جمعہ , 19 اپریل 2024

چراغ بجھ رہے ہیں

(مظہر بر لاس)

معیشت سنبھل نہیں رہی، ایف بی آر ٹیکس اکٹھا کرنے کے اہداف میں ناکام ہے، روپیہ مسلسل گر رہا ہے، مہنگائی بڑھتی جا رہی ہے، حالات بے قابو ہو رہے ہیں، گیس کے بھاری بھرکم بلوں کی ادائیگیوں کے بعد ڈیزل، پٹرول اور مٹی کا تیل مہنگا ہو گیا ہے، اگلے دو مہینوں میں بجلی کے بہت مہنگا ہونے کی باتیں ہو رہی ہیں۔ وزیر خزانہ کہتا ہے کہ لوگوں کی مہنگائی سے چیخیں نکلیں گی، وزرا ء روزانہ کی بنیاد پر آنے والے تکلیف دہ حالات کا ’’ورد‘‘ کر رہے ہیں۔ انگریز نما مشیر تجارت بھی مشکلات کی خبر دے رہے ہیں۔ معاملات رکے ہوئے ہیں، مایوسیوں کے سائے بڑھتے جا رہے ہیں۔ کرپشن اگر ملک کا وزیراعظم نہیں کر رہا تو اس کا یہ مطلب ہرگز نہیں کہ کرپشن پر قابو پا لیا گیا ہے، وزیراعظم نہیں مگر نیچے کرپشن ہو رہی ہے۔ اس طرزِ حکمرانی میں نئے نئے لطیفے سننے کو مل رہے ہیں۔ اس وقت ملکی حالات کا یہی منظر نامہ ہے۔

اب سوال یہ ہے کہ ایسا منظر نامہ کیوں ہے عمران خان آٹھ مہینوں بعد بھی منظر نامہ تبدیل کرنے میں ابھی تک ناکام کیوں ہیں؟ اس کے ساتھ ہی دوچار سوال اور نتھی کر لیں کہ طرزِ حکمرانی میں وہ واضح تبدیلی کیوں نہیں آ سکی جس کا وعدہ کیا گیا تھا، عام لوگوں کی حالت بری کیوں ہوئی ہے حالانکہ ان کی حالت بہتر بنانے کا وعدہ کیا گیا تھا، یہ بہتری کیوں نہ آ سکی؟ عمران خان نے کہا تھا کہ وہ لوٹی ہوئی دولت واپس لائیں گے، وہ دولت ابھی تک کیوں نہیں آ سکی؟ خان صاحب کے انقلابی نعروں کو نوجوان نسل نے بہت سراہا، صرف سراہا نہیں بلکہ انہوں نے اقتدار کے راستے ہموار کرنے میں بڑا کردار ادا کیا، ان نوجوانوں کے لئے کوئی بڑا پروگرام ابھی تک سامنے کیوں نہیں آ سکا؟ کرپشن ابھی تک کیوں نہیں رک سکی؟ یہ سارے سوال بھی موجودہ ملکی صورتحال کا حصہ ہیں، موجودہ منظر نامے سے ان سوالوں کو ختم نہیں کیا جا سکتا، ایسا کیوں ہوا؟ اس کیوں تک پہنچنے کا واحد راستہ یہ ہے کہ حالات کو درست نگاہ سے دیکھا جائے، حالات کو انصاف کی آنکھ سے دیکھا جائے۔

قریباً آٹھ ماہ پہلے لوگوں نے عمران خان کو تبدیلی کے نام پر ووٹ دیا، لوگوں کی آنکھوں میں امیدوں کے چراغ تھے، ان کا خیال تھا کہ تحریک انصاف کی حکومت آنے کے بعد ان کے حالات بہتری کی جانب چل پڑیں گے مگر ایسا نہیں ہو سکا۔ ایسا کیوں نہ ہو سکا یہ سوال عمران خان کے سامنے بھی ضرور ہو گا۔ مجھے جب بھی یہ خیال آتا ہے تو پھر مجھے درویش کی باتیں یاد آ جاتی ہیں۔ ایک حالیہ ملاقات میں درویش بتانے لگے کہ عمران خان ایماندار آدمی ہے، دیانتدار ہے، انتہائی سادہ ہے مگر اس سادگی میں لوگ اس سے غلط فیصلے بھی کروا لیتے ہیں جس کا خمیازہ حکومت کو بھگتنا پڑتا ہے۔ پہلی بات تو یہ ہے کہ کرپشن کے خلاف باتیں کرنے والے عمران خان کو کس نے کہا تھا کہ وہ اپنے وزراء کی ٹیم میں ایسے لوگوں کو شامل کریں جن پر کرپشن کے الزامات ہیں۔ یقیناً یہ کوئی اچھی بات نہیں۔ خان صاحب نے اپنی کابینہ کا حصہ ایسے افراد کو بھی بنایا جن کے مفادات اسی شعبے سے جڑے ہوئے ہیں اس سلسلے میں دو مشیروں کے نام اہم ہیں، ان میں سے بھی ایک مشیر، عالم چنے کے ساتھ مل کر خوب دولت سمیٹ رہا ہے۔ حیرت ہے کہ کرپشن کے خلاف جہاد کرنے والے دیانتدار عمران خان کے انتہائی قریبی ساتھی کرپشن کی نئی داستانیں رقم کر رہے ہیں۔ عمران خان کو کس نے کہا تھا کہ وہ کسی ایسے شخص کو خزانے کا وزیر بنا دیں جسے اقتصادیات کی سمجھ ہی نہ ہو، جس کے فیصلے عمران خان کے نعروں کے خلاف ہوں جو اربوں ڈالرز کے انجکشن لگنے کے باوجود معیشت کو بہتر بنانے میں ناکام رہا ہو۔

وزیراعظم صاحب سے کس نے کہا تھا کہ وہ کسی ایسے شخص کوٹیکس سے متعلق ایک ادارے کا سربراہ لگا دیں جس پر داغوں کے بے شمار الزامات ہوں، جو عمران خان کے سیاسی مخالفین کے زیر اثر ہو، عمران خان صاحب کو کس نے کہا تھا کہ وہ خزانے کی وزارت میں اسحاق ڈار کے بندوں کو اہم پوزیشنیں دیں، اسٹیٹ بینک میں بھی اُنہی کو رکھیں۔ عمران خان کو کس نے کہا تھا کہ وہ آئے روز گیس اور پٹرول کے بم گرانے کی سفارش کرنے والی چیئرپرسن اوگرا کو اپنے عہدے پر رکھیں جبکہ انہیں پتہ بھی ہو کہ ایک اسکینڈل میں اُن کا نام بھی لیا جاتا ہے۔ افسوس کہ وہ اس وقت معاشی عالم چنے کی منظور نظر ہیں۔ واضح رہے کہ نئی وزارت کسی خاتون کے لئے قائم کی جا رہی ہے اور اس کے سفارشی بھی عالم چنا صاحب ہیں۔ عمران خان کو کس نے کہا تھا کہ وہ یونین کونسل لیول کے ایک آدمی کو ملک کے سب سے بڑے صوبے کا وزیر اعلیٰ بنا دیں اور اب اس کے اختیارات سلب کر کے ایک امریکہ پلٹ کو دے دیں، اسے کہتے ہیں نہلے پہ دھلا۔ عمران خان کو کس نے کہا تھا کہ وہ میاں شہباز شریف کے چہیتے افسران کو اہم ذمہ داریاں دیں، کس نے کہا تھا کہ ایک اور صوبے میں ایک ایسے شخص کو وزیر اعلیٰ بنا دیں جو خود پر قابو نہیں رکھ سکتا۔

پہلے چراغوں میں روشنی تھی اب بہت مدھم ہو گئی ہے عمران خان کے پاس اب بھی وقت ہے وہ دونوں وزرائے اعلیٰ تبدیل کر دیں، وہ عالم چنے سے ملک کی جان چھڑوا دیں ورنہ رہی سہی معیشت بھی ڈوب جائے گی۔ اب بھی وقت ہے عمران خان کرپٹ افراد کو وزارتوں سے نکال دیں ورنہ بجھتے ہوئے چراغوں میں لوگ سرور ارمان کی زبان میں کہیں گے کہ

تمہیں ہمارے اداس آنگن، ملول چہرے پسند کیوں ہیں
ہماری کٹیائوں سے تمہارے حسین بنگلے بلند کیوں ہیں
اگر ذرا سا بھی حوصلہ ہے تو ہم کو اتنا جواب دے دو
ہمارے حصے کی ساری خوشیاں تمہاری مٹھی میں بند کیوں ہیں
(بشکریہ جنگ نیوز)

یہ بھی دیکھیں

مریم نواز ہی وزیراعلیٰ پنجاب کیوں بنیں گی؟

(نسیم حیدر) مسلم لیگ ن کی حکومت بنی تو پنجاب کی وزارت اعلیٰ کا تاج …