جمعرات , 25 اپریل 2024

مہنگائی میں اضافہ اور حکومتی جواز

(تحریر: طاہر یاسین طاہر)

لکھیے اسے خط میں کہ ستم اٹھ نہیں سکتا؟
پر ضعف سے ہاتھوں میں قلم اٹھ نہیں سکتا

کئی دنوں سے طبیعت ناساز ہے، اگر تندرست بھی ہوتا تو کیا میرے چار حرف حکومت کو مہنگائی کم کرنے پر قائل کر لیتے؟ ذوق بادشاہ کے استاد تھے، اپنے ہنر میں مشاق، شاعرانہ تعلیم اور غالب سے چشمک کو کوئی موقع ہاتھ سے نہ جانے دیتے۔ ایک شاعر، اوپر سے بادشاہ کے استاد۔ غالب نے جوابی وار کیا اور اتنا کہا،

بنا ہے شہ کا مصاحب پھرے ہے اتراتا
وگرنہ شہر میں غالب کی آبرو کیا ہے؟

بات اور طرف چل نکلی، کئی شعبدہ گر ایسے ہیں، جنھیں عوامی تکلیف کا کوئی احساس نہیں، ان کے ناز کو یہی کافی ہے کہ وہ حکومتی اقدامات کا دفاع کرنے میں صفِ اول کے "فقیروں” میں سے ایک ہیں۔ ہر ایک بڑھ بڑھ کر اپنی طبع کا زور آزماتا ہے۔ کچھ تو ایسے ہنرمند کہ گذشتہ آٹھ دس سالوں میں ہر شہ نے انہیں اپنا "مصاحب” رکھا۔

قوموں کے عروج و زوال کی داستانوں کا مطالعہ کیا جائے تو ہم میں ایسی بہت سے نشانیاں ہیں، جو زوال پذیر قوموں کی نمایاں نشانیوں میں سے ہیں، اس کے باوجود ہمیں ضد کہ ہم ترقی و بلندی کے راستے پر ہیں۔ فلاسفہ کا کہنا ہے کہ سماج اگر خوشحال ہے تو ریاست کی مضبوطی اور بادشاہ کی دانائی میں شک کرنے والا پاگل ہے۔ سوال بے شمار ہیں، جواب مگر کسی ایک کا بھی نہیں۔ حکومت کے اندر ایک سے زائد دھڑے ہیں، جو ایک دوسرے پر غالب آنے کی تگ و تاز میں ہیں۔ پی ٹی آئی کی حکومت آنے کی وجوہات بڑی سادہ ہیں، کرپشن کے خلاف جدوجہد، اقرباء پروری کی حوصلہ شکنی، وزیراعظم کا دیانت دار ہونا، پندرہ سے بیس افراد کی وفاقی کابینہ، 47 سے 50 روپے لیٹر تک پیٹرولیم مصنوعات کی قیمتیں کرنے کا دعویٰ، ٹیکس نیٹ میں اضافہ، یعنی ٹیکس چوروں کو ٹیکس نیٹ میں لانا، مافیاز کا خاتمہ، میرٹ کی بحالی، صحت و تعلیم کی ارزاں فراہمی، بے گھر افراد کو گھر دینا اور اسی نوع کی دیگر بہت سے دل نشیں باتیں جن سے عام آدمی کی امنگ میں اضافہ ہوا اور اس نے پیپلز پارٹی و نون لیگ کے بجائے پی ٹی آئی کو ترجیح دی۔

یہ ترجیح بھی واضح نہیں، بلکہ پی ٹی آئی کو آزاد امیدواروں کو جہاز میں بھر کر شریک ِ اقتدار کرنا پڑا اور ایم کیو ایم کے "نفیس” لوگوں پر تکیہ کرکے وفاقی حکومت کی بنیاد رکھی گئی۔ وزیراعظم عمران خان ٹیلی ویژن پر بیٹھ کر کہا کرتے تھے کہ جب مہنگائی بڑھ جائے تو سمجھو کہ آپ کا وزیراعظم کرپٹ ہے۔ یہ بھی کہا جاتا تھا کہ ہم حکومت میں آکر عام آدمی کی زندگی میں سہولت لائیں گے، وزیر خزانہ اسد عمر تو ٹیلی ویژن کے ایک ہی پروگرام میں معیشت کے عشروں سے کھڑے مسائل حل کر دیا کرتے تھے۔ عمران خان صاحب کا سارا زور کرپشن کے خاتمے اور پانامہ پیپرز کے کردار پر رہا۔ مگر ابھی تک لوٹی ہوئی دولت واپس تو نہیں آئی؟ جس ٹرانسپیرنٹ یعنی شفاف احتساب کی بات عمران خان ٹیلی ویژن پر بیٹھ کر کرتے تھے، اب اس احتسابی عمل اور اس کے نتائج پر اہلِ نظر باتیں کر رہے ہیں۔ باتیں بالکل بجا ہیں، کیونکہ حکومت کے احتساب کا سارا رخ نواز لیگ اور پیپلز پارٹی کی طرف ہے۔ اوپر سے وزیراعظم نے یہ بیان بھی داغ دیا کہ حکومت کہیں نہیں جا رہی بلکہ آصف علی زرداری جیل جا رہے ہیں۔ بے شک ملک میں کرپشن ہوئی، بلکہ ابھی تک سماج اسی روش پر "قائم” ہے۔ کرپشن اور اقرباء پروری کے طریقے بدل گئے لیکن سماجی رویہ نہیں بدلا۔

قوموں کی تقدیر دو چار روز میں نہیں بدلتی، بلکہ اس کے لیے عشروں محنت کرنا پڑتی ہے۔ حکومت سے کوئی معجزہ بپا نہیں ہوگا۔ مگر مہنگائی کنٹرول کرنے کے لیے حکومت کے پاس کوئی حکمت عملی بھی تو نہیں؟ بلکہ وزیر خزانہ اسد عمر نے پیٹرولیم مصنوعات کی قیمتوں میں اضافہ سے قبل بیان دیا تھا کہ ایسی مہنگائی آنے والی ہے، جس سے عوام کی چیخیں نکل جائیں گے۔ اگر حکومت نے محصولات کے لیے پیٹرولیم مصنوعات کی قیمتوں میں اضافہ کرنا ہی تھا تو ایسا بیان داغنے کی کیا ضرورت تھی؟ جس سے سماج کے اندر ہیجان پیدا ہوا۔ کیا تبدیلی کا سادہ مفہوم یہی ہے کہ پیٹرولیم سمیت اشیائے ضروریہ کی قیمتوں کو "تبدیل” کر دیا جائے۔ وزیر خزانہ نے کہا کہ مہنگائی 2008ء اور 2013ء کی نسبت کم ہے، ان سے صرف ایک سوال کہ 2013ء میں چینی کی فی کلو گرام قیمت کیا تھی اور اب کیا ہے۔؟

ساری حکومتوں کی جو قدر مشترک رہی، وہ یہی کہ عالمی منڈی میں تیل کی قیمتوں میں ہونے والے اضافے کو جواز بنا کر پیٹرولیم مصنوعات کی قیمتیں بڑھا دی جاتی ہیں۔ لیکن عالمی منڈی میں جب پیٹرول کی فی بیرل قیمت کم ہوتی ہے تو کبھی بھی عالمی منڈی کے اس رحجان کا فائدہ پاکستانی صارف کو نہیں دیا گیا۔ اب بھی عالمی منڈی میں تیل کی قیمتوں میں 2 فی صد اضافہ ہوا، جبکہ پی ٹی آئی حکومت نے 6.45 تک اضافہ کیا۔ کیا یہ تناسب درست ہے؟ وزیر اطلاعات نے کہا کہ اب بھی پاکستان میں پیٹرولیم مصنوعات کی قیمتیں پڑوسی ممالک سے کم ہیں، مگر وہ یہ بھول گئے کہ پڑوسی ملک میں ڈالر کے مقابلے میں مقامی کرنسی کتنی مستحکم ہے اور ہمارے ہاں کیا ہے؟ پیٹرولیم مصنوعات کی قیمتوں میں اضافے کا کوئی جواز نہیں۔ اگر کوئی اس ظالمانہ اقدام کا بھی دفاع کرتا ہے تو وہ بری طرح شخصیت پرستی اور ذہنی خلفشار کا شکار ہے۔

مجھے یاد پڑتا ہے، اسحاق ڈار صاحب نے فرمایا تھا کہ اگر دالیں مہنگی ہیں تو لوگ مرغی کھائیں، پیپلز پارٹی کے دور میں ٹماٹر مہنگے ہوئے تو ایک وفاقی وزیر نے کہا کہ لوگ ٹماٹر کے بجائے ہانڈی میں دہی استعمال کریں، طلب کم ہوتے ہی ٹماٹر کی قیمت بھی کم ہو جائے گی۔ اب چونکہ "ماہرین” اور "دانش وروں” کی حکومت ہے، اس لیے وزیر خزانہ نے بات کو عام فہم کرتے ہوئے فرمایا کہ اشیائے خوردونوش کی قیمتوں میں اضافے سے مہنگائی بڑھی ہے۔ کیا یہ سچ نہیں کہ پی ٹی آئی بری طرح اپنے وعدوں اور دعووں کی "زد” میں آئی ہوئی ہے۔ اعداد و شمار عام آدمی کا کبھی بھی مسئلہ نہیں رہا۔ لوگوں کو دال، چاول سمیت روز مرہ کی اشیائے ضروریہ کی ارزاں نرخوں پر دستیابی درکار ہے۔

کس نے کتنا قرض کب لیا اور اب حکومت کو واپس کرنے لیے کیا مشکلات ہیں؟ عام آدمی اس سے قائل ہونے سے رہا۔ عام آدمی نے موجودہ حکومت کو ووٹ ہی اس لیے دیا کہ عمران خان اپنی "ماہرانہ ٹیم” کے ساتھ مشکلات کم کریں گے، لیکن حالات اور طرف چل نکلے ہیں۔ سچ بات یہی ہے کہ موجودہ حکومت گزشتگان سے بھی بری پرفام کر رہی ہے۔ کوئی روڈ میپ نہیں، کوئی اہل شخص نہیں، پارٹی دو تین دھڑوں میں کھیل رہی ہے اور مہنگائی کا دفاع کرنے کے لیے طرح طرح جواز گھڑے جا رہے ہیں۔ حکمت، اہل علم و ہنر سے رابطہ اور معیشت کو نئی ڈگر پر ڈالنے کے لیے حکومت کو روایتی کے بجائے سائنسی بنیادوں پر اقدامات اٹھانا ہوں گے۔ حکومت لیکن اپنی توانائیاں اپنی انا کی تسکین کرنے میں لگا رہی ہے۔

یہ بھی دیکھیں

مریم نواز ہی وزیراعلیٰ پنجاب کیوں بنیں گی؟

(نسیم حیدر) مسلم لیگ ن کی حکومت بنی تو پنجاب کی وزارت اعلیٰ کا تاج …