بدھ , 24 اپریل 2024

دو ایٹمی ملکوں کی ذمے داری

(ظہیر اختر بیدری)

بھارت اور پاکستان کی تاریخ کشیدگیوں، عدم اعتماد جنگوں کی تاریخ ہے ، حالیہ پاک بھارت کشیدگی اسی تاریخ کا حصہ ہے۔ حالیہ کشیدگی روایتی کشیدگی نہیں تھی بلکہ دوست ملک درمیان میں نہ آتے تو شاید دونوں ملک ایک اور جنگ کا سامنا کر رہے ہوتے۔

اس حوالے سے المیہ یہ ہے کہ مقبوضہ کشمیر میں بھارت طاقت کے ذریعے قبضہ برقرار رکھنا چاہتا ہے اور مشکل یہ ہے کہ کشمیری عوام اب زبردستی بھارت کی غلامی میں رہنے کے لیے تیار نہیں، یہی وہ صورت حال ہے جو بھارت کے لیے مشکلات اور رسوائی کا باعث بن رہی ہے یہ تبدیل شدہ صورت حال بھارت کے لیے اندرون ملک ایک سنگین مسئلہ بن گئی ہے۔

کشمیری عوام میں اب ایک جوہری تبدیلی آرہی ہے 70 سال تک کشمیری عوام کا احتجاج بڑی حد تک پرامن ہوتا تھا بات سنگ باری اور لاٹھی چارج تک محدود رہتی تھی۔ اس صورتحال سے بھارت کو زیادہ پریشانی اور مشکلات کا سامنا نہیں رہتا تھا لیکن جب سے کشمیری عوام اینٹ کا جواب پتھر سے دینے پر اتر آئے ہیں، بھارت کے لیے کشمیری عوام کو کنٹرول کرنا بہت مشکل ہوتا جا رہا ہے اور پر تشدد کارروائیوں سے دنیا بھر میں بھارت کی رسوائی ہو رہی ہے۔
وقت گزرنے کے ساتھ ساتھ کشمیر میں صورتحال اور سنگین ہوتی جا رہی ہے۔ بھارتی فورسزکی جانب سے ہتھیار استعمال کرنے کے نتیجے میں اگر ایک کشمیری کا بھی جانی نقصان ہوتا ہے تو پورا مقبوضہ کشمیر ساکت ہوجاتا ہے وقت کے ساتھ بڑھتی ہوئی کشمیریوں کی ناراضگی نے بھارت کے لیے سنگین مسائل کھڑے کردیے ہیں۔

بھارت کی جانب سے بالاکوٹ میں پاکستانی حدود کی خلاف ورزی اور اس کے ردعمل میں 27 فروری کو پاکستان کی جوابی کارروائی میں بھارتی لڑاکا طیارہ مارگرانے کے واقعے اور بھارتی پائلٹ کی گرفتاری نے عالمی طاقتوں سمیت پوری دنیا کو شدید پریشانی میں مبتلا کردیا کہ کہیں دو ایٹمی طاقتیں ایک دوسرے کے خلاف باقاعدہ جنگ نہ چھیڑ دیں۔

اس سنگین صورتحال میں امریکا، چین، برطانیہ، سعودی عرب متحدہ عرب امارات نے دونوں ملکوں کی اعلیٰ قیادت کے ساتھ ہنگامی رابطے بڑھاتے ہوئے اس بات پر زور دیا کہ دونوں ممالک باہمی مسائل کے حل کے لیے جنگ کے بجائے بات چیت کا راستہ اپنائیں ،اس ساری صورتحال میں ذرایع کے مطابق ان ممالک کے علاوہ ایک اہم ہمسایہ ملک نے انتہائی خاموشی اور رازداری کے ساتھ عمدہ سفارتکاری کے ذریعے جنگ کے خطرات کو ختم کرنے میں انتہائی اہم کردار ادا کیا۔

اس حوالے سے اصل مسئلہ یہ ہے کہ جب تک مسئلہ کشمیر حل نہیں ہوتا، اس قسم کے سنگین حالات بار بار پیدا ہوسکتے ہیں اور دو ایٹمی طاقتوں کے درمیان اس قسم کی صورتحال امن عالم کے لیے ایک سنگین خطرہ بنی رہے گی۔ روس نے خاموش سفارتکاری کے ذریعے اس بار تصادم کے خطرے کو ٹال دیا لیکن جب حالات کی سنگینی کا عالم یہ ہوکہ جنگی جہاز گرائے جا رہے ہوں اور پائلٹ پکڑے جا رہے ہوں تو حالات کی سنگینی کسی وقت بھی تصادم کی راہ ہموار کرسکتی ہے۔ یہ بات سمجھ سے باہر ہے کہ ایٹمی ہتھیار استعمال ہو ہی نہیں سکتے تو ان کی ذخیرہ اندوزی کا سبب یا مطلب کیا ہے؟یہ حماقت دنیا کے اربوں انسانوں کے لیے مستقل خطرہ بنی رہے گی۔

کشمیر، فلسطین، شمالی کوریا، یمن وغیرہ ایسے سلگتے ہوئے ناسور ہیں جو امن عالم کو کسی وقت بھی تباہ کرسکتے ہیں روس اور بڑی عالمی طاقتوں کی کوششوں سے اس بار جنگ کا خطرہ تو ٹل گیا ہے لیکن اس حقیقت بلکہ ناگوار حقیقت کا اندازہ اہل نظر کو ہے کہ اس بار بھارت کو جس تحقیر کا سامنا کرنا پڑا اس کے پچاس سے زیادہ سپاہی مارے گئے دو ہوائی جہاز گرائے گئے، ایک بھارتی پائلٹ کو گرفتار کیا گیا۔ کیا بھارت جیسا دنیا کا آبادی کے حوالے سے دنیا کا دوسرا بڑا ملک اس ذلت کو ٹھنڈے پیٹوں برداشت کرلے گا۔ وہ ان واقعات کو اپنی توہین سمجھتا ہے آج کل بھارت الیکشن کے بخار میں مبتلا ہے اس لیے اس کی زیادہ توجہ الیکشن کمپین پر لگی ہوئی ہے لیکن حالیہ دنوں میں جو زخم اسے لگے ہیں اسے سکون سے بیٹھنے نہیں دیں گے۔

بے شک بھارت سمیت دنیا کا کوئی ایٹمی ملک جنگ کے بارے میں سوچ بھی نہیں سکتا لیکن لائن آف کنٹرول پر مستقل تصادم کی کیفیت کیا کسی غیر ایٹمی جنگ کی طرف نہیں لے جاسکتے؟ اس قسم کے سوالات کا پیدا ہونا فطری ہے کیونکہ کوئی بڑا ملک اس قسم کی تضحیک کو آسانی کے ساتھ برداشت نہیں کرسکتا اور طاقت کا غرور بڑے بڑے برداشتوں کو بھی مشتعل کرسکتا ہے اگر کوئی بڑا ملک چاہے تو حالات کوکشیدہ بنانے میں زیادہ دیر نہیں لگ سکتی۔ یہ ایسے حقائق ہیں جن کو نظر میں رکھنے کی ضرورت ہے۔

بھارت، چین کے بعد دنیا کا دوسرا بڑا ملک ہے جس کی وجہ سے فطری طور پر اسے اپنے بڑے پن کے اظہار کی خواہش ہوسکتی ہے اور اس قسم کے اظہاریے اخبارات کے اظہاریے نہیں ہوتے بلکہ بڑی جان جوکھم کے اظہاریے ہوتے ہیں۔ بدقسمتی سے بھارتی میڈیا قومی غرورکا اسیر ہے اور ہمیشہ جلتی پر تیل کا کام کرتا آیا ہے۔ رائے عامہ کو درست یا غلط راہوں پر لے جانے میں میڈیا اہم کردار ادا کرتا ہے اور بدقسمتی سے بھارتی میڈیا بھارت کو دنیا کی دوسری بڑی افرادی قوت سمجھنے کے علاوہ مذہبی دیوانگی کا بھی شکار ہے۔

ایسی صورتحال میں ہر وقت ہنگامی حالات کا خطرہ سر پر سوار رہتا ہے بھارت میں پاکستان کے مقابلے میں آزادی اظہار زیادہ مضبوط ہے بھارت کا دانشور طبقہ اس حوالے سے زیادہ بہتر کردار ادا کرسکتا ہے لیکن بدقسمتی سے میڈیا میں انتہا پسند لابی مضبوط ہے جو رائے عامہ کو گمراہ کرسکتی ہے۔

اصل مسئلہ یہ ہے کہ امن عالم کے تحفظ کو کیا خاموش سفارتکاری سے ہی ہمیشہ محفوظ بنایا جاتا رہے گا یا اس مسئلے یعنی کشمیر کے مسئلے کا کوئی مضبوط اور پائیدار حل تلاش کرنے کی کوشش کی جائے گی؟ کشمیر، فلسطین دو ایسے نازک مسئلے ہیں جن کے ساتھ عوام کے مذہبی جذبات جڑے ہوئے ہیں اور مذہبی جذبات ہمیشہ آگ پر تیل کا کام دیتے ہیں ایسی نازک صورتحال میں بڑی طاقتوں اور دنیا کے مفکروں اور دانشوروں کی ذمے داری ہے کہ ہندوستان اور پاکستان کے درمیان مسئلہ کشمیر کا کوئی پائیدار حل تلاش کرنے کی کوشش کریں میڈیا اس کالم میں مددگار ثابت ہوسکتا ہے۔بشکریہ ایکسپریس نیوز

یہ بھی دیکھیں

مریم نواز ہی وزیراعلیٰ پنجاب کیوں بنیں گی؟

(نسیم حیدر) مسلم لیگ ن کی حکومت بنی تو پنجاب کی وزارت اعلیٰ کا تاج …