جمعرات , 25 اپریل 2024

فیس بک انتظامیہ میں بھارتی و اسرائیلی رسوخ

(تحریر: سید اسد عباس)

نیوز سائٹس پر اخبارہ گردی (بر وزن آوارہ گردی) کے دوران میں میری نظر ایک خبر پر پڑی جو ملکی وقار کے تناظر میں کافی اہم ہے۔ خبر میں لکھا گیا تھا کہ فیس بک نے پاکستان سے چلائے جانے والے ایسے درجنوں صفحات، گروپس اور پروفائلز کو بند کرنے کا فیصلہ کیا ہے، جن کا تعلق کمپنی کے مطابق پاکستانی فوج کے شعبہ تعلقات عامہ آئی ایس پی آر کے ملازمین سے ہے۔ فیس بک نے اپنے بیان میں کہا کہ ان اکاؤنٹس کو چلانے والوں نے اپنی شناخت کو خفیہ رکھنے کی کوشش کی ہے، مگر ہماری تحقیق کے نتیجے میں یہ ثابت ہوا ہے کہ ان اکاؤنٹس کے تانے بانے پاکستانی افواج کے شعبہ تعلقات عامہ انٹر سروسز پبلک ریلیشنز کے ملازمین سے ملتے ہیں، اس لیے انہیں بند کیا جا رہا ہے۔ فیس بک نے اپنے بیان میں کہا کہ ہم نے ان 103 پیجز، گروپس اور اکاؤنٹس کو اس وجہ سے بلاک کیا کیونکہ یہ مربوط اور غیر مصدقہ طرز عمل میں ملوث پائے گئے، جو ایک نیٹ ورک کا حصہ ہیں۔ فیس بک نے یہ بھی واضح کیا ہے کہ ان اکاؤنٹ اور پیجز کو ان کے طرز عمل کی بنیاد پر بند کیا جا رہا ہے، نہ کہ ان پر اس وجہ سے جو مواد ان پر پوسٹ کیا جاتا تھا۔

بی بی سی کی خبر کے مطابق ان میں سے اکثر پیجز میں کچھ موضوعات مشترک ہیں، فوج کی تعریف اور پاکستانی قوم کے لیے اس کی اہمیت اور اس کے کارنامے تقریباً تمام پیجز اور گروپس میں ایک نمایاں حیثیت سے پیش کیے جاتے رہے ہیں۔ اس کے بعد فوج کے شعبہ تعلقات عامہ کے موجودہ سربراہ میجر جنرل آصف غفور کی تعریف و توصیف اور انھیں ایک ہیرو کے طور پر پیش کیے جانے کا تھیم اکثر پیجز میں مختلف طریقوں سے نظر آتا ہے۔ تاہم ان تمام پیجز پر سیاسی یا جیو پولیٹیکل پیغامات یا پوسٹس نہیں ہوتی تھیں بلکہ ان میں سے کچھ ایسے بھی پیجز تھے، جن پر پاکستان کے حوالے سے مثبت پیغامات اور تصاویر شیئر کی جاتی تھی، جیسا کہ خوبصورت پاکستان اور جی بی ٹائمز کے نام سے پیج جس پر پاکستان کی خوبصورت تصاویر اور پوسٹس کو پیش کیا جاتا تھا۔

بی بی سی کے نامہ نگار نے فیس بک سے سوال کیا کہ انہوں نے کیسے یہ دعویٰ کیا ہے کہ بند کیے جانے والے صفحات اور اکاؤنٹس آئی ایس پی آر سے وابستہ ہیں تو کمپنی کے ترجمان نے بتایا کہ کمپنی اپنے طور پر ٹیکنالوجی اور تفتیش کے عمل پر کاربند ہو کر اس نتیجے پر پہنچی ہے۔ بی بی سی اردو کے عابد حسین کے مطابق کمپنی کے ترجمان کا کہنا ہے کہ ہم نے مختلف اقسام کے سگنلز کا مشاہدہ کیا اور اس کے لیے اپنی ٹیکنالوجی کا استعمال کیا اور ساتھ ساتھ تفتیش بھی جاری رکھی۔ جو لوگ ان صفحات کو چلا رہے تھے، انھوں نے اپنی شناخت چھپانے کی کافی کوشش کی، لیکن ہماری تفتیش سے یہ واضح تھا کہ ان تمام صفحات کے تانے بانے آئی ایس پی آر سے ملتے تھے۔ سب سے پہلے تو ہمیں امید کی جانی چاہیئے کہ فیس بک انڈیا، اسرائیل، امریکا اور دنیا کے دیگر ممالک میں حکومتی اداروں اور ایجنسیوں کے تحت چلنے والے پیجز پر بھی اسی طرح کارروائی کرے گی، نیز ان پیجز پر بھی مقالات بی بی سی اور دوسرے خبری چینلز کی زینت بنیں گے، یعنی ان کو باقاعدہ مقدمہ بنا کر پیش کیا جائے گا۔

سوشل میڈیا کی کمپنی چلانا اور ملک کے دفاع کو یقینی بنانا، زمین و آسمان کا فرق رکھتا ہے، آج جبکہ سوشل میڈیا اور معلومات کی جنگ کا زمانہ ہے تو ایسے میں کسی بھی میدان کو خالی چھوڑ دینا کسی بھی صورت دانشمندانہ رویہ نہیں ہے۔ اول تو فیس بک انتظامیہ کے پاس اس بات کا ثبوت نہیں ہے کہ ان پیجز کو کون چلا رہا تھا، پیجوں کے نظم کو دیکھتے ہوئے اسے افواج پاکستان کے شعبہ تعلقات عامہ کے سر تھونپ دیا گیا، دوسرا خود فیس بک انتظامیہ نے اس بات کا اعتراف کیا کہ ان پیجز پر حب الوطنی، فوج کے کارناموں اور کشمیر کے حوالے سے معلومات موجود تھیں۔ پاکستان میں ایسا کئی مرتبہ ہوا کہ ایسی پوسٹیں جن میں کشمیر، فلسطین یا یمن کا تذکرہ آیا کو صارف کے علم میں لائے بغیر ڈیلیٹ کر دیا گیا۔ پاکستان میں کئی ایک ایسے فیس بک صارفین کو میں ذاتی طور پر جانتا ہوں، جن کی آئی ڈیز کو کشمیر، یمن اور فلسطین کی حمایت کرنے پر فیس بک انتظامیہ کی جانب سے بلاک کیا گیا ہے۔

فیس بک جس پالیسی کے اہتمام کا دعویٰ کر رہی ہے، اگر واقعاً اسے اس پالیسی پر عمل درآمد کرنا ہے تو اسے اس کے لیے بھی منصفانہ طرز عمل اختیار کرنا چاہیئے، فقط پاکستان میں ایسے پیجز کی بندش فیس بک انتظامیہ میں پاکستان دشمن قوتوں کے رسوخ کی آئینہ دار ہے۔ مزہ تو تب تھا کہ پاکستان کے ساتھ ساتھ فیس بک ہندوستان، اسرائیل اور دیگر ممالک کے بھی ایسے ہی سینکڑوں پیجز کو منظر عام پر لا کر انہیں بند کرتی۔ فیس بک کی یہی حرکات ہیں، جس کے سبب دنیا کے کئی ممالک میں اس کا سودا بکنا بند ہوچکا ہے۔ اگر فیس بک کو پاکستان کی منڈی میں اپنا سودا بیچنا ہے اور یہاں سے منافع کمانا ہے تو اسے جلد از جلد ہندوستان اور اسرائیل کے خلاف بھی ایسا ہی فیصلہ کرنا ہوگا، ورنہ پاکستان کے صارفین یہ سوچنے پر مجبور ہوں گے کہ فیس بک ہمارے دشمن کا ایک کھلونہ نما ہتھیار ہے، جو ہمارے ملک میں معصوم لوگوں کے ہاتھوں میں تھما دیا گیا ہے۔

اس کھلونے کو اس کا بنانے والا اپنے فائدے کے لیے استعمال کرنا چاہتا تھا، تاہم جب اس کی کچھ تدبیریں الٹی ہوئیں تو اس نے یک طرفہ کارروائی اور الزام تراشی کا سہارا لے لیا، جو کسی صورت قابل قبول نہیں ہے۔ میری نظر میں ریاست پاکستان کو فیس بک پر ہرجانے کا دعویٰ کرنا چاہیئے اور ٹیکنالوجی کے استعمال سے دشمن کے ایسے پیجز کو منظر عام پر لانا چاہیئے، جو خفیہ آئی ڈیز سے چل رہے ہیں اور ان کا مقصد دیگر ممالک بالخصوص پاکستان کے خلاف منفی پراپیگنڈہ ہے۔ دوم یہ کہ ہمیں بھی روس، چین اور دیگر آزاد ممالک کی مانند ان مغربی سوشل میڈیا کمپنیوں پر انحصار کو کم سے کم کرنا چاہیئے، جو ہمارے ملک، نسل نو، دفاع اور نظریاتی اساس کے لیے ایک مستقل خطرہ ہیں۔

یہ بھی دیکھیں

مریم نواز ہی وزیراعلیٰ پنجاب کیوں بنیں گی؟

(نسیم حیدر) مسلم لیگ ن کی حکومت بنی تو پنجاب کی وزارت اعلیٰ کا تاج …