بدھ , 24 اپریل 2024

سعودی عرب کی غبار آلود سیاسی فضا

(تحریر: حسین عسکری)

سعودی عرب ایک ایسا ملک ہے جس کی عوام سیاسی شعور کے اعتبار سے نچلی سطح پر ہے اور وہ معیشتی سہولیات اور حال ہی میں حاصل ہونے والی محدود پیمانے پر سماجی آزادی کے بدلے ملک کے سیاسی امور میں مداخلت سے باز رہنے پر راضی ہو چکے ہیں۔ دوسری طرف آل سعود خاندان سعودی عرب کو اپنی ذاتی ملکیت تصور کرتا ہے اور جیسا کہ اس ملک کی بعض اہم شخصیات بھی اظہار کر چکی ہیں چونکہ آل سعود خاندان نے یہ ملک تلوار کے زور پر حاصل کیا ہے لہذا وہ اسے اپنی مخصوص جائیداد سمجھتا ہے۔ سعودی عرب کے معاشرے اور حکمرانوں کی سطح پر ایسی سوچ پائے جانے کے باوجود یہ ایک واضح امر ہے کہ اس ملک کا سیاسی ڈھانچہ کس نوعیت کا تھا اور کس طرح آگے بڑھے گا۔ گذشتہ سات عشروں سے جب سے سعودی فرمانروا ملک عبدالعزیز نے برطانیہ پر انحصار ختم کر کے امریکہ سے دوستی بڑھانے کا فیصلہ کیا تھا خطے میں مکمل طور پر واشنگٹن کے چیلے کا کردار ادا کرتا آیا ہے۔ یہ ایک حقیقت ہے کہ امریکہ کی حمایت کے بغیر آل سعود خاندان کی طاقت نہ ہونے کے برابر ہے۔ یہ انحصار صرف اقتصادی اور فوجی شعبوں تک محدود نہیں رہا بلکہ اس قدر شدید ہے کہ آل سعود حکمرانوں کی سوچ اور نظریات بھی امریکی حکمرانوں اور سیاست دانوں کے تابع ہو چکے ہیں۔

حالیہ سات عشروں کے دوران قابل غور نکتہ سعودی عرب کی نظریاتی، ثقافتی اور سیاسی ترقی کا فقدان اور امریکہ پر اس کا حد سے زیادہ بھروسہ ہے۔ ممکن ہے عالمی برادری کے رکن ممالک نے سعودی عرب کے انفرااسٹرکچر کی ترقی میں کردار ادا کیا ہو لیکن سیاسی اور ثقافتی اعتبار سے اس ملک کے معاشرے اور حکمران طبقے کی ترقی کیلئے کوئی اقدامات انجام نہیں پائے ہیں۔ ان امور کے تناظر میں ہم محمد بن سلمان جیسی خطرناک شخصیت کا وسیع اختیارات کے ساتھ برسراقتدار آنے کا مشاہدہ کرتے ہیں۔ محمد بن سلمان ایک ایسی شخصیت کے مالک فرد ہیں جس کا خطرہ ایک ملک کیلئے شدت پسند عناصر سے بھی بڑھ کر ہے۔ فوجی اور حکومتی امور میں سعودی ولیعہد کے وسیع اختیارات اس بات کا باعث بنے ہیں کہ وہ ہر ایسا اقدام انجام دینے سے دریغ نہیں کرتے جسے وہ خود اپنی ذاتی رائے کے مطابق درست پاتے ہیں۔ ان کے وسیع اختیارات اس حد تک ہیں کہ وہ خود کو قومی خزانے کا مالک سمجھتے ہوئے مختلف اوقات میں اپنے ذاتی امور جیسے عیش و عشرت کیلئے کشتی یا انتہائی شان و شوکت والے محل خریدنے کیلئے قومی خزانے سے بہت آسانی سے منہ مانگی رقم نکلوا لیتے ہیں اور ایسا کوئی قانونی ادارہ بھی موجود نہیں جو ان کے اختیارات کو محدود کرنے کی طاقت رکھتا ہو۔ یہ امر بذات خود ایسا عظیم خطرہ ہے جو سعودی عرب کی موجودہ اور آئندہ سیاسی پوزیشن کو خطرے میں ڈالنے کیلئے کافی ہے۔

سابق سعودی فرمانروا ملک عبدالعزیز نے اپنے بیٹوں سے عہد لیا تھا کہ بادشاہت کی جانشینی پر کسی قسم کا تنازع نہیں کریں گے اور عمر کے لحاظ سے جو بھی بڑا ہو گا وہ بادشاہت کے تخت پر بیٹھے گا۔ ان کا بنایا ہوا یہ قانون اب تک لاگو ہوتا آ رہا تھا لیکن موجودہ سعودی فرمانروا ملک سلمان بن عبدالعزیز نے برسراقتدار آنے کے بعد اسے توڑ ڈالا اور سابق ولیعہد کو برطرف کر کے اپنے بیٹے محمد بن سلمان کو ولیعہد بنا دیا۔ ملک سلمان کی یہ قانون شکنی بذات خود آل سعود خاندان میں شدید اختلافات اور لڑائی جھگڑوں کا باعث بنی اور آج سعودی خاندان شدید اندرونی جھگڑوں کی لپیٹ میں آ چکا ہے۔ بعد میں سعودی ولیعہد شہزادہ محمد بن سلمان نے بھی دیگر شہزادوں کو قید کرنے پر مبنی ایسے اقدامات انجام دیے جن کی وجہ سے یہ اختلافات اور دشمنی مزید زیادہ ہو گئے اور اب یہ جوان شہزادہ اپنے خاندان میں ہی بے شمار دشمن بنا بیٹھا ہے۔ اس صورتحال نے سعودی عرب کی سیاسی فضا کو بھی متاثر کیا ہے اور یہ ملک سیاسی عدم استحکام کا شکار ہونے لگا ہے۔ شدید اختلافات کے نتیجے میں آل سعود خاندان میں پیدا ہونے والا انتشار اس قدر وسعت اختیار کر چکا ہے کہ اگر امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ سعودی ولیعہد کی بھرپور حمایت نہ کرتے تو ہر لمحہ ملک میں ان کے خلاف بغاوت کا امکان موجود ہوتا۔

سعودی ولیعہد شہزادہ محمد بن سلمان کی جانب سے اپنے سیاسی مخالف سعودی صحافی جمال خاشقجی کا سفاکانہ قتل ان کا ایک اور ناقابل قبول اور ناقابل ازالہ اقدام تھا جو ہمیشہ ان کی حکومت اور ملکی اسٹبلشمنٹ کو شدید چیلنجز اور مشکلات سے روبرو کرتا رہے گا۔ امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ کی جانب سے ایسے مجرمانہ اقدام میں محمد بن سلمان جیسے شخص کی حمایت کرنا بذات خود ایک عجیب عمل ہے جس کی وجہ سے امریکی صدر کی حیثیت اور اعتبار کو بھی ٹھیس پہنچی ہے اور حتی عالمی سطح پر امریکہ کی حیثیت کو مزید ٹھیس پہنچنے کا امکان بھی موجود ہے۔ سعودی عرب اور آل سعود خاندان کے بارے میں ایک اور اہم نکتہ اسلام کا سہار لے کر اپنی عزت اور اعتبار قائم کرنے کی کوشش ہے۔ سعودی خاندان خود کو عالمی سطح پر اسلامی شریعت کا محافظ اور دعوے دار ظاہر کرتا ہے جبکہ اس نے خادم حرمین شریفین کا پرچم بھی بلند کر رکھا ہے۔ وہ اس طریقے سے مسلم ممالک میں خود کے مسلمان لیڈر ہونے کا جواز اور اعتبار حاصل کرنے کی کوشش کر رہا ہے تاکہ یوں اپنے مجرمانہ اور وحشیانہ اقدامات پر بھی پردہ ڈال سکے۔

مکہ مکرمہ آج ایک مقدس شہر ہونے کی بجائے تفریحی اور سیاحتی مرکز دکھائی دیتا ہے جبکہ خود آل سعود خاندان بھی عیش و عشرت والی زندگی میں ڈوبا ہوا ہے۔ دوسری طرف یہی سعودی خاندان اسلامی دنیا کے دیگر حصوں میں انسانیت سوز جرائم کا ارتکاب کرنے میں مصروف ہے اور ایسے مجرمانہ اقدامات انجام دے رہا ہے جو اسلامی تعلیمات اور اصولوں کے کھلم کھلا مخالف ہیں۔ سعودی حکومت صرف اسی حد تک قانع نہیں ہوئی بلکہ اسلامی دنیا کی لیڈرشپ کی آڑ میں قومی قدرتی ذخائر سے حاصل ہونے والی سعودی عوام کی دولت کی مدد سے اپنے مخالف اسلامی ممالک کے خلاف فوجی اتحاد تشکیل دینے کی کوششیں بھی جاری رکھے ہوئے ہے۔ آج اسلامی ممالک کو چاہئے کہ وہ آپس میں متحد ہو کر سعودی حکمرانوں خاص طور پر سعودی ولیعہد محمد بن سلمان کی یکہ تازیوں کو لگام دیں۔ اس مقصد کے حصول میں ایک اہم قدم مکہ مکرمہ اور مدینہ منورہ کی مدیریت آل سعود خاندان کے ہاتھ سے نکال کر ایک ایسے مشترکہ ادارے کو سونپنا ہے جس میں تمام اسلامی ممالک کے نمائندے موجود ہوں۔ یوں آل سعود خاندان کے ہاتھ سے خادم حرمین شریفین کا ہتھکنڈہ بھی نکالا جا سکتا ہے۔

آل سعود خاندان کی جانب سے ان یکہ تازیوں اور اس کی خیرات پر پلنے والے اسلامی ممالک کی خاموشی کا مجموعی نتیجہ یمن کے خلاف انسان سوز جرائم، قطر کے خلاف اقتصادی محاصرہ اور خطے میں دہشت گردی کو فروغ دینے والی وہابی تکفیری سوج کی ترویج کی صورت میں ظاہر ہوا ہے۔ لہذا سعودی حکمرانوں کی حمایت کرنے والے تمام ممالک خاص طور پر امریکہ جو مذکورہ بالا تمام مجرمانہ اقدامات میں سعودی ولیعہد محمد بن سلمان کی بھرپور حمایت میں مصروف ہے، آل سعود خاندان کے جرائم میں برابر کے شریک ہیں۔ اس بارے میں ایک اہم مسئلہ یہ ہے کہ امریکہ کے آئندہ صدارتی انتخابات میں موجودہ صدر ڈونلڈ ٹرمپ کی جگہ کسی اور ایسی شخصیت کے برسراقتدار آنے کا قومی امکان پایا جاتا ہے جو مذکورہ بالا حقائق کی روشنی میں آل سعود رژیم کی ہمہ جہت اور بھرپور حمایت ترک کرنے کا فیصلہ کر سکتا ہے۔ ایسی صورت میں سعودی فرمانروا ملک سلمان بن عبدالعزیز، سعودی ولیعہد شہزادہ محمد بن سلمان اور سعودی حکومت زیادہ مشکل حالات کا شکار ہو جائے گی۔ امریکہ کی جانب سے خطے اور عالمی سطح پر سعودی ولیعہد کی بے چون و چرا حمایت میں چند اہم سیاسی شخصیات انتہائی کلیدی کردار ادا کرنے میں مصروف ہیں جن میں اسرائیلی وزیراعظم بنجمن نیتن یاہو کا نام سرفہرست ہے۔

اسرائیلی وزیراعظم بنجمن نیتن یاہو کی نظر میں سعودی ولیعہد شہزادہ محمد بن سلمان کا برسراقتدار ہونا خطے میں تل ابیب کی پوزیشن مضبوط ہونے اور اس کے دشمن ممالک خاص طور پر اسلامی جمہوریہ ایران کی پوزیشن کمزور ہونے کا باعث ہے۔ اسی طرح ایک اور اہم سیاسی شخصیت جو امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ اور اسرائیلی وزیراعظم بنجمن نیتن یاہو کی حد سے زیادہ سعودی ولیعہد کی جانب توجہ اور حمایت کا باعث بنی ہے وہ امریکی صدر کے مشیر اور ان کے داماد جیرڈ کشنر ہیں۔ ڈونلڈ ٹرمپ بارہا کہہ چکے ہیں کہ وہ سعودی عرب کی دولت امریکہ کیلئے چاہتے ہیں لیکن سعودی حکمرانوں سے تعلقات میں ان کے ذاتی مفادات بھی پوشیدہ ہیں۔ امریکی اور اسرائیلی حکام کی جانب سے سعودی حکمرانوں کی حمایت کے ساتھ ساتھ مغرب میں سعودی عرب کے حامی ذرائع ابلاغ کے منفی پروپیگنڈے کے نتیجے میں مغربی ممالک میں یہ تاثر پیدا کیا جا رہا ہے کہ مشرق وسطی خطے میں موجود تمام مسائل کی جڑ ایران ہے اور سعودی عرب اس حوالے سے مکمل طور پر بیگناہ ہے اور مظلوم واقع ہوا ہے۔

خلیج تعاون کونسل کے حالیہ اجلاس میں جس کا اب صرف نام ہی باقی رہ گیا ہے، قطر اور عمان نے شرکت نہیں کی جو خطے میں سعودی عرب کی سربراہی میں موجود اتحاد ٹوٹنے کی علامت ہے۔ سعودی ولیعہد محمد بن سلمان اگر یونہی اپنی یکہ تازیاں جاری رکھے رہے تو عنقریب سعودی عرب کے ساتھ باقی عرب ممالک کا یہ محدود تعاون بھی ختم ہو جائے گا اور دیگر خلیجی ریاستیں اپنی راہیں سعودی عرب سے جدا کر لیں گی۔ شہزادہ محمد بن سلمان کے برسراقتدار آنے کے بعد سعودی عرب کی اندرونی صورتحال بھی اپنے سیاسی مخالفین کے خلاف طاقت کے بے جا استعمال، طویل مدت کیلئے انہیں جیل بھیجے جانے اور ٹارچر کرنے کے سبب ملکی تاریخ میں بے سابقہ طور پر عدم استحکام اور انتشار کا شکار ہو چکی ہے۔ مختصر یہ کہ سعودی عرب اپنی تاریخی کی ابتدا سے اب تک بری ترین صورتحال کا شکار ہو چکا ہے۔ اگر امریکہ سعودی عرب کی حمایت کرنا ترک کر دے تو یہ صورتحال مزید بگڑ سکتی ہے۔ یہاں یہ سوال پیش آتا ہے کہ کیا ریاض میں بغاوت کا امکان موجود ہے؟ حقیقت یہ ہے کہ سعودی عرب میں ناراض شہزادوں اور نیز ولیعہد محمد بن سلمان کی جانب سے فرمانروا ملک سلمان کے خلاف بغاوت کا قوی امکان پایا جاتا ہے لیکن اس کا نتیجہ بخش ہونا یا بے نتیجہ ہو جانا امریکی فیصلے پر منحصر ہے۔

سعودی شہزادے بخوبی آگاہ ہیں کہ اگر امریکہ کسی بغاوت کی حمایت نہ کرے تو وہ بے نتیجہ ثابت ہو گی جبکہ فی الحال امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ سعودی ولیعہد شہزادہ محمد بن سلمان کی اندھی حمایت کرنے میں مصروف ہیں۔ بعض امریکی ذرائع ابلاغ نے فاش کیا ہے کہ امریکی صدر کے داماد اور مشیر جیرڈ کشنر نے امریکی انٹیلی جنس ادارے سی آئی اے سے سعودی ولیعہد کے خلاف بغاوت کے امکان سے متعلق چند اہم اور خفیہ دستاویزات لے کر شہزادہ محمد بن سلمان کے حوالے کی ہیں۔ لہذا سعودی ولیعہد نے ایسے افراد کو یا تو جیل میں ڈال دیا ہے یا ان پر کڑی نگرانی شروع کر دی ہے جن کی جانب سے ان کے خلاف بغاوت کا خطرہ پایا جاتا تھا۔ یوں جب تک ڈونلڈ ٹرمپ اور جیرڈ کشنر شہزادہ محمد بن سلمان کی بھرپور حمایت کرنے میں مصروف ہیں ان کے خلاف کسی قسم کی کامیاب بغاوت کا امکان بہت کم ہے۔ دوسری طرف سعودی ولیعہد اس حمایت کی بھاری قیمت چکا رہے ہیں اور امریکہ کو اربوں ڈالر فراہم کر چکے ہیں۔ اس کے باوجود جب بھی امریکی حکومت شہزادہ محمد بن سلمان کو اقتدار سے علیحدہ کرنے کا فیصلہ کرے گی ان کے خلاف بغاوت کامیاب ہونے میں دیر نہیں لگے گی۔

بین الاقوامی سطح پر سعودی ولیعہد شہزادہ محمد بن سلمان کے سامنے آنے والے اسکینڈل سعودی عوام پر اثرانداز نہیں ہوں گے۔ اس کی وجہ یہ ہے کہ سعودی عوام انتہائی کم سیاسی معلومات کے حامل ہیں اور وہ ذاتی سہولیات اور محدود پیمانے پر سماجی آزادی کے بدلے ملک کے سیاسی امور میں مداخلت سے باز رہنے پر راضی نظر آتے ہیں۔ لیکں خود سعودی سلطنتی خاندان کے اندر بعض ایسے شہزادے موجود ہیں جو سابق ولیعہد شہزادہ محمد بن نایف کی طرح محمد بن سلمان کی حکومت کو ظالمانہ اور غاصبانہ قرار دیتے ہیں اور صرف امریکہ اور ٹرمپ کی وجہ سے ان کے خلاف راست اقدام کرنے سے باز آئے ہوئے ہیں۔ یہ صورتحال ظاہر کرتی ہے کہ موجودہ سعودی حکومت ہر وقت سے زیادہ امریکہ اور ڈونلڈ ٹرمپ کی حمایت کی محتاج ہے۔ دوسری طرف خود امریکہ کے اندر بھی ایوان نمائندگان کی جانب سے امریکی صدر پر سعودی عرب خاص طور پر سعودی ولیعہد شہزادہ محمد بن سلمان کی حمایت ترک کر دینے کیلئے دباو بڑھتا جا رہا ہے۔ اگرچہ ایوان نمائندگان کے اراکین صدر ڈونلڈ ٹرمپ کو کوئی فیصلہ کرنے پر مجبور نہیں کر سکتے لیکن ذرائع ابلاغ اور رائے عامہ کی جانب سے بھی شدید مخالفت امریکہ کی جانب سے سعودی حکمرانوں کی بے دریغ حمایت کم ہو جانے کا باعث بن رہی ہے۔

موجودہ صورتحال سے ظاہر ہوتا ہے کہ اس وقت وائٹ ہاوس سعودی ولیعہد شہزادہ محمد بن سلمان کو اقتدار سے علیحدہ کرنے کی طاقت نہیں رکھتا یا اس کا امکان بہت کم ہے۔ اس کی چند ایک وجوہات ہیں۔ سب سے بڑی وجہ اسرائیلی وزیراعظم بنجمن نیتن یاہو کی جانب سے شہزادہ محمد بن سلمان کو سعودی عرب میں برسراقتدار رکھنے کی خواہش ہے۔

اسرائیلی وزیراعظم یہ سمجھتے ہیں کہ شہزادہ محمد بن سلمان کا برسراقتدار رہنا ان کے حق میں ہے اور ان کے دشمن ممالک خاص طور پر ایران کے نقصان میں ہے۔ دوسری وجہ یہ ہے کہ خود امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ بھی سعودی ولیعہد کا اپنے عہدے پر برقرار رہنے اور حتی ان کے اختیارات میں مزید توسیع آنے کے حامی ہیں۔ وہ سعودی عرب میں شہزادہ محمد بن سلمان کی موجودگی کو امریکہ کے اقتصادی اور سیاسی مفادات کے حق میں تصور کرتے ہیں۔ دوسری طرف امریکی سینیٹ میں بھی کوئی ایسی شخصیت موجود نہیں جو سعودی ولیعہد کی اقتدار سے علیحدگی کی سنجیدہ خواہاں ہو۔ اس کی بنیادی وجہ یہ ہے کہ شہزادہ محمد بن سلمان مغربی ذرائع ابلاغ میں اسرائیل کے حامی اور ایران کے دشمن تصور کئے جاتے ہیں۔ اسی طرح خود سعودی خاندان میں بھی ایسے بہادر اور جرات مند شہزادے موجود نہیں جو سعودی ولیعہد کے خلاف راست اقدام کو لیڈ کر سکیں۔ وہ ہر اقدام کرنے سے پہلے یہ دیکھتے ہیں کہ آیا امریکہ ان کا حامی ہے یا نہیں۔ ان تمام اسباب کی وجہ سے شہزادہ محمد بن سلمان ابھی تک مسند اقتدار پر براجمان ہیں لیکن اگر اس کے بعد انہوں نے کوئی اور غیرانسانی مجرمانہ قدم اٹھایا تو اقتدار میں ان کا باقی رہنا محال ہو جائے گا۔

یہ بھی دیکھیں

مریم نواز ہی وزیراعلیٰ پنجاب کیوں بنیں گی؟

(نسیم حیدر) مسلم لیگ ن کی حکومت بنی تو پنجاب کی وزارت اعلیٰ کا تاج …