جمعہ , 19 اپریل 2024

پنجاب کے سادہ ومعصوم وزیراعلیٰ

(حیدر جاوید سید)

وزیراعلیٰ پنجاب جناب عثمان بزدار کو کسی تقریب یا پریس بریفینگ میں گفتگو کرتے عملے کے ساتھ چلتے ہوئے یا پھر بنی گالہ میں پیشی کے دوران دیکھ کے بے اختیار سرائیکی زبان کے روایت شکن شاعر عاشق بزدار کی مشہور زمانہ نظم’’آساں قیدی تخت لہوردے‘‘گنگنانے کوجی کرتا ہے۔ بہت سادہ آدمی ہے ہمارا بزدار۔عمران خان اس کے انتخاب کے حوالے سے کہتے ہیں وہ ان کا بیان ہے لیکن سچ یہ ہے کہ ان کے انتخاب کی ایک ہی وجہ ہے وہ یہ کہ اس سادہ سے بندے کے نام پر پنجاب کا اقتدار اعلیٰ اقبال گجر اور ڈاکٹر شہباز گل کا محتاج رہے ۔ کیا ان دونوں شخصیات کے تعارف کی ضرور ت ہے؟۔ دونوں اپنی مثال آپ ہیں ایک اپنی طاقتور اہلیہ کے شوہر ہیں اور دوسرے پنجاب حکومت کے ترجمان ۔ پچھلے سات آٹھ ماہ سے تخت لاہور میں ان کا سکہ چلتا ہے ۔ دس بارہ دن قبل جاری ہونے والے ایک نوٹیفیکشین میں جتنے اختیارات ڈاکٹر شہباز گل کو دان ہوئے اس کے بعد بھی ہمارا سادہ اور معصوم سا دیہی عثمان بزدار پنجاب کا وزیراعلیٰ ہے ۔ ساری فائلیں جناب گل دیکھتے ہیں وزیراعلیٰ صرف یس اورنو میںدستخط کرتے ہیں۔

لیکن پنجاب میں یہ پلی بار ایسا نہیں ہوا، پچھلی صدی کی نویں دہائی میں وزیراعلیٰ ہواکرتے تھے غلام حیدر وائیں یا پھر 2008ء میں چھ ساتھ ماہ کے لیے وزیراعلیٰ بنوائے گئے سردار دوست محمد کھوسہ ان دونوں صاحبان کے وقت بھی احکامات کہیں سے آتے تھے۔ وائیں صاحب چونکہ منجھے ہوئے سیاسی کارکن اور رہنماتھے اس لئے وہ کبھی کبھی من مرضی کر گزرتے ایک بار ان سے ان کی کابینہ کے وزیر رانا پھول محمد خان نے کسی کی سفارش کی تو وائیں صاحب بولے رانا جی میرٹ نہیں بنتا ۔ رانا صاحب نے تڑخ کر جواب دیا۔ وائیں صاحب ، کیا آٹھویں پاس وزیراعلیٰ اور پانچویں پاس وزیر میرٹ پر بنے ہیں؟اس کا فائدہ بہر طور ہوا ایک ایم اے پاس یتیم بچی کو ملازمت گئی ۔ وائیں صاحب کا دوسرا مشہور کام شملہ پہاڑی پر لاہور پریس کلب کا قیام ہے ۔ اس فیصلے کی وجہ سے انہیں شریفین کی جھڑکیاں سننے کو ملیں لیکن وہ برداشت کر گئے۔

پنجاب کے سابق وزیراعلیٰ(تین بار اس منصب پر رہے)میاں شہباز شریف بظاہر بڑے کڑے منتظم تھے افسروں کے لیے وزیراعلیٰ کم اور جلاد زیادہ لیکن ان کے دور میں(پچھلے دور کی بات کررہا ہوں) دو آدمیوں کی سفارش بہت چلتی تھی اور اگر سفارش کرنے والے بیگم تہمینہ درانی(وزیراعلیٰ کی دوسری اہلیہ) ہوں یا خواجہ ا حسان احمد تو پھر میرٹ سارے دھرے کے دھرے رہ جاتے تھے مثال کے طور پر آپ پنجاب میں تہمینہ درانی اور خواجہ احسان کی مشترکہ سفارش اور جناب نوازشریف کی رضامندی سے خاتون محتسب کے منصب پر فائز شخصیت کو لے لیجئے۔ قاعدے قانون اور قانونی اصلاحات سے ناواقف بیگم گیلانی بنیادی طور پر آڈٹ بیورو کی افسر ہیں۔ اس منصب پر تقرری کے لیے جج بن سکنے کی اہلیت کا ہونا ضروری ہے۔ وفاقی خاتون محتسب محترمہ کشمالہ طارق والے معاملے میں اعتراضات رد اس لیے ہوگئے کہ انہیں بطور وکیل پروفیشن میں آئے پندرہ سال سے زیادہ ہوگئے تھے لیکن محترمہ گیلانی صاحبہ تو حاضر سروس سرکاری افسر تھیں چونکہ بیگم تہمینہ درانی اورخواجہ احسان کی سفارش کے ساتھ جناب نواز شریف کی رضا مندی بھی شامل تھی اس لیے سارے قاعدے قانون شہر کے وسط میں بہتی نہرکا رزق ہوئے۔ محترمہ گیلانی چونکہ کبھی قانون کی طالب علم نہیں رہیںاس لیے انہوںنے ایک غیر سرکاری مشیر رکھا ہوا ہے جو ان کے فیصلے تحریر فرماتا ہے۔

دوسری طرف ان کے سابق محکمے کے چند افراد نے ان کے غیر سرکاری مشیر کے ساتھ ملکر ایک گروپ بنارکھا ہے یہ گروپ مقاصد کے حصول میں ناکامی کے بعد کسی خاتون سے کس اعلیٰ سرکاری افسر کے خلاف درخواست دائر کروادیتا ہے۔ ایک نہیں درجن بھر مثالیں اس کی موجود ہیں۔ شہباز شریف کے دور میں شکایات سامنے آئیں تو دبادی گئیں۔ محترمہ گیلانی صاحبہ کے کارخاص یعنی غیر سرکاری مشیر اور فیصلہ نویس حنیف گریسی کی پہنچ بہت دور تلک ہے۔ راویان کا دعویٰ ہے کہ یہ صاحب اقبال گجر اور ڈاکٹر شہباز گل تک رسائی رکھتے ہیں اس لیے پچھلے چند ماہ میں سامنے آنے والی شکایات کا نوٹس لیا گیا اور ناہی اس بات کا کہ ایک حساس اہم منصب پر اہلیت نہ رکھنے والی سرکاری افسر کیوں فائز ہیں۔پنجاب کی خاتون محتسب جن کا اصل محکمہ آڈیٹر جنرل آف پاکستان کا دفتر ہے ان کے اس محکمے کے دو تین آڈٹ افسروں اور حنیف گریسی کے مشترکہ مافیا کا کاروبار یہ ہے کہ وہ جب پنجاب کے کسی محکمے کے آڈٹ کے لئے جاتے ہیں تو اپنے معاملات طے نہ ہوسکنے پر کسی خاتون کے ذریعے ہراساں کیئے جانے کی درخواست دلوا کر معاملات طے کرتے ہیں۔

عجیب بات یہ ہے کہ ہمارے سادہ اور معصوم وزیراعلیٰ تک کو یہ صورتحال معلوم ہے دہ ماہ قبل انہوں نے اس معاملے کا نوٹس لینے کی تیاری کی۔ پھر یہ تیاری دھری کی دھری رہ گئی۔ وجہ کیا ہے یہ وزیراعلیٰ کے علاوہ ڈاکٹر شہباز گل جانتے ہوں گے یا پھر وہ سفارشی۔ بنیادی سوال یہ ہے کہ کیا میرٹ میرٹ کی دہائی دیتی تحریک انصاف کی صوبائی حکومت پچھلے ساتھ آٹھ ماہ کے دوران خاتون محتسب پنجاب کے منصب پر تقرری کے لئے بارہ کرورڑ کی آبادی والے صوبے سے ایک بھی ایسی خاتون تلاش نہیں کر پائی جو اس منصب کے لیے موجود قانونی تقاضے پورے کرتی ہو؟۔ بات سادہ ومعصوم وزیراعلیٰ سے شروع ہوئی تھی ان کی معصومیت او رسادگی کا زندہ ثبوت یہ ہے کہ انہوں نے ایک بار تحصیل ہیڈ کوارٹر ہسپتال تونسہ شریف کے ایم ایس کو ٹیلیفون کر کے سائیکل اسٹینڈ کا ٹھیکہ اپنے ایک عزیز کو دینے کی سفارش کردی۔ فون بند کرنے کے بعد اس عزیزکے والد سے کہا’’چاچاسئیں تساں وی کج خیال کیتا کرو میں اتھاں وزیراعلیٰ لگیا ہو یا ہاں‘‘چا چا جان آپ بھی خیال کیا کریں میں یہاں وزیراعلیٰ لگا ہوا ہوں۔بشکریہ مشرق نیوز

یہ بھی دیکھیں

مریم نواز ہی وزیراعلیٰ پنجاب کیوں بنیں گی؟

(نسیم حیدر) مسلم لیگ ن کی حکومت بنی تو پنجاب کی وزارت اعلیٰ کا تاج …