتھوپیا کے حادثے کے بعد ملنے والے ڈیٹا سے پتہ چلا کہ پرواز کے فوری بعد طیارے کے فلائٹ کریو اور کمپیوٹر کے درمیان ایک کشمکش جاری تھی۔ سافٹ ویئر طیارے کی نوز کو نیچے لے جانے کی کوشش کررہا تھا جبکہ پائلٹ طیارے کو اوپر لے جانے کے لیے نوز کو اوپر اٹھا رہا تھا۔ اب چونکہ طیارے میں لگے سینسرز سافٹ ویئر سے منسلک تھے، لہٰذا کمپیوٹر نظام نے سینسرز سے ملنے والے غلط ڈیٹا پر عمل کیا جس کا نتیجہ تباہی کی صورت نکلا۔

اس انکشاف کے بعد امریکا نے فیڈرل ایوی ایشن کی سفارش پر بوئنگ 737 میکس طیاروں کو حادثے کے کئی دن بعد گراونڈ کردیا، جس کا اعلان امریکی صدر ٹرمپ نے کیا اور انہوں نے صرف 737 میکس 8 کو ہی گراونڈ نہیں کیا بلکہ اس کے ساتھ 737 میکس 9 کو بھی گراونڈ کردیا۔ لیکن حیرانی کی بات یہ کہ جس وقت امریکی صدر یہ حکم نامہ جاری کررہے تھے ٹھیک اسی وقت 24 سے زائد بوئنگ 737 میکس طیارے فضا میں موجود تھے۔

غلطی ہوئی کہاں؟
گھوم پھر کر اہم ترین سوال یہی ہونا چاہیے کہ آخر یہ سب کچھ ہوا کیوں؟ سوال کا جواب کچھ طویل مگر دلچسپ ہے۔دیکھیے اس وقت دنیا میں طیارہ سازی کی مارکیٹ پر یورپی اور امریکی کمپنیوں کی اجارہ داری اور باہمی مقابلہ ہے۔ ایئر بس یورپی برانڈ ہے، جو دنیا کا سب سے بڑا طیارہ ایئر بس A380 بھی بناتی ہے۔ مگر بوئنگ طیارہ سازی میں امریکی کمپنیاں زیادہ تجربہ رکھتی ہیں۔ ایئر بس کو یورپ کے مختلف ملکوں میں تیار کیا جاتا ہے، جبکہ بوئنگ تمام تر کام اپنی اسمبلی لائن پر کرتا ہے۔

گزشتہ دہائی میں ایئر لائن میں بڑے طیاروں کی طلب پیدا ہوئی تو ایئر بس کا A380 طیارہ کامیاب رہا مگر جلد ہی مسافروں اور ایئرلائنز کو احساس ہوا کہ بین البراعظمی طیاروں کے بجائے پوائنٹ ٹو پوائنٹ درمیانے درجے کے سفر کے لیے طیاروں کی طلب بڑھ رہی ہے اور پھر مقابلہ دوبارہ نیرو باڈی طیاروں کی طرف منتقل ہوگیا۔

ایئر بس نے اپنے A320 طیاروں کا نیا ماڈل Neo متعارف کرایا جس کے مقابلے میں بوئنگ نے اپنے کامیاب ترین 737 کا نیا ماڈل 737 میکس متعارف کروا دیا۔ مگر بوئنگ نے اس طیارے میں جو تبدیلیاں کیں اس کی وجہ سے طیارہ پہلے سے آپریشن میں موجود 737 طیاروں سے بہت مختلف ہوگیا۔ طیارے کے فیوز لاج یا ڈھانچے کو بڑا کیا گیا اور 12 اضافی نشستوں کی گنجائش پیدا کی گئی۔ اس کے علاوہ طیارے کے ونگز کے ڈیزائین میں بھی تبدیلیاں کی گئیں۔ یہی نہیں بلکہ زیادہ طاقتور انجنوں اور ان کو لگائے جانے کی جگہ میں تبدیلی نے طیارے کی اڑان کو مکمل طور پر تبدیل کردیا۔ مگر بوئنگ کمپنی نے مقابلے کی دوڑ کے سبب بعض اہم باتوں کو جان بوجھ کو چھپایا جو 2 بدترین اور جان لیوا حادثات کا سبب بنا۔

بوئنگ نے اپنے طیارے میں تبدیلی کرنے کے باوجود یہ بتایا کہ یہ بالکل 737 جیسا ہی ہے۔ اس کی 2 بڑی وجوہات تھیں۔ ایک تو یہ کہ بوئنگ نے نئے طیارے کو زیادہ اسمارٹ، آرام دہ کے ساتھ ساتھ کم قیمت طیارے کے طور پر بھی متعارف کروایا تھا۔ 737 میکس میں ایندھن کی بچت 14 فیصد اور آپریٹنگ لاگت میں 8 سے 10 فیصد کی بچت بتائی گئی تھی۔ اس کے علاوہ بوئنگ نے یہ بھی دعوٰی کیا کہ ایئر لائیز کو پائلٹس کی تربیت پر اٹھنے والے اخراجات میں بھی بچت ہوگی کیونکہ 737 اڑانے والے پائلٹس ہی یہ طیارہ بغیر کسی اضافی تربیت کے اڑا سکیں گے۔ حالانکہ اس نئے جہاز میں نئے فلائٹ کنٹرول کا نظام موجود تھا، مگر بوئنگ نے جان بوجھ کر اس کے بارے میں آگاہ نہیں کیا۔ مگر ان طیاروں میں خرابی کے حوالے سے میڈیا میں مسلسل خبریں آرہی تھیں۔ نیو یارک ٹائمز نے بھی اس حوالے سے خبر بریک کی تھی۔

اس کے علاوہ بوئنگ کمپنی 737 طیاروں کو اپنے لیے نیک شگون بھی سمجھتی ہے۔ یہ طیارے دنیا میں سب سے زیادہ فروخت ہونے والے طیارے ثابت ہوئے ہیں۔ بوئنگ نے 1967ء میں 737 طیارے تیار کرنا شروع کیے تھے اور اب تک یہ کمپنی تقریباً 10 ہزار طیارے فروخت کرچکی ہے، جس کا مطلب یہ ہوا کہ یہ دنیا میں فروخت ہونے والا سب سے بڑا ماڈل ہے۔

بوئنگ کے نئے طیار ے 737 میکس کو بھی شاندار کامیابی ملی اور 2017ء کے بعد سے اب تک 350 سے زائد طیارے فروخت ہوچکے ہیں۔ جبکہ تقریباً 4 ہزار طیاروں کا آرڈر بھی مل چکا ہے۔ یہی وہ طیارہ تھا جس کی کامیابی کے بعد بوئنگ نے یورپی طیارہ ساز کمپنی کو پیچھے چھوڑ دیا تھا۔ مگر 737 میکس طیاروں کے حالیہ حادثے نے بوئنگ کمپنی کو شدید مالی نقصان پہنچایا ہے۔ کمپنی کے حصص کی قیمت 10 فیصد سے بھی زائد گرچکی ہے کیونکہ دنیا بھر کی ایئر لائنز 737 میکس کے آرڈر منسوخ کررہی ہیں۔

بوئنگ نے 2018ء میں 100 ارب ڈالر کا ریونیو اور 10 ارب ڈالر کا منافع کمایا تھا مگر اب کمپنی ڈوبتی ہوئی محسوس ہورہی ہے۔ حالیہ برسوں میں یہ بوئنگ کی جانب سے دوسری بڑی فنی خرابی سامنے ہے۔ اس سے قبل سال 2013ء میں بوئنگ کے ڈریم لائنر طیاروں میں بھی فنی خرابی پیدا ہوئی تھی جس کی وجہ سے انہیں بھی گراونڈ کرنا پڑا تھا۔ اس خرابی نے بوئنگ کمپنی کو 5 ارب ڈالر کا دھچکہ پہنچایا تھا۔

جیسا کہ اوپر بیان کیا گیا ہے کہ اس نئے جہاز میں انجن، پروں اور ڈھانچے میں تبدیلی کی گئی جس سے طیارے کا مرکز کشش ثقل Center of Gravity تبدیل ہوگیا۔ اس تبدیلی کی وجہ سے طیارے کے دوران پرواز نوز کے اوپر اٹھنے کے مسائل پیدا ہوئے۔ دوران پرواز طیارے کی نوز نیچے ہونے کی وجہ سے طیارے کے انجنوں میں ہوا کا گزر کم ہوجاتا ہے اور طیارے کی رفتار کم ہونے کے ساتھ ساتھ بلندی تیزی سے کم ہونے لگتی ہے۔ اگر اس عمل کو درست نہ کیا جائے تو طیارہ کریش ہوجاتا ہے۔ اس عمل کو ایوی ایشن کی زبان میں اسٹال stall کہا جاتا ہے۔ جس کو حل کرنے کے لیے بوئنگ نے مصنوعی ذہانت یا Artificial Intelligence کے تحت ایک نیا نظام متعارف کروایا جس کو Maneuvering Characteristics Augmentation System کہا جاتا ہے۔

لیکن اصل مسئلہ اس وقت ہی پیدا ہوا جب اس سسٹم کے بارے میں پائلٹس کو کوئی اضافی معلومات یا تربیت نہیں دی گئی۔ یہ نظام جہاز میں لگے حساس آلات سے ڈیٹا لیتا اور اس ڈیٹا کی بنیاد پر خود ہی فیصلہ کرتا اور طیارے کی نوز کو درست سمت میں کردیتا ہے۔ یہ عمل اتنا تیزی سے کام کرتا ہے کہ پائلٹس کو کچھ اطلاع یا سمجھائے بغیر یہ اپنا کام کرجاتا اور پائلٹس پریشان رہ جاتا کہ اچانک یہ کیا ہوگیا؟ بوئنگ کے ڈیٹا کے مطابق یہ نظام 3 سے 5 سیکنڈ میں متحرک ہوتا ہے اور اپنا کام کرنے کے بعد خود بہ خود بند ہوجاتا ہے۔

بوئنگ 737 میکس اڑانے والے پائلٹس نے ناسا کے رپورٹنگ نظام میں شکایت درج کرائی تھی مگر اس پر بھی کوئی توجہ نہیں دی گئی ۔ پائلٹس نے بوئنگ 737 میکس کے دوران پرواز خطرناک رویے کی بھی شکایت کی تھی۔ پائلٹس کا کہنا تھا کہ فلائٹ کنٹرول کا سسٹم اچانک طیارے کو نیچے گرانے لگتا ہے اور طیارے کو بچانے کے لیے انہوں نے فلائٹ کنٹرول سسٹم کو غیر موثر کرنے کے بعد طیارے کو مینؤل طریقے سے قابو میں کیا۔

امریکی شہری ہوا بازی کے ریگولیٹر فیڈرل ایوی ایشن یا ایف اے اے نے اس کا بلیٹن جاری کرنے کے بجائے خاموشی سے یہ معلومات بوئنگ کو فراہم کردیں اور بوئنگ نے کسی وارننگ کو جاری کیے بغیر اس سافٹ ویئر کو تبدیل کرنے کا فیصلہ کرلیا۔ ایف ا ے اے اور بوئنگ کی اس مجرمانہ غفلت کی وجہ سے حادثات ہوئے اور سیکڑوں افراد کی جان ضائع ہوگئی۔

اس سے کوئی انکار نہیں کہ گزشتہ چند دہائیوں میں فضائی سفر میں بہت بہتری آئی ہے۔ فلائٹ کنٹرول میں کمپیوٹر کا عمل دخل بڑھنے سے انسانی غلطی کا احتمال کم سے کم ہوتا جارہا ہے۔

ہالینڈ میں قائم ایوی ایشن سیفٹی نیٹ ورک کا کہنا ہے کہ گزشتہ 2 دہائیوں کے دوران ایوی ایشن حادثات کی وجہ سے اموات کی شرح میں بہت کمی ہوئی ہے۔ سال 2005ء میں کمرشل طیاروں کے حادثات کے سبب ایک ہزار افراد ہلاک ہوئے مگر سال 2017ء میں مرنے والوں کی تعداد صفر رہی۔ مزید بتایا گیا کہ جان لیوا حادثات تو اب بہت ہی کم ہوگئے ہیں اور 30 لاکھ پروازوں میں سے ایک جان لیوا حادثہ ہوتا ہے۔ فضائی حادثوں میں کمی کے حوالے سے سال 2018ء کو تیسرا بہترین سال قرار دیا جاتا ہے جس میں مرنے والوں کی تعداد 500 رہی ہے۔ واضح رہے کہ فضائی سفر کرنے والے افراد کی تعداد سالانہ 4 ارب سے تجاوز کرچکی ہے۔

بوئنگ 737 میکس کے ہونے والے حادثات کے بعد امریکی ذرائع ابلاغ میں یہ بحث ہورہی ہے کہ بوئنگ کمپنی میں قیادت کا بحران پیدا ہوتا جارہا ہے اور کمپنی کے قیادت کے نظام میں بہت سی خرابیاں پیدا ہوچکی ہیں۔ بوئنگ نے ہمیشہ اپنی کاروباری اخلاقیات میں منافع سے زیادہ انسانی جانوں کی حفاظت کو اہمیت دی ہے، مگر بدقسمتی سے بوئنگ کمپنی اپنے مقابل ایئر بس سے مقابلے کی دوڑ میں اس اہم کاروباری اخلاقیات کے پہلو کو نظر انداز کر گئی. بوئنگ کی جانب سے جان بوجھ کر انسانی جانوں کو خطرے میں ڈالا گیا اور معلوم غلطی کے باوجود پائلٹس کو آگاہ نہ کیا گیا۔

یہ بھی دیکھیں

عمران خان نے تحریک انصاف کے کسی بڑے سیاسی رہنما کے بجائے ایک وکیل کو نگراں چیئرمین کیوں نامزد کیا؟

(ثنا ڈار) ’میں عمران کا نمائندہ، نامزد اور جانشین کے طور پر اس وقت تک …